جمہوریت کی کھیر

جمعرات 10 جولائی 2014

Shahid Iqbal

شاہد اقبال

ایوبی آمریت کی کوکھ میں آنکھ کھولنے والی پیپلز پارٹی نے ۵ جولائی کو ضیائی آمریت کے خلاف یوم ِ سیاہ منایا ۔ ضیائی آمریت کی گود میں پلنے والی مسلم لیگ نون ۱۲ اکتوبر کو پرویزی آمریت کے خلاف یوم اجتجاج منائے گی ۔ دونوں جماعتیں جمہوریت پر کامل ایمان رکھتی ہیں، دونوں آمریت سے کامل نفرت کرتی ہیں لیکندونوں کی نفرتوں کے محور مختلف ہیں ۔

دونوں کے اپنے اپنے بھگوان ہیں جن کی یہ اعلانیہ یا خفیہ پوجا کرتی ہیں اور دونوں کے اپنے اپنے شیطان ہیں جنہیں یہ اپنے اپنے دنوں میں پتھر مارتی ہیں ۔پیپلز پارٹی کو ضیا الحق کی آمریت سے اس لیے نفرت ہے کہ اس نے اس سے اقتدار چھین کر ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کے پھندے پر لٹکا یا۔پرویز مشرف کی آمریت سیپیپلز پارٹی کو کچھ خاصگلہ نہیں اس لیے ۱۲ اکتوبر کو یہ یوم ِ سیاہ نہیں منائے گی ۔

(جاری ہے)

نون لیگ کو پرویز مشرف کی آمریت سے نفرت اس لییہے کہ اس نے نون لیگ کے بھاری مینڈیٹ کو اپنے بوٹوں تلے روند ا اور اس جماعت کے لیڈروں کو نو سال تک رگید تا رہا۔ ضیا الحق کی آمریت سے نون لیگ کو کوئیشکوہنہیں اس لیے یہ ۵ جولائی کو یومِ سیاہ نہیں مناتی۔پیپلز پارٹی کا یومِ سیاہ نون لیگ کے لیے بالکل بھی سیاہ نہیں جبکہ نون لیگ کا یومِ سیاہ ایم کیو ایم اور ق لیگ کے لیے سنہرا دن ہے!
یہ ایک کھلا سچ ہے کہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کے مختلف آمروں سے مختلف ادوار میں ناجائز تعلقات رہے ہیں اس لیے ہر ایک کی عشق و محبت یا رقابت و نفرت کی اپنی اپنی داستانیں ہیں۔

ہر ایک کا اپنا اپنا داتا اور ان داتا ہے۔ اگر جمہوریت کی نام لیوا موجودہ جماعتوں پر نظر ڈالی جائے تو سب کے ماتھے کسی نہ کسی آمر کی چوکھٹ پر کیے جانے والے سجدوں سے داغدار نظر آتے ہیں ۔ہر ایک جماعت کے گندے چیتھڑے کسی نہ کسی آمر کی وارڈ روب میں لٹکے دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن بد قسمتی سے کوئی جماعت اپنے داغدار ماضی پر تائب ہونے کے لیے تیار نہیں سب کے پاس اپنی اپنی تاویلات کے دفتر ہیں جن پر ان کے ماننے والے صدقِ دل سے ایمان رکھتے ہیں ۔

ضیا الحق کے دور میں بائیں بازو کی جماعتیں زیرِ عتاب رہیں جبکہ دائیں بازو کی مسلم لیگیں اور مذہبی جماعتیں اس کے اسلامی نظام کی گھنی چھاؤں میں اٹھکیلیاں کرتی رہیں ۔ پرویز مشرف کا دور بائیں بازو کی ایم کیو ایموں ا ور ق لیگوں کے لیے بہار کا پیغام لے کر آ یا جبکہ دائیں بازو کی جماعتیں مشرف کی روشن خیالی کے بوجھ تلے پستی رہیں۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ آمرانہ ادوارکے تسلسل کا نام ہے جس میں وقتافوقتاجمہوریتکے مختصر ٹانکے رونق بڑھانے کے لیے لگائے جاتے ہیں۔

جمہوریت کی یہ ہلکی پھلکی جھلک عوام کے مو نہہ کا ذائقہ تبدیل کرنے کے لییدکھائی جاتی ہے تاکہ بوٹوں کی مسلسل دھمک سے پیدا ہونی والی یکسانیت عوام کو مقدس گائے سے بیزار نہ کر دے۔ طویل آمریت کے بعد جب ڈری سہمی جمہوریت کو اقتدار میں آنے کا مو قع دیا جاتا ہے تو اس بے چاری کو ہر لمحے تخت سے تختے پر جانے کا دھڑکا لگا رہتا ہے اس لیے احساس عدم تحفظ اس کے ہواس مختل کیے رکھتا ہے۔

بدحواس جمہوریت کی چھوٹی چھوٹی کمزوریوں کو نادیدہ قوتیں پہاڑ بنا کر دکھاتی ہیں۔ جمہوری حکمرانوں کے محدود اختیارات اور عوام کی لامحدود توقعات کے درمیان تصادم نادیدہ قوتوں کے لیے کام آسان کر دیتے ہیں چناچہ جلد ہی عوام کے اندر مایوسی پیدا ہونے لگتی ہے ۔ ہر آمر اپنے پیچھے مسائل کا ایک ایساجنگل اگا جاتا ہے جس کو بند ھے ہاتھوں سے کاٹنا جمہوری حکمرانوں کے بس میں نہیں ہوتا۔

آمرانہ دور کا سار اغصہ اور ساری گالیاں بھی عوامی حکومتوں کا مقدر بنتی ہیں کیوں کہ مقدس گائے کے برعکس سیاستدانوں کو گالیاں دینے سے قومی وقار پر کوئی حرف آنے کا خدشہ نہیں ہوتا!
پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتیں دو مختلف آمروں سے ڈسنے کے بعد اب اس منطقی نتیجے پر پہنچ چکی ہیں کہ ان کے آپس کے اختلافات سے فائد ہ اٹھا کر بلا ہمیشہ دودھ پی جایا کرتا ہے اس لیے حالات کیسے بھی کیوں نہ ہوں اب انہیں نادیدہ ہاتھوں میں کٹھ پتلی بن کر نہیں ناچنا ۔

وقت نے انہیں یہ سکھا یا ہے کہ ایک دوسرے کی جڑیں کاٹ کر انہوں نے اپنے ہی پاؤں پر ہمیشہ کلہاڑیاں چلائی ہیں اس لیے اب کسی گھس بیٹھیے کو کوئی موقع فراہمکرنے کی غلطی نہیں دہرانی ۔ دونوں جماعتوں کے اس عزم ، متحرک عدلیہ اور آزاد میڈیا کی موجودگی نے اب یقینا طالع آزماؤں کے لیے کوئی ایڈوینچر کرنا مشکل بنا دیا ہے لیکن جب تک نادیدہ ہاتھوں کے پاس طاہر القادری،شیخ رشید ، چوہدری شجاعت اور الطاف حسین جیسے مہرے موجود ہیں وہ کسی بھی وقت کوئی بھی چال چل کر بازی پلٹ سکتے ہیں اور بے چاری جمہوریت کو ایک بار پھر خاک چٹوا سکتے ہیں۔


بدقسمتی سے ہماری سیاسی جماعتیں جمہور یت سے زیادہ اقتدار پر ایمان رکھتی ہیں اور ان کے لیے سیاست عبادت نہیں بلکہ اقتدار تک پہنچنے کا ایک ذریعہ رہیہے۔ لیکن اب وقت آگیا ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں جمہوریت پر ایمان کی تجدید کریں اور اپنی تجوریوں کے پیٹ بھرنے کی بجائے بھوک اور افلاس سے بلکتے عوام کے لیے دو وقت کی روٹی کا سوچیں۔ ہماری نئی و پرانی سیاسی جماعتوں نے اگر اب بھیہوش کے ناخن نہ لیے اور اجتماعی طور پر آمریت سے نفرت اور جمہوریت سے قلبی محبت کا اظہار نہ کیا تووہ دن دور نہیں جب جمہوریت کی جتنوں سے بنائی گئی کھیر کو آمریت کا کتا کھا جائے گا اور ہماری سیاسی جماعتیں بیٹھیڈھول بجاتی رہ جائیں گی۔

کفِ افسوس ملنے سے عقل کو ہاتھ مار لینا یقینا زیادہ سہل ہے اسی میں جمہوریت کا بھلا اور جمہور کی بھلائی ہے!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :