پاکستانی سیاست کے وینا ملک

پیر 14 جولائی 2014

Shahid Iqbal

شاہد اقبال

عنوان سے کہیں یہ نہ سمجھیے کہ ہم ملک برادری کے نام اور مقام کو بٹہ لگانے والی کسی فنکارہ کیبے باکی کا مرثیہ کہنے لگے ہیں۔ نہ ہی ہمارا مقصد پاکستان کے سافٹ امیج کی بیرونِ ملک زورو شور سے تشہیر کرنے والی کسی باکمال کلاکار کی تضحیک ہے۔ ہم دراصل اس حیرت انگیز مماثلت کا ذکر کرنا چاہتے ہیں جو وینا ملک اور ہمارے بہت سے سیاست دانوں کے درمیان پائی جاتی ہے اور جس کا سب سے واشگاف اظہار کینیڈا سے دوسری دفعہ نازل ہونے والے ہما رے ایک انقلابی لیڈر کے ہاں ہوا۔

فن اور سیاست جو دو متضاد دنیائیں ہیں ان کے دو کھلاڑیوں کے درمیان اس حد تک اشتراکِ خیال نے ہمیں بھونچکا ہونے پر مجبور کر دیا ہے اور ہم حیران ہیں کہ دل کو روئیں یا جگر کو پیٹیں۔ یہ مماثلت کیا ہے اس کا ذکر ہم آگے چل کر کریں گے پہلے سفرِ انقلاب کی بات ہو جائے۔

(جاری ہے)


جب قادری صاحب پاکستان کے دکھی عوام کے لیے مسیحا بننے کی آس میں بڑی شا ن و شوکت اور جاہ و جلال سے کینیڈا سے پچھلے سال پہلی دفعہ پاکستانتشریف لائے اور لاہور میں ایک انقلاب آفریں خطاب میں تبدیلی کا نعرہِ مستانہ بلند کیا تو بہت سے لوگوں کا ماتھا اسی وقت ٹھنک گیا تھا کہ پاکستانی سیاست کی یہ وینا ملک نہ جانے کون سے نئے گل کھلانے نکل کھڑی ہوئی ہے۔

اسلام آباد کے لایعنی دھرنے نے اس خیال کو مزید تقویت دی تھی کہ ہو نہ ہو شیخ الاالسلام اپنے کسی بے سروپا خواب کی رتھ پر سوار سلطنتیں فتح کرنے نکلے ہیں۔ بھلا ہو پیپلز پارٹی کی مست حال حکومت کا جنہوں نے اپنی بے عملی سے مولانا کے غبارے سے ہوا نکال دی اور مولانا کا دھرنا دھرے کا دھرے رہ گیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ شیخ الاالسلام اس دھرنے کی درگت سے سبق سیکھتے اور چپکے سے واپس کینیڈا چلے جاتے جہاں بہت سی گوریاں ان کے مواعظ سے آغوشِ اسلام میں آنے کے لیے یقیناًبے قرار ہوں گی لیکن ستاروں سے آگے ابھی کچھ جہاں باقی تھے جنہیں فتح کرنے مولانا سپریم کورٹ آ دھمکے۔


عدل کے اعلیٰ ایوانوں میں مولانا کی جو آوٴبھگت ہوئی اور انہیں جس طرح بے آبرو ہو کر یہاں سے تشریف لے جاناپڑا وہ یقیناًہماری تاریخ کا ایک دکھی باب ہے اور اس کا تذکرہ کرنا کچھ مناسب نہیں لیکن اتنا ذکر کرنا بحر حال ضروری ہے کہ مولانا کا مقصد نہایت دلپذیر تھا وہ پاکستا ن کے عوام کو ایک ایسا الیکشن کمیشن دینا چاہتے تھے جو مولانا کے علاوہ ہر امیدوار کو نااہل قرار دے اور یوں مولانا اور ان کی پارٹی کی صورت میں ایک ایسی صاف ستھری قیادت پاکستانی عوام کو مہیا کرے جو اپنے اور ان کے دکھوں کا مداوا کرے۔

افسوس کہ سپریم کورٹ کے کوتاہ بیں جج مولانا کی منطق کو سمجھ نہیں پائے اور دہری شہریت میں ہی الجھے رہ گئے۔ یہ بات سمجھنے کے لیے ارسطو یا افلاطون ہونے کی ضرورت نہیں کہ مولانا نے کینیڈا کی شہریت کسی ذاتی منفعت یا فائدے کے لیے حاصل نہیں کی بلکہ اس کا واحدمقصد ترویجِ اسلام تھا جو ظاہر ہے کفرستان کی وادیوں میں حوریانِ فرنگ کے درمیاں زیادہ بہتر طور پر کی جاسکتی ہے لیکن ہمارے جج صاحبان مادی دنیا کے مسائل میں اس حد تک الجھے ہوئے ہیں کہ روحانیت کے یہ اسرار و رموز سمجھ نہیں پائے اور یوں ایک عظیم انقلابی لیڈر کو دھتکار کر گناہِ عظیم کے مرتکب ہوئے۔

خدا ان کی حالت پر رحم کرے۔
جو لوگ اس خام خیالی میں تھے کہ شیخ الالسلام پاکستانی عدلیہ کے اس افسوس ناک رویے سے دلبرداشتہ ہو کر اب چپکے بیٹھ جائیں گے انہوں نے شاید وینا ملک کے دبستانِ خیال (سکول آف تھاٹ) کا اچھی طرح مطالعہ نہیں کیا۔ وینا ملک اگر پاکستان کی زوال پذیر فلم انڈسٹری کی خستہ حال کشتی میں بیٹھی رہتی تو کب کی گمنامی کی لہروں میں بہ چکی ہوتی اور آج کوئی اس نادرِ روزگارفنکارہ کے نام سے بھی واقف نہ ہو تا لیکن ایک پیشہ ور جنگجو کی طرح وینا نے حالات کے آگے جھکنے کی بجائے اپنے ان خفیہ اور خفتہ ہتھیاروں سے جنگ آزمائی شروع کر دی جنہیں عام کمزور دل گردے والے جنگجو یوں سرِ عام استعمال کرنے کاسوچ بھی نہیں سکتے۔

سر زمینِ ہند چونکہ طالع آزمائی کے لیے زیادہ مناسب تھی اس لیے وینا نے ادھرکا رخ کیا اور اپنی صلاحیتوں کے وہ جوہر دکھائے کہ زمانہ عش عش کر اٹھا۔وینا کی طرح شیخ الاالسلام بھی حالات کے سامنے جھکنے والینہیں ہیں۔ انہوں نے بھی اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے وینا ہی کی طرح ہر قربانی دینے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ ایک سال کینیڈا کی انقلابی فضاؤں سے اپنے دل و جگر کو تقویت دینے کے بعد اب پھر سر زمینِ پاکستان میں اپنے انقلابی نعروں سے یہ پاکستانی کی سوئی ہوئی عوام کو جگانے کی ناکام کوشش کررہے ہیں۔

کچھ لوگوں کا یہ خیال کہ شیخ الالسلام اقتدار کی ہوس میں باوٴلے ہو چکے ہیں بالکل اسی طرح جھوٹ ہے جیسے یہ کہنا کہ وینا ملک شہرت کی حرص میں پاگل ہوچکی تھی۔ دونوں اپنی اپنی دنیاوٴں کے فنکار ہیں اور دونوں کا یہ مشترک اصول ہے کہ اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے کیا جانے والا کوئی فعل غلط نہیں ہوتا چاہے آپ کو کسی انتہا پر ہی کیوں نہ جانا پڑے ہاں دونوں کا طریقہ واردات تھوڑا مختلف ہے ۔


شیخ الاسلام نے سالِ گذشتہ کے انقلابی دورے کی طرح اس سال کے دورہ ِ انقلاب میں بھی ابھی سے تاریخیں دینی شروع کر دی ہیں اور عوام کو خبردار کیا ہے کہ وہ انقلاب کے لیے ہمہ وقت تیار رہیں۔یوں لگ رہا ہے کہ انقلاب کا جاں فزا جھونکا اب مہینوں کی بات نہیں بلکہ ہفتوں کا قصہ ہے ۔ اس لیے پاکستان کے غریب عوام کو اب کسی بھی لمحے انقلاب کی نوید سننے کے لیے اپنے قلب و ذہن کو تیار رکھنا چاہیے ۔

یکدم خوشی ملنے سے شادی مرگ کی کیفیت طاری ہونے سے بچنے کے لیے احتیاطا انقلاب کا ایک خیالی نقشہ پہلے سے ذہن میں ہونا ضروری ہے!
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہماری سیاست ویناوٴں سے بھری پڑی ہے۔حصولِ اقتدار کے لیے ہمارے سیاست دانوں کی اکثریت معاشرے کے تمام مروجہ ضوابط کی دھجیاں بکھیرنے سے گریز نہیں کرتی۔ کوئی اخلاقی قدر ، کوئی قانونی ضابطہ اور کوئی مذہبی اصول ان کے راستے کی زنجیر نہیں بن سکتا۔

ہر حد کو توڑ کر یہ اقتدار کے ایوانوں تک پہنچتے ہیں اور اس دیس کے مظلوموں کو بھوک افلاس اور کرپشن کے تحفے دیتے ہیں۔ طاہر القادری پاکستانی سیاست کے اسی قبیلے کے سب سے بڑے سر خیل بن کر منظر پر دوسری دفعہ طلوع ہوئے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ امارات ائیر لائن کے کوچے سے بے آبرو ہو کر نکلنے کے بعد شیخ الالسلام کس گلی کا رخ کرتے ہیں۔ اتنا طے ہے کہ کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی۔ وینا ملک اور طاہر القادری ہر دو کے ترکش میں ابھی کچھ تیر باقی ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :