انسانیت کی موت

پیر 14 جولائی 2014

Qasim Ali

قاسم علی

امریکہ ویورپ کے ناپاک بطن سے جنم لینے والی ناجائز اولاد اسرائیل نے قبلہ اول کے باسیوں اور اس کے حقیقی وارث فلسطینیوں کے خلاف ظلم و بربریت کی داستان ایک پھررقم کرنا شروع کردی ہے اگرچہ اسرائیل کی جانب سے ایسا پہلی بار نہیں کیا گیا لیکن اب کی بار اس نے ایک ایسے وقت میں اہل غزہ کو مشق ستم کا نشانہ بنایا ہے جب رمضان المبارک کا مقدس مہینہ ہم پر سایہ فگن ہے یہ وہ مہینہ ہے جس کا احترام اسلام سے قبل وہ لوگ بھی کرتے تھے جن کے دور کو آج ہم دور جاہلیت کہتے ہیں مگر اس ماہ مباک کے ایام میں یہودیوں کی جانب سے نہتے فلسطینیوں پر بمباری کے بعد یہ سمجھنے کیلئے کسی اعلیٰ دماغ کی ضرورت نہیں کہ اسرائیلی علم و تہذیب تو دور کی بات انسانیت سے ہی عاری ہیں جن کی اندھادھند بمباری سے گزشتہ ایک ہفتہ کے دوران تقریباََ دوسو کے قریب فلسطینی شہید ہوچکے ہیں جن میں زیادہ تر تعداد عورتوں اور بچوں کی ہے اس کے علاوہ پندرہ سو کے قریب افراد زخمی بھی ہوئے ہیں یقیناََ اسرائیل کی تباہ کن بمبنگ کے نتیجے میں شدید زخمی ہونے والوں میں ایک بڑی تعداد ایسے مریضوں کی ہوگی جو یا تو جاں سے گزرجائیں گے یا اگر بچ گئے تو ان کی باقی ماندی زندگی معذوری کی حالت میں زندہ لاشوں کی مانند گزرے گی اور تو اور اس درندہ صفت اور انسانیت کے بدترین دشمن نے مساجد اور معذوروں کے مرکز تک کو بھی نہیں چھوڑااور یہاں بھی بمباری کرکے اپنے اندر کی حیوانیت کو تسکین دی۔

(جاری ہے)

یہ تو تھی اسرائیل کے حالیہ حملے کی ایک اجمالی تصویر اب دوسری طرف اقوام متحدہ کے نام پر قائم صیہونی لونڈی اقوام متحدہ کا کردار بھی اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھئے کہ اس تمام تر ظلم کے مقابلے میں جب فلسطین مجاہدین کی جانب سے اسرائیل پر چند راکٹ فائر کئے گئے (جن سے کوئی جانی نقصان بھی نہیں ہوا)تو اس پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو بہت تکلیف اٹھی اوراس نے فلسطینیوں کو فوراََراکٹ باری بند کرنے کی ہدائت کی دوسری جانب جب اس نے یہی اپیل اسرائیل سے کی تو اس نے اقوام متحدہ کو جوتی کی نوک پر رکھتے ہوئے کہا کہ غزہ پر حملے مزید تیز کئے جائیں گے اور یہ کب ختم ہوں گے اس کا بھی کوئی ٹائم فریم نہیں دیا جاسکتا ۔

اس کیساتھ ہی اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے غزہ کے باسیوں کو حکم جاری کردیا ہے کہ وہ فوراََ غزہ خالی کردیں کیوں کہ عنقریب غزہ پر مزید بڑے حملے کرنے کی تیاریاں کی جارہی ہیں
ان متوقع حملوں کی تصدیق اس طرح بھی ہوجاتی ہے کہ جرمنی و آسٹریلیا سمیت دیگر ممالک نے بھی گزہ میں موجود اپنے شہریوں کو علاقہ چھوڑنے کی ہدایات جاری کردی ہیں تاکہ اسرائیلی حملوں میں ان کی ''قیمتی''جانیں ضائع نہ ہوں ۔

اب صورتحال یہ ہے کہ فلسطینی ایک جانب تو اسرائیلی مظالم کے نتیجے میں اپنے بچوں ،عورتوں اور جوانوں کی لاشیں اٹھا رہے ہیں تو دوسری جانب اس کیساتھ ملحقہ ایک اسلامی ملک مصر نے پناہ گزینوں کے ''خوف''سے اپنی سرحد کو بند کردیا ہے گویا کہ غزہ کے 20لاکھ مسلمان محض تین سو ساٹھ مربع کلومیٹر کے رقبے میں قید ہوکررہ گئے ہیں کھانے پینے کی سہولیات تو ایک طرف اس کے زخمیوں کو علاج معالجے کی آسانی بھی نصیب نہیں کیوں کہ بدبخت یہودی ہسپتالوں کو بھی نشانہ بناتے رہتے ہیں ۔

گویاکہ
دشمنوں نے تو دشمنی کی ہے
دوستوں نے بھی کیا کمی کی ہے
جیسی صورتحال ہے جس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ حالیہ اسرائیلی حملوں کے تناظر میں سب سے زیادہ افسوسناک بلکہ شرمناک مظاہرہ ''برادر''اسلامی ممالک کی جانب سے دیکھنے میں آیا ہے کیوں کہ اسلام کی تعلیمات کے مطابق تو دنیا بھر کے مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں کہ جسم کے ایک حصے میں اگر تکلیف ہوتو اس کو پوراجسم محسوس کرتا ہے مگر فلسطینی بھائی جو اکثر اسرائیلی درندوں کی سفاکیت کا نشانہ بنتے رہتے ہیں مگر 57اسلامی ممالک کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی اب بھی جب کہ اسرائیلی جارحیت کو اتقریباََ ایک ہفتہ ہونے کو ہے اور اب جاکرعرب لیگ نے پیر کو اس صورتحال کو ''دیکھنے''کیلئے ایک عدد ''ہنگامی''اجلاس ''رچانے''کا اہتمام کیا ہے''ہائے اس زودِ پشیماں کا پشیماں ہونا''۔


آخر میں میری تمام قارئین سے گزارش ہے کہ وہ رمضان المبارک کی مقدس ساعتوں میں خصوصاََ سحری و افطاری کے اوقات میں اپنے ان بھائیوں کی مشکلات و مسائب کو بھی ضرور اپنے ذہن میں رکھیں اور کم از کم ان کیلئے دعاضرور کریں جو کسی بھی قسم کی امداد کے بغیر کھلے آسمان تلے بے آسرا بیٹھے اس امت مسلمہ سے امیدیں لگائے بیٹھے ہیں جن کی ''مصلحت''نے انہیں اس حد تک عاجز کردیا ہے کہ انہیں اسرائیل کے ان بدترین ظالمانہ حملوں کی مذمت تک کرنے کی بھی ہمت نہیں ہوپائی اور اپنی اپنی عیاشیوں میں غرق ہیں مگر وہ یہ بھول رہے ہیں کہ آج فلسطینیوں بھولنے والوں پر بھی یہ وقت آسکتا ہے اور اس وقت یہ مدد کو پکاریں گے اور کفار ان کی آہ و بکا پر قہقہے لگائیں گے۔یااللہ اس امت پررحم فرما۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :