رٹھیاپا

جمعرات 10 جولائی 2014

Nadeem Tabani

ندیم تابانی

اپنے بھی خفا ہیں مجھ سے بے گانے بھی ناخوش
میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند
پہلے اپوزیشن لیڈر اور پھر وزیر داخلے بننے سے چودھری نثار ن لیگ کے لیے بوجھل ہو گئے ہیں،ان کا بوجھ سنبھالنے سے ن لیگ عاجز آتی جا رہی ہے، اب کئی اطلاعات گردش میں ہیں ایک یہ کہ چودھری نثار نئی ن لیگ بنا رہے ہیں ، جس کے سربراہ وہ خود ہوں گے، یہ بھی کہا جا رہا ہے وہ کسی دوسری پارٹی کا بوجھ بن سکتے ہیں، یہ اطلاع بھی لائی جا رہی ہے کہ وزارت داخلہ ان کے کسی حلیف یا شاید حریف کا مقدر بنے اور چودھری صاحب حسب سابق پٹرولیم کی وزارت کو رونق بخشیں گے، کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کوئی وزات رکھیں گے نہ پارٹی عہدہ، البتہ اسمبلی رکن ضرور رہیں گے لیکن علاج کے بہانے بیرون ملک جائیں گے ،وہیں رہیں گے اچھے وقت کا انتظار کریں گے،یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ فوری طور پر چودھری صاحب کے حوالے سے کوئی چونکادینے والی تبدیلی نہیں آ رہی ، چھوٹے میاں صاحب نے چودھری صاحب کو راضی کر لیا ہے ، بڑے میاں نے چودھری صاحب سے موڈ اور رویہ ٹھیک رکھنے کا وعدہ کر لیا ہے۔

(جاری ہے)

لیکن ظاہر ہے یہ عارضی علاج ہے مستقل نہیں۔
غرض جتنے منہ اتنی باتیں، سب ایک سے بڑھ کر ایک ، یہ تو یقینی بات ہے کہ چودھری صاحب سے ان کے دشمن ہی نہیں دوست بھی بدکتے ہیں، بلکہ یہ دوستوں ہی کار روائی ہے کہ میاں صاحب ان سے وہ میاں صاحب سے روٹھے روٹھے ہیں،اس رٹھیاپے نے ان کے دل کو بھی ٹھیس پہنچائی ، ان کو ہسپتال جانا پڑا ،لیکن میاں صاحب کے دل کا پتھر سرک نہ سکا ، یہ دیکھ کر چودھری صاحب نے بھی دل پر ایک اور سل رکھ لی۔

چودھری صاحب ایک کیا ایک درجن سلیں بھی رکھ لیں میاں صاحب کا پتھر سرکنے کو تیار نہیں ہو گا، چودھری صاحب میاں صاحب کے دل کو جیتنا چاہیں تو انا کا پتھر توڑ دیں ،اور ریزے میاں صاحب کی محبت کے دریا میں بہا دیں تو شاید کچھ کام بن جائے ورنہ ۔۔۔ مرض بڑھتا جائے گا جوں جوں دوا کریں گے۔
#####
ہر سال 5جولائی کو پاکستان پیپلزپارٹی یوم سیاہ مناتی ہے ،پی پی کا کہنا ہے 1977کی اسی تاریخ کو جنرل ضیاء الحق نے بھٹو حکومت کا تخت الٹا تھا، جمہوریت کا قتل کیا تھااور اقتدارپر قبضہ کیا تھا۔

اس لیے اس دن کو سیاہ دن کے طور پر یاد رکھنا چاہیے۔یہ بات تو ٹھیک ہے آرمی چیف جنرل ضیاء الحق کے اقدام کے نتیجے میں بھٹو صاحب اقتدار سے محروم ہو گئے تھے،لیکن اس وقت بھٹو کے پاس اقتدار کا تخت نہیں تختی بچی تھی اور یہ تختی دن بہ دن چھوٹی سے چھوٹی ہوتی جا رہی تھی،جمہوریت کے چمپین مسٹر بھٹو فل فلیش آمر یت کے چمپین بنتے جا رہے تھے تا کہ اقتدار ان کی کلائی کی گھڑی اور ہاتھ کی چھڑی رہے لیکن اقتدار نے پہلے کب کسی سے وفا کی کہ تب کرتا ، بھٹو ہاتھ پاؤں مارتے رہے اور وہ چل بھی دیا۔


وہ لوگ جو آج بھٹو صاحب کو محسن جمہوریت کہتے نہیں تھکتے وہ سب اس وقت بھٹو حکومت کے خاتمے اور مسٹر بھٹو کی گرفتاری پر حلواتقسیم کر رہے تھے ، اتنا حلوا عوامی سطح پر شاید کسی دوسرے موقع پر تقسیم نہ ہوا ہو۔کسی کی یاد داشت ساتھ نہ دے رہی ہو تو اس وقت کے اخبارات کی فائلیں دیکھ لے۔ عوام ہی تھے جو قائد عوام کی گرفتاری پر پھولے نہیں سما رہے تھے ۔

لیکن پی پی کو یوم سیاہ ضرور منا نا چاہیے کیوں کہ اس کی سیاسی بقا انہی ایام کے منانے میں ہے۔
######
2014کے 5جولائی کو یوم سیاہ مناتا دیکھ کر میاں حکومت کو بھی عبرت کا دامن تھامنا چاہیے، اس لیے کہ وہ اقتدار کے نشے میں چور ہو کر بڑی تیزی سے وہ حقیقتیں بھولتی جا رہی ہے جن کو بھولنے والا زیادہ تر اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں رہ پاتا۔

میاں صاحب یہ ضرور ذہن میں رکھیں 99میں کھویا اقتدار پانے میں انہیں14 سال لگے لیکن یہ اقتدار دھڑام ہونے میں 14گھنٹے بھی نہیں لگیں گے، میاں صاحب یہ بھی ضرور ذہن میں رکھیں کہ ان کی جس فاتحانہ تقریر کو ان کے سیاسی حریف عمران خان تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں ، اس میں انہوں نے کیا باتیں کی تھیں میاں صاحب نے کہا تھا ”لگتا ہے قدرت ان سے کوئی کام لینا چاہتی ہے ، اس لیے ان کو ایک بار پھر موقع دیا گیا ہے“میاں صاحب ! موقع دینے والی قدرت موقع واپس بھی لے سکتی ہے ، اگر کافی کچھ بگڑ چکا ہے تو ابھی کافی کچھ باقی بھی ہے ، اس کو بچا لیں تو خان اور قادری مل کر بھی کچھ نہ کر سکیں گے لیکن جن لونڈوں نے بیمار کیا انھی کے اباؤں سے دوا لیتے رہے توپھر ن لیگ کے اپنے ہی قادری اور خان کافی ہوں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :