آپریشن ضرب عضب اور بھارتی سازشیں

ہفتہ 12 جولائی 2014

Zabeeh Ullah Balghan

ذبیح اللہ بلگن

تحریک طالبان پاکستان اور دیگر عسکری تنظیموں کے خلاف شمالی وزیرستان میں پاک فوج کا آپریشن ضرب عضب جاری ہے ۔ آپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں دہشت گرد تنظیموں کا خاتمہ ممکن ہو سکے گا یا نہیں ؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جسے ہمارے صحافتی حلقوں میں بار بار دہرایا جارہا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ آپریشن ضرب عضب کے آغاز کے ساتھ ہی عسکریت پسندوں کی بڑی تعداد افغانستان یا دیگر علاقوں میں منتقل ہو چکی ہے ۔

یقینی طور پر ہمارے عسکری ادارے اس حقیقت سے آگاہ ہونگے کہ افغانستان میں موجود بھارتی سفارتخانے ہمارے ”بھگوڑوں“کو پناہ گاہیں فراہم کر رہے ہیں ۔ ابھی حال ہی میں انکشاف ہو اہے کہ کالعدم تحریک طالبان کے سربراہ ملافضل اللہ افغانستان میں موجود بھارتی قونصلیٹ سے مسلسل رابطے میں ہیں ۔

(جاری ہے)

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کو انتہائی مطلوب 25دہشت گرد افغانستان میں بھارتی قونصلیٹ میں موجود ہیں ۔

رپورٹ مزید بتاتی ہے کہ ملا فضل اللہ کا پانچ سے زائد مرتبہ بھارتی قونصلیٹ سے رابطہ ہوا ہے جبکہ اس کی حفاظت پر افغانیوں کے روپ میں بھارتی کمانڈوز تعینات ہیں۔
پاکستان کے معاملات میں بھارتی مداخلت کوئی نئی بات نہیں دراصل پاکستان کے دونوں صوبوں ،بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں1971کی تاریخ دہرائی جارہی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ 1971 میں مکتی باہنی تھی اور اب بی ایل اے، تحریک طالبان پاکستان اور دیگر متعدد عسکریت پسند جماعتیں ہیں جو پاکستانی فورسز کے خلاف نبرد آزما ہیں ۔

مکتی باہنی کی طرح ان تنظیموں کو بھی بھارت، امریکہ ،روس اور دیگر پاکستان مخالف قوتوں کی مدد حاصل ہے۔بلوچستان اور کے پی کے میں یہ تنظیمیں انڈین اسٹیبلشمنٹ کے بدنام زمانہ منصوبے ’ کاؤ پلان‘ پر عمل پیرا ہیں جس کے مطابق انڈیا پاکستان کو مشرقی پاکستان سے بے دخل کرکے وہاں بنگلہ دیش قائم کر چکا ہے ۔ اب انڈیا بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کو پاکستان سے الگ کرنے کی سازش پر عمل کر رہا ہے جس کی اس نے کئی سال پہلے منصوبہ بندی کی تھی ۔

کاؤ پلان منصوبے کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ 1960کی دہائی کے آخری سالوں میں جب اندرا گاندھی انڈیا کی وزیراعظم بنی تو اس کی بنیادی ترجیحات میں ہندوستان کی تقسیم کوختم کرنا تھا جس کے سبب ایک نئی ریاست پاکستان وجودمیں آئی تھی۔ مذکورہ بالا منحوس اور بدنام زمانہ منصوبے ’ کاؤ پلان‘ کا معمار بھارتی خفیہ ایجنسی را کا پہلا چیف اورمشہور جاسوس رامیش ورناتھ کاؤ تھا۔

رامیش انڈیا کے پرانے انٹیلی جنس افسروں میں سے ایک تھا اور نہرو خاندان کی طرح وہ بھی کشمیر سے انڈیا آیا ہوا تھا۔ اس نے ’ را‘ قائم کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھاجس کے اندوہناک کارناموں اور منصوبوں کی تفصیلات ’ daily mail,s research میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ ان تفصیلات میں واضح اشارے ملتے ہیں کہ جب اندرا گاندھی نے نئی دہلی میں وزارت عظمیٰ کا چارج سنبھالا تو اس نے انڈین انٹیلیجنس کو حکم دیا کہ وہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی جامع منصوبہ بندی کرے، اسے ایک ناکام ریاست میں تبدیل کر دے اور دوقومی نظریہ جو تخلیق پاکستان کا جواز بنا اس کو باطل قرار دینے کی ہر ممکن کوشش کی جائے ۔

240صفحات پر مشتمل یہ منصوبہ جو ابھی تک ” دی کاؤ پلان“ کے نام سے انڈیا میں مخفی طور پر موجود ہے ، جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا ہے پاکستان کو کمزور کرنے کے لیے اس کے تین آپریشنل مراحل طے کیے گئے۔ اور خدا ناخواستہ پاکستان کو ختم کرنے کے لیے انڈین حکام نے اس کا نام ’سہہ جہتی حکمت عملی ‘ رکھا ۔ اس کے پہلے مرحلے کا نام ’ کاؤ بنگلہ پلان‘ رکھا گیاجو صرف بنگلہ دیش میں مداخلت کر کے اسے پاکستان سے الگ کرکے ایک نئی ریاست بنانے کے لیے مخصوص کیا گیا۔

اس منصوبے کا دوسرا نام ’ کاؤ کا بلوچستان ‘رکھا گیا جس کی تشکیل کا مقصد بلوچستان میں بھی بنگلہ دیش جیسے حالات پیدا کر نا تھا۔ جبکہ تیسرے مرحلے میں خیبر پختونخواہ میں جس میں تخریب کاری کے لیے ایک تحریک کو پیدا کرنا اور پھر اسے پاکستان سے الگ کرنا شامل تھا ۔ اپنی تشکیل کے فوری بعد را نے بنگلہ پلان حصے پر عمل درآمد شروع کر دیا۔

را کی پاکستانی بنگال میں مداخلت کے 30ماہ کے اند ر اندر مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔رامیش ور ناتھ کاؤ نے اس کے بعد انڈین وزیراعظم اندرا گاندھی سے ’ پلان‘ کے دوسرے حصے یعنی بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک چلانے کی اجازت بھی مانگی تھی۔ (اس کا اقرار اندراگاندھی نے 1984میں پاکستانی دانشور اور صحافی طارق علی کو دیے گئے ایک انٹر ویومیں بھی کیا کہ 71ء کے بعد اس کے جرنیلوں نے مغربی پاکستان پر بھی حملہ کرنے کی اجازت مانگی تھی جسے اس نے مسترد کر دیا تھا۔

) تاہم شاہ ایران ، چین اور سی آئی اے کی طرف سے سخت ردعمل کے خوف سے بلوچستان کی علیحدگی کا منصوبہ اندرا گاندھی نے موخر کر دیا۔ لیکن کاؤ بوائز نے پاکستان سے باہر سماجی سرگرمیوں کے ذریعے بلوچ راہنماؤں سے رابطے شروع کر دیے ۔
اندرا گاندھی کے قتل کے بعد اس کا بڑابیٹا راجیو گاندھی انڈیا کا وزیر اعظم بنا۔راجیو کو شک تھا کہ را کی گمراہ کن رپورٹس اور اطلاعات اس کی والدہ کے قتل کا باعث بنی تھیں، اس لیے اس کے اندر“ را“ اور اس کے اعلیٰ پالیسی میکروں کے لیے شدید نفرت پا ئی جاتی تھی ۔

یاد رہے کہ راجیو کو بھی را کے حمایت یافتہ تامل دہشت گردوں نے قتل کر دیا تھا ۔ آخر کار ، سونیا گاندھی نے 2004..2005 میں جب پاکستان ہر طرف سے خطرات میں گھرا ہوا تھاتو را کے کاؤ پلان کو پاکستان میں جاری کر دیا گیا۔ یاد رہے کہ اس دوران پاکستان کے افغانستان حکومت کے ساتھ تعلقات درست نہ تھے۔انڈین مداخلت کے ایک سال بعد بلوچستان میں بہت کچھ خوفناک حد تک تبدیل ہو گیا۔

منصوبے کے مطابق ایک نئی آذاد ریاست کا نام ’ اسلامی امارات آف بلوچستان ‘ رکھ دیا گیا ۔ بعض خبروں کے مطابق اس نئی ریاست کا قیام اسرائیل میں عمل میں آیا۔ بلوچستان میں را کے کاؤ پلان کا آغاز کردیا گیا ہے جسے انڈین اور مغربی ادارے ” را کا بلوچستان کے لیے کاؤ پلان “ کا نام دیتے ہیں ۔ اسی طرح خیبر پختونخواہ میں بھی کاؤ پلان پر عملدرآمد جاری ہے جس کے تحت آپریشن ضرب عضب کی وجہ سے افغانستان منتقل ہو جانے والے عسکری پسندوں کو بھارتی میزبانی فراہم کی جا رہی ہے ۔

دراصل ضرورت اس امر کی ہے کہ عسکری پسندوں کے خلاف آپریشن کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی مداخلت کا بھی سدباب کیا جائے وگرنہ خدشہ ہے کہ پاکستان کی سلامتی کے دشمن کسی اور بھیس یا نام سے پاکستان میں سازشیں کرتے رہیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :