ہمارا تعلیمی نظام اور نظام امتحان

جمعرات 10 جولائی 2014

Ghulam Nabi Madni

غلام نبی مدنی۔ مکتوبِ مدینہ منورہ

”یہ کیسا امتحان ہے؟ سوال وہ پوچھے جو ہم نے کبھی دیکھے ،نہ پڑھے۔یہ تو سراسر ظلم اور بددیانتی ہے؟اگریوں ہی ہم جیسے غریبوں کو لوٹنا ہے تو کم ازکم تعلیم جیسے مقدس پیشے کو تو بدنام نہ کریں۔اگر فیکڑیاں چلانے اور تجارت کرنے کا زیادہ ہی شوق ہے تو خوامخواہ سادہ لوح عوام کے خون پسینے کی کمائی پر توڈاکا نہ ڈالا جائے۔کیا ہمارے ملک میں”تعلیمی تھنک ٹینک‘ کو لوٹ مار کے لیے یہی شعبہ ملاتھا“۔

محمد علی ایم فل ایڈمیشن ٹیسٹ میں کامیاب نہ ہونے پرروتے ہوئے اپنے جذبات کا اظہار کررہاتھا۔
محمد علی کراچی کی ایک معروف یونیورسٹی کا طالب علم ہے۔وہ بلا کا ذہین ہے ۔ا س کا تعلق ایک غریب فیملی سے ہے۔وہ پانچ بہن بھائیوں میں سب سے بڑا ہے۔اس کے والد ایک دوکان پر ملازم ہیں۔

(جاری ہے)

محمد علی نے انتہائی کسمپرسی اور غربت کی حالت میں اپناسولہ سالہ تعلیمی کیرئیر مکمل کرکے ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔

ماسٹر کے بعد وہ مزید تعلیم حاصل کرناچاہتا تھا لیکن ہمارے نظام ِتعلیم اور نظام امتحان نے اس کے پاوٴں جکڑ دیے۔وہ اس طرح کہ جب محمد علی نے ایم فل میں ایڈمیشن کے لیے اپلائی کرنے کاارادہ کیا تو اسے یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے کہا گیا کہ پہلے NTS(نیشنل ٹیسٹنگ سروس)امتحان پاس کرکے آوٴ۔محمد علی نے بڑی مشکل سے یہ امتحان پاس کیا۔پھر جب وہ کراچی یونیورسٹی میں داخلہ لینے گیا تو اسے یہ کہہ کر رولادیاگیا کہ” یونیورسٹی کی پالیسی تبدیل ہوگئی ہے،نئی پالیسی کے مطابق ایم فل کے ہر نئے امید وار کویونیورسٹی کا داخلہ امتحان پاس کرنا ہوگا۔

اس امتحان میں 20نمبر کا ایک انگلش کاپیپراور 80 نمبر کا منتخب کردہ موضوع کا پیپر ہوگا۔کامیا بی کے لیے ہر دو پیپر میں سے بالترتیب 8 اور چالیس نمبر لینے ہوں گے“۔محمد علی نے کڑوا گھونٹ بھر کر 2500روپیے داخلہ کی مد میں جمع کروادیے۔امتحان کے دن جب محمد علی کو انگلش کا سوالیہ پیپر دیا گیا تو اسے دیکھتے ہی محمد علی کے ہوش اڑگئے ۔کیوں کہ اسے بتایا تو یہ گیا تھا کہ بیس نمبر والے سوالیہ پیپر میں ایف اے لیول کے سوالات پوچھے جائیں گے ،لیکن جو سوالات دیئے گئے وہ ایم اے انگلش لیول سے بھی اوپر کے تھے۔

نتیجتاً محمد علی داخلہ امتحان میں فیل ہوگیا اور غریب والدین کا سہارابننے جیسے اس کے تمام ارمان خاک میں مل گئے۔
غور کیا جائے تومحمد علی کے امتحان میں فیل ہونے کی وجہ صرف انگلش میں کمزوری نہیں تھی،بلکہ اصل وجہ ہمارے پورے نظام ِ تعلیم بالخصوص امتحانی نظام کی ابتر اورخراب صورتحال تھی۔ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ ہمارا تعلیمی نظام چھ دہائیاں گزرنے کے باوجود بھی درست نہیں ہوسکا،بلکہ آئے روز بگڑتا ہی جارہا ہے۔

امتحان لینا نظام تعلیم کا حصہ ہوتا ہے ۔اس کے ذریعے طلباء کی استعداد کا پتہ لگایا جاتاہے ۔لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں امتحان کے نام پر امتحان نہیں لیا جاتا،بلکہ امتحان کے نام پر طلباء کوبیوقوف بنا کرلوٹا جاتاہے،کہیں NTSکے نام پر تو کہیں یونیورسٹیوں کے داخلہ ٹیسٹ کے نام پر۔ہمارے نظام امتحان کی ناقص صورتحال کا اندازہ اس سے لگائیں،کہ ایک طالب علم اگر اسلامیات میں پی ایچ ڈی یا ایم فل کرناچاہتا ہے ،تو اسے کامیابی کے لیے لازماًانگلش مضمون کو پاس کرنا ہوگا ،جب کہ اس طالب علم کو ایم فل سے لے کر پی ایچ ڈی تک کوئی تھیسس (thesis)انگلش میں لکھنا ہوتا ہے ،نہ کوئی ریسرچ ورک انگلش میں کرنا ہوتاہے اور نہ ہی اس عرصے میں اسے کوئی انگلش کا سبجیکٹ پڑھنا ہوتاہے ۔

اسی طرح اگر کوئی طالب علم ایم اے، ایم فل یا پی ایچ ڈی کے بعدکہیں جاب کرنا چاہے تو آج کل ہمارے ہاں تقریباً ہر سرکاری وغیرسرکاری اداروں میں یہ پالیسی بنائی گئی ہے کہ وہ NTSکے تحت اس ادارے کا امتحان پاس کرے۔
NTS(نیشنل ٹیسٹنگ سروس)ایک غیر سرکاری ادارہ ہے۔جس کا کام ملک میں صرف امتحان لینا ہے۔عام طور پر جاب فراہم کرنے والے اداروں اوریونیورسٹیوں کی طرف سے یہ کہاجاتا ہے کہ میرٹ،شفافیت اورٹیلنٹڈ لوگوں کوآگے لانے کی خاطر ہم NTSکے تحت امتحان دلواتے ہیں۔

لیکن حقیقت ان دعووں کے برعکس ہے۔ بہت دفعہ ایسا ہوا کہ NTS پاس کرنے والے Candidate (امیدوار)کو جاب مل سکی ،نہ داخلہ مل سکا،اس کی ایک مثال محمد علی ہے جسے NTSپاس کرنے کے باوجود داخلہ نہیں مل سکا۔اسی طرح کئی بار نااہل امیدوار محض تُکے لگاکر NTSکلیئر کرکے آگے پہنچ جاتے ہیں۔پھر NTSکے امتحانی نظام میں کئی خامیاں بھی ہیں۔ایک تو اس وجہ سے کہ اس کے امتحانی پرچے میں عام طورپر انگلش ،ریاضی اور تجزیاتی صلاحیت کوجانچنے کے لیے سوالات دیے جاتے ہیں۔

یہ سب سوالات سٹینڈرڈ انگلش میں ہوتے ہیں۔اب اگرایک طالب علم جس نے سولہ سال تک آرٹس کے مضامین پڑھے ہوں،جس نے انگلش کومحض ایک حد تک پڑھا ہوبھلا وہ کیسے انگلش کے اس سٹینڈرڈ کے سوالات کو حل کرسکتاہے۔یہی نہیں بہت سے انگلش میڈیم سکولز میں پڑھنے والے طلباء بھی اسی وجہ سے امتحان میں فیل ہوجاتے ہیں۔دوسری وجہ یہ ہے کہ اکثر وبیشتراس میں موضوع سے متعلق سوالات بہت کم پوچھے جاتے ہیں۔

NTSکے نظام امتحان میں پائی جانے والی اس جیسی بہت سی خامیاں ہمارے تعلیمی نظام کو کمزور کرنے میں بنیادی کردار اد اکررہی ہیں۔
امتحانی سسٹم تعلیمی نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہوتاہے اورنظام تعلیم کسی بھی ملک میں تعلیم کی شرح کو بہتر بنانے اور خراب کرنے میں بنیادی کردار ادا کرتاہے۔اس لیے تعلیمی نظام کے کسی ایک شعبہ کی بہتری اور خرابی کے اثرات جہاں نظام تعلیم پرپڑتے ہیں ،وہیں پورے ملک پربھی پڑتے ہیں۔

ہمارے ہاں نظام تعلیم کی خراب صورتحال کے ذمہ دار ایک طرف مذکورہ طرز کے امتحانانی نظام ہیں تودوسری طرف تعلیم کے نام پر جگہ جگہ کھلنے والے ایسے ٹیوشن سنٹرز، اکیڈمیزاور سکولز ہیں،جہاں بھاری فیسوں کی مد میں تعلیم سے زیادہ مال کمایا جاتاہے،طلباء کی ذہنی ،فکری ،علمی اوراخلاقی تربیت کی بجائے موسیقی،ڈانس،فضول بحث ومباحثے،اورجنس مخالف کے ساتھ فرینڈشپ کے مواقع فراہم کیے جاتے ہیں۔

تعلیمی نظام کی اس ابتری کی وجہ سے ملک میں بیروزگاری، کام چوری،رشوت خوری،بددیانتی،بداخلاقی، کرپشن ،لوٹ مار،قتل وغارت گری اور غربت جیسے سینکڑوں قسم کے مسائل جنم لے رہے ہیں۔سب سے بڑھ کر محمد علی جیسے باصلاحیت نوجوان ضائع ہورہے ہیں۔اگر ان ٹیلنٹڈ نوجوانوں کی مناسب دیکھ بھال نہ کی گئی اور انہیں یوں ہی آئے روز بدلتی تعلیمی پالیسیوں اورNTSجیسے نامعقول امتحانات کی نذر کیا جاتا رہاتو ملک بہت جلد تباہی کے دہانے پر پہنچ جائے گا ۔

اس تباہی سے بچنے کے لیے فی الفور تعلیمی نظام پر توجہ دینا ناگزیرہے۔اس سلسلے میں مناسب او ر کارگر صورت حکومتی سطح پر ماہرین تعلیم کی ایک آزاد کمیٹی بنانا ہے ،جوکم ازکم تین ماہ میں صوبائی اور ملکی سطح پر کام کرنے والے تمام تعلیمی اداروں کی جانچ پڑتال کرکے رپورٹ تیارکرے ۔پھر حکومت اس رپورٹ کی روشنی میں تعلیمی نظام بالخصوص امتانی نظام کی اصلاح کرے۔

اگرچہ ملک میں پہلے ہی بہت سے ایسے ادارے ہیں جو سالانہ تعلیمی اداروں کی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہیں ،لیکن یہ ادارے عام طور پر بدعنوانی اور بددیانتی سے کام لیتے ہیں۔اس لیے حکومتی سطح پر ایماندار اوراہل لوگوں پر مشتمل اس طرح کی آزاد کمیٹی نہ صرف تعلیمی نظام میں بہتری اورتبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوگی،بلکہ محمد علی جیسے باصلاحیت غریب افراد کی علمی تشنگی دورکرنے کے لیے بھی دوررس اثرات مرتب کرے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :