میاں برادران کی سیاسی ترجیحات

پیر 14 جولائی 2014

Rauf Uppal

رؤ ف اُپل

بہت تجربہ کار میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف اپنی صلاحیتوں کو عوامی خدمت کی آڑ میں ذاتی بزنس کے لیے بڑی کامیابی کے ساتھ استعمال کر رہے ہیں۔ ۔ ترجیحات وہ نقطہ ہے جس پر کوئی بھی چھوٹا بڑا لیڈر عمل کرکے بڑے سادے اور شفاف طریقے سے عوامی و ملکی خدمت کر سکتاہے ۔ ۔ پاکستانی عوام کے لیے حکومتی کی عمومی ترجیحات درج ذیل ہوسکتی ہیں
1 ۔

عوامی عزتِ نفس کی بحالی
2۔ تمام پاکستانیوں کے لیے روٹی کپڑا اور مکان
3۔انرجی کراسس ۔۔ بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ اور اس کا سدباب
4۔پاکستان کا تعلیمی نظام
5۔پاکستان میں صحت کا نظام
6۔ بے روزگاری کے خاتمے کے لیے اصلاحات
7۔دہشت گردی اور عدالتی نظام و انصاف کی فراہمی
8۔ بہتر زرائع آمدورفت کی فراہمی

(جاری ہے)

عوام کے لیے پارکس اور تفریحی سہولیات
عوامی عزتِ نفس کی بحالی اور اقداما ت تو کہیں دور دور نظر نہیں آتے ۔

۔ حقیقت یہ ہے کہ عوام روزگار کی دوڑ میں عزتِ نفس کی ڈیمانڈ بھی نہیں کررہے۔ ۔ مگر کسی بھی بہتر معاشرے میں اس کی قدرومنزلت انتہائی ضروری اور اہم ہے ۔ ۔ ایک عام شہری کو اگر کبھی کسی کام کے لیے کسی تھانہ کچہری یا کسی سرکاری دفتر میں جانا پڑجائے تو پھر اسے اپنی اوقات کا اندازہ بخوبی ہوجاتا ہے ، پھر وہ تمام لیڈران کو اور خاص کر اس پارٹی اور اس پارٹی کے لیڈر کو جس کو اس نے ووٹ کاسٹ کیا ہوتا ہے وہ کلام بخشتاہے۔

۔ چاہے اس کا کام ہو یا ناں ہو مگر اس کے دل کی بھڑاس ضرور کم ہوجاتی ہے۔
روٹی ،کپڑا اور مکان کا نعرہ کیونکہ پاکستان پیپلز پارٹی کا ہے اس لیے میاں صاحب کی پارٹی اس طرف توجہ دینے سے کتراتی ہے۔ ۔ آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ پچھلے ادوار کی نسبت آج جو آٹا ،چینی ، گھی اور دوسری اشیائے خوردونوش کی قیمتیں ہیں وہ چیخ چیخ کر غریب عوام کا منہ چڑا رہی ہیں ۔

۔ کپڑا اور مکان تو کوئی تب مانگے گا جب پیٹ میں روٹی ہوگی اور وہ کچھ اور سوچ سکے گا۔ ۔ ابھی تک اشیائے خوردونوش کی کوئی سکیم یا پالیسی ایک سال گزرنے کے باوجود عمل میں نہیں لائی جا سکی۔ نون لیگ والے روٹی کپڑا اورمکان کی پالیسی کے خلاف عمل پیرا ہیں اور انہوں نے یہ کام پاکستان پیپلز پارٹی کے لئے چھوڑا ہواہے۔ ۔ وہ اس ایجنڈے پر اس لئے عمل نہیں کررہیں کہ اس پر زرداری پارٹی کا حق زیادہ ہے۔


حال ہی میں نندی پور پاور پراجیکٹ کے فیز ون کو مکمل کیا گیا ہے ۔ ۔ 24 روپے فی یونٹ 95.MW بجلی پہ فخر کرنے والے یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ پاکستان میں بجلی تو اہم ہے مگر اتنی مہنگی بجلی عوام وملک کے لئے قابل قبول نہیں ہو سکتی۔۔ اس کا ڈائریکٹ یا ان ڈائریکٹ بوجھ عوام پر ہی پڑنے والا ہے۔ ۔ ۔ ۔گیس کی لوڈشیڈنگ کبھی سردی کے موسم میں ہوا کرتی تھی ، آج حکومتی کرم سے گرمیوں میں گیس کی بندش جاری ہے ۔

عوامی چولہے بج چکے ہیں، حکومت ایوانوں سے نکل کر پبلک میں نکلیں تو ان کو عوامی مشکلات کا اندازہ ہو۔ ۔ بجلی کے کچھ اور منصوبے میاں برادران نے شروع کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے تا ہم ان کی کامیابی کا دارومدار ان صا حبان کی نیتوں پر ہے۔ ۔ اللہ خیر کرے ۔
کئی قسم کا نظام تعلیم پاکستان میں رائج ہے۔ ۔ ماہرین ِ تعلیم اور ہر عام آدمی یہ بات جانتاہے کہ یہ نظام تعلیم ہمارے ملک میں امیر اور غریب کے درمیان فاصلے اور نفرتیں پیداکررہا ہے۔

۔ مڈل کلاس اس نظام میں کبھی اوپر نہیں آسکتی، اگر کوئی عام آدمی اس نظام تعلیم سے ایوان یاکسی مقام پر پہنچ بھی جائے تو اس کی آواز اتنی کم ہوتی ہے کہ اس کا فائدو عام آدمی کے لئے زیروہوتا ہے۔ ۔ بلکہ وہ خود اس نظام میں ضم ہو جاتا ہے۔ ۔اس ملک میں سب سے زیادہ ضرورت یکسان نظام تعلیم کی ہے ۔ ۔ سرکاری سکولوں اور پرائیویٹ اداروں میں کورس (نصاب) ایک ہی ہونا چاہیے۔

۔ دوسری زبان میں ٹاٹ پر بیٹھ کر پڑھنے والا اور اے سی کمروں میں بیٹھ کر پڑھنے والے کا نصابِ تعلیم ایک ہو۔ ۔ ایک سٹینڈرڈ متفقہ اسلامی نظامِ تعلیم۔۔ حکومت اپنی توانائی اور پیسہ اپنا سریا اور سیمنٹ بیچنے اور پل بنانے میں لگا دے گی تو ظاہری تعمیروترقی کا فائدہ عارضی ہوگا۔
اچھی تعلیم اور صحت کی سہولیات اس ملک کی پہلی ترجیح ہونی چاہیے تھی مگر بد قسمتی سے اس طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی جارہی۔

۔ سرکاری ہسپتالوں کی حالت اور انتظامات شرمنات حد تک خراب ہیں، ہمارے لیڈران کبھی ان سرکاری ہسپتالوں میں وزٹ کرکے تو دیکھیں۔ ۔ شہباز شریف صاحب کبھی کبھی لاہور میں ان ہسپتالوں کا وزٹ کیا کرتے تھے جس کی بدولت لاہور کے ان ہسپتالوں کا نچلا طبقہ دھیان سے ڈیوٹی دینے لگ گیا۔ ۔ مگر شہباز شریف صاحب کو خود کبھی ان ہسپتالوں میں علاج کروانے کی جرات نہیں ہوئی ہو گی اس لئے کہ ان کو ان ہسپتالوں کا سٹینڈرڈ اچھی طرح سمجھ ہے۔

۔میا ں صاحب ان ہسپتالوں کا معیار ان ہسپتالوں کے نزدیک ہونا چاہیے جہاں سے آپ علاج کرواتے ہیں کیونکہ پیسہ اب ہماری حکومت کے پا س بہت ہے۔ ۔ آپ کی تمام تر توجہ سڑکوں اور پل بنانے پر مرکوز ہے ، کہیں ایسا ناں ہوکہ آپ کی میٹرو بس یا کشادہ روڈز کی سہولت سے مریض تو ٹائم پر ہسپتال پہنچ جائے مگر ہسپتال میں انجکشن ناں ملنے یا ڈاکٹر کا ڈیوٹی پر ناں ہونے کی وجہ سے کچھ فائدہ نا ں ہو۔


مرکزی حکومت کی قرضہ سکیم تو کامیاب نہیں ہوسکی۔ ۔ ویسے نوجوانوں کو مقروض کرنے کی اس سکیم سے بہتر ہے کہ آپ یہاں انڈسٹری زون بنانے کو ترجیح دیں تاکہ نوجوانوں کے لئے روزگار کے مواقع پیداہوں۔ ۔ بہتر ہے کہ آپ کے بچے جو باہر کے ممالک میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں یہاں بھی سرمایہ کاری کریں تاکہ ملکی تعمیرو ترقی میں آپ کا بھی حصہ ہو۔ ۔ مانا پاکستان میں سرمایہ کاری دوسرے ممالک کی نسبت رسکی ہے مگر آپ کے پاس اب اتناپیسہ ہے کہ آپ آسانی سے رسک لے سکتے ہیں۔


طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے ہیں یا فوجی آپریشن حکومت خود ابہام کا شکار رہی ہے۔ ۔ اب ائرپورٹ حملے کے بعد طالبان کے خلاف آپریشن کا حکومتی فیصلہ مجبوری اورضرورت بن چکا تھا مگر یاد رکھیے گا اس آپریشن کی کامیابی اسی فوج کی بدولت ہوگی جن کو حکومت آڑے ہاتھوں لے رہی تھی ۔۔ ۔۔ باقی دہشت گردی کا خطرہ بھی توزیادہ تر صرف عوام کے لیے یا ان خاص اداروں کے لئے ہے جو دہشت گردوں کو کھٹکتے ہیں۔

۔ آپ کی حفاظت کے لئے تو سرکاری خزانہ اور ہزاروں کی نفری موجود ہے۔ ۔ آپ کے قافلے کے پاس سے تو چڑیا بھی پر نہیں مار سکتی۔ ۔ ۔ ۔ اندرونی طور پر حالات اتنے گھمبیر ہوچکے ہیں کہ آج کوئی شاہراہ کوئی گلی کوئی محلہ چوروں، ڈاکوؤں اور راہزنوں سے محفوظ نہیں۔ ۔ چوری ڈکیتی کی زیادہ تر وارداتیں پولیس کی زیرنگرانی ہوتی ہیں، اور زیادہ تر سے مراد بہت زیادہ ہیں۔

۔ تھانہ کلچر آپ کے دعووں کے باوجود تبدیل نہیں ہوسکا، کیونکہ تھانہ کلچر ریفارمز لانے سے تبدیل ہوگا ناں صرف باتیں کرنے سے۔ ۔ہمارے عدالتی نظام میں بھی کوئی تبدیلی نہیں لائی جاسکی، وہ لاٹھی بھینس والا محاورہ بدلا نہیں جا سکا، اگر کوئی تبدیلی آئی ہوگی تو وہ پرویز رشید کو پتا ہوگی۔
صحت مند زندگی کے لئے کھیل اور عوام کی سہولت کے لئے پارکس کسی صحت مند معاشرے کے لئے بہت ضروری ہیں۔

۔ پارکس اور پلے گراؤنڈ زکی سہولت اب صرف ہاؤسنگ سکیموں میں ہی ملے گی ، باقی پبلک گلیوں ، محلوں اور کوڑے کے ڈھیروں پر کھیل کر اپنے شوق بھی پورے کر رہی ہے اور جان بھی بنا رہی ہے۔
ذرائع آمدورفت وہ شعبہ ہے جس میں نون کی حکومت نے خا ص توجہ دی ہے ۔ ۔ نالیوں ، سڑکوں ، اور پلوں کی تعمیر کا سلسہ ان کے پچھلے ا دوار سے جاری ہے۔ ۔ یہاں ایک نقطہ بہت اہم ہے کہ جتنا پیسہ پلوں اور میٹرو بسوں میں لگایا جارہا ہے ۔

۔ پاکستان ریلوے کو اتنی اہمیت کیوں نہیں دی جارہی ، وہاں خواجہ صاحب کو بٹھا دیا گیا ہے ۔ ۔ ریلوے میں کتنی بہتری آئی ہے پاکستان ریلوے چیخ چیخ کے بتا رہی ہے مگر خواجہ صاحب کے اپنے حالات کتنے بدلے ہیں وہ خاموش چیخ و پکار بھی آپ کے پاس پہنچنا شروع ہوگئی ہے ۔ ۔ ذاتی خدمت کے علاوہ خواجہ کی پرفارمنس ہے کوئی نئیں جب دل چاہتا ہے مائیک اٹھاکر بولنا شروع کر دیتاہے ۔

۔ میرے ایک دوست کا کہنا ہے کہ اگر اتفاق فونڈری والے( یہ گروپ اس نام سے تو ختم ہوچکا ہے ) ریلوے لائینیں بنارہے ہوتے تو نون لیگ کے دور میں ریلوے بہت ترقی کرتی ۔ ۔ ہو سکتا ہے یہ لوگ ریلوے ٹریک کو ڈبل یا ٹرپل کردیتے مگر چونکہ اتفاق فونڈری آ ہنی بار (سریا مختلف قسم کا ،کنکریٹ اور ریلنگ وغیرہ میں استعمال ہوتا ہے) ہی زیادہ تر بناتی ہے اس لئے پاکستان مسلم لیگ نون کے لئے سڑکیں اور پل بنانا سوٹ کرتاہے۔ ۔آپ سڑکوں ، پلوں اور شہری دروازوں کے ذریعے سادہ لوگوں کو بے وقوف تو بنا سکتے ہیں مگر تب تک حقیقی ترقی سے محروم رہیں گے ۔ ۔ ۔ ۔ جب تک اپنی ترجیحات میں یکساں نظام تعلیم ، صحت اور انصاف کے حصول وغیرہ کو شامل نہیں کرتے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :