پیران سُوء ،پریس اور سیاستدان

جمعرات 10 جولائی 2014

Shahid Nazir Chaudhry

شاہد نذیر چودھری

کبھی سنتے تھے علمائے حق کے مقابل علمائے سوء کا قبیلہ بھی موجود ہے جو مذہب کے نام پر دکانداری چمکاتے ،طمع،ریا کاری اور فسادی طبیعت کے ہاتھوں بے بس ہوتے ہیں۔لیکن اب معلوم ہوا ہے کہ فقیر ودرویش پیران حق کے مقابل پیران سُوء نے دکانیں سجا رکھی ہیں۔اور انہیں بڑھائے چلے جارہے ہیں۔ان میں درباری،اشتہاری اور بازاری ہر طرح کے پیر موجود ہیں ۔


مجھے پیروں اور پریس سے اندھی عقیدت رہی ہے ، اب شاید عمر کا تقاضا ہے یاشعور کی بلوغت کا زمانہ کہ اب کچھ دکھائی دینے لگا ہے،آنکھیں کُھلنے لگی ہیں اور اصل میں نقل اور نقل میں کھرے کی کچھ کچھ پہچان ہونے لگی۔استادگلو کا کہناہے کہ اندھے کو اگر دھندلا بھی دکھائی دینے لگے تو اسے اندھا نہیں کہنا چاہئے سو یہ سمجھ لیں یہ کچھ کچھ دکھائی دینا بیشک دھندلا ہی کیوں نہ ہوآپ کو اندھوں میں شمار نہیں کرے گا۔

(جاری ہے)

اور…ممکن ہے تقدیر نور بصیرت عطا کردے تو یہ دھندلاہٹ بھی ختم ہوجائے اور مجھے بھی آپ سب کی طرح صاف صاف دکھائی دینے لگے۔
پیری اور صحافت ایک مقدس کام تھا لیکن بدقسمتی سے یہ منفعت پیشہ بن چکاہے۔جن کا کام مقدس تھا وہ پیران حق تھے اور انہی پیران حق نے پاکستان بنانے میں اہم کردار ادا کیا لیکن پیران سوء نے ملک کی پشت پر سوئے مار مار کر اسکی کمر کے مہرے خراب کردئیے ہیں۔

ان کا نظریہ دولت اورشہرت ہے اور تن آساں پیربڑی آسانی سے اس سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔ انکا ایمان تو یہ ہے…
پگڑیاں وزارتیں مکان
کوٹھیاں عمارتیں دکان
پریس (صحافت)اورپیران سوء میں زیادہ فرق نہیں رہا،ان دونوں کا نظریہ ضرورت ایک ہے… ایک ظاہری طاقت اور دوسرا باطنی قوت مہیا کرنے کا دعویٰ کرتا ہے ۔

مگر ان دونوں طاقتوں نے نہ ملک کو باہر سے سنوارنے اور نہ اندرسے درست کرنے کے لئے اپنا حقیقی کردار ادا کیا ہے۔یہ صرف ”یس مین“ بن کررہ گئے ہیں۔میں نے بہت سے ایسے پیروں کو بھی کھنگالا ہے اورپریس کو بھی دیکھاہے۔انکی حربی نفسیات بھی ایک ہے اور پیشہ وپیسہ گری بھی ایک،دونوں فوٹووالے اور سادہ کاغذ کے رسیا ہیں۔یہ کاغذ پر حرف لکھتے ہیں تو ایک اسے مجرب تعویذاور دوسرا اسے خبر کہتا ہے۔

چاہو تومخالف کو مروانے یا دابنے کے لئے ایک سے کفر کا فتویٰ لے لو اور دوسرے سے غداری کا الزام …پاکستان کے سیاسی حالات میں ایسی بہت سی مثالیں آپ کونظر آئیں گی ،یہاں انہیں دہرانے بیٹھ گیا تو جان لیجئے کہ جان کی امان کہیں نہیں مل سکے گی…
پیر اور پریس میں حرفوں کا ہیر پھیر بڑا دلچسپ ہے ،پیر کی ”ی“ ”س“ کے شروع میں لگا دیں تو”یس“… پریس کی ”س“ سے ”ی “ اٹھا کر ”پ“ اور” ر“ کے درمیان جوڑ دیں تو ”پیر “حاضر ہے …اور رہا ”سین “کا سوال تو دل مانے تو یہ”ی“ اٹھا کر”س“ سے پہلے ٹانک دیں،لفظ بن جائے گا” پیر یس“خیر حرفوں کے جوڑ توڑ کا کھیل کھیلانے کا مقصد محض اتناہی بتاناہے کہ پیر اور پریس بھی لفظوں کا کھاتے اور ”مُلک“ کی ”ل“ اٹھا کر ”مُک“”مُک“ کا تقاضا کرتے رہتے ہیں۔

ویسے ”مُلک“ کی یہ” لام“ پیران سوء ،پریس اورسیاستدان کو بطور ہتھیار کام دیتی ہے… اس بات میں عقل والوں کے لئے کُھلی نشانیاں ہیں…
پاکستانی سیاست کا سسٹم پیروں اور پریس کے بغیرکمزور سمجھا جاتا ہے بلکہ کہا جاتاہے اگر کسی سیاستدان کی پیر اورپریس کیساتھ نیازمندی نہ ہو تو اسے روحانی طورپر یتیم سمجھناچاہئے ۔اگرچہ کئی پیر خود بھی سیاست کاری کرتے اوراقتدار کے حریص ہوتے ہیں لہذا انہیں باہر کے پیروں کی پھونکوں کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن کسی سیاسی ورکر ،تاجر،پراپرٹی ڈیلر،ٹاوٴٹ ،آرٹسٹ،صنعتکار یا کسی بھی پیشہ سے وابستہ بندے کو بندگان خداپر حکمرانی کا مرض لاحق ہوجائے تو وہ سیاستدان بننے کا فیصلہ کرلیتاہے لیکن اس سے پہلے وہ باقاعدہ کسی نہ کسی عامل کامل پیرکے پیر پکڑ لیتا ہے،کئی سیاستدان تو اس معاملے میں بڑے حریص ہوتے ہیں اور زیادہ سیاسی فیض حاصل کرنے کے لئے کئی کئی پیروں کے قدموں کی خاک کو سرمہ بنا لیتے اور پھر مخلوق خدا کی ہڈیوں کا سُرمہ بنانے میں آزاد ہوجاتے ہیں۔

انہیں زعم ہوتا ہے کہ انکی پشت خالی نہیں رہی۔پیر صاحب اور پریس سب کچھ سنبھال لے گا۔
وطن کے غم خواروں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں پریس یعنی میڈیا کا کردار بھی بڑا مشکوک ہوچکا ہے۔اسکی کوئی سمت نہیں رہی ،کسی بھی اخبار اور نیوز چینل کو دیکھ لیں ،اس کے زیادہ ترموضوعات سیاست کے گرد گھومتے ہیں ،حالانکہ پاکستان کے سماجی ،مذہبی،علمی،ثقافتی ،صنعتی شعبوں سمیت ہزاروں موضوعات اور ہر موضوع کے ہزاروں زاویئے خبروں اور تجزیوں کے منتظر ہوتے ہیں لیکن پریس نے تو صرف سیاست کو ہی اپنا مرکز بنا رکھا ہے ۔

ہرپریس کو مکمل طور پر سیاست کی صحافت کرنے کا رسیا تو نہیں کہا جاسکتا لیکن اس سے اُسے مبرّا بھی قرار نہیں دیا جاسکتا۔یہ پریس ظالم حکمرانوں سے پوچھ کر کلمہ حق بلند کرتا ہے لہذا کہا جاسکتا ہے کہ ہمارا پریس بھی ”مسٹر یس“ بن چکا ہے ۔ جسطرح بہت سے پیر اپنے ناقص مرید کو جب میدان سیاست میں کامل بنانے میں مدد فرماتے ہیں ،اسی طرح پریس نے بھی اپنی اپنی پارٹیاں پکڑ رکھی ہیں لہذا ان مریدان سیاست اور پارٹیوں سے عملاًکسی اچھے کی امیدنہیں رکھنی چاہئے،کیونکہ یہ سیاستدان سیاسی بازارکے اتار چڑھاوٴ کے مطابق چلتے ہیں،ان کی قومی و مذہبی اخلاقیات اور ملک سے اخلاص زیرو ہوتاہے۔


اگر یہ پیران سوء کی بجائے پیران حق کے مرید ہوتے اور بااصول پریس ان کا بلا تفریق محاسبہ کررہا ہوتا تو آج میرے وطن کی تقدیر بدل چکی ہوتی۔یہ آئین پاکستان کی دفعہ باسٹھ پر پورے اتر رہے ہوتے۔مگر یہ توپیسہ سے ”فیض“ اوراقتدارخریدنے والے لوگ ہیں، لہذا انکی اوّل ترجیح اقتدار کی قوت سے مزید دولت کمانااور نفس کو فرعونیت کا نشہ مہیا کرنا ہوتا ہے۔

یہ نہ قوم سے مخلص ہوتے ہیں نہ ملک سے ،اگر یہ مخلص ہوتے تو ان میں ایمانداری اور کردار کی پختگی ہوتی،یہ صادق اور امین ہوتے اور سیاست کی تقدیس کا حق ادا کرتے لیکن پیران سیاست کی دعا سے اقتدارواختیار حاصل کرنے والے ان سیاستدانوں نے ملک کا سارا سسٹم تباہ کردیا ہے۔یہ قومی پالیسیاں بنانے اور ان پر عمل کرانے سے معذور ہوچکے ہیں،ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھال کر شوروغوغہ مچاتے ہیں اور قوم دن رات انہیں ٹی وی پر گالم گلوچ کرتے دیکھتی ہے۔نہ جانے ابھی انہیں ٹی وی کی سکرینوں پر کب تک یوں ڈرامائی سیاست کرتے ہوئے دیکھنا پڑے گا۔شاید اُس وقت …جب ووٹوں سے پاکستان کی تقدیر کافیصلہ کرنے والی قوتوں نے نوٹوں پر ایمان بیچنا چھوڑدیا۔ #

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :