اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی

جمعرات 10 جولائی 2014

Prof.Mazhar

پروفیسر مظہر

دُنیائے قدیم کے عظیم فاتح سکندرِ اعظم نے جب لبنان کے ایک شہر” ٹائر“ کا محاصرہ کیا تو دورانِ محاصرہ اُسے شاہِ ایران کی طرف سے پیغام وصول ہوا کہ امن معاہدے کے بدلے شاہِ ایران سکندر کو اپنی نصف سلطنت دینے کو تیار ہے ۔سکندر کے دوست پارمینیو کو یہ پیش کش بہت مناسب معلوم ہوئی ۔اُس نے سکندر کو مخاطب کرکے کہا ”اگر میں سکندر ہوتا تویہ پیش کش فوراََ قبول کر لیتا “۔

سکندر نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ”ہاں ! میں بھی قبول کر لیتا اگر میں پارمینیو ہوتا “۔
جنرل (ر)اشفاق پرویز کیانی بھی 2010ء میں شمالی وزیرستان میں آپریشن شروع کر دیتے اگر وہ جنرل(ر) اطہرعباس صاحب ہوتے ۔لیکن وہ توسپہ سالار تھے اور خوب جانتے تھے کہ کس وقت کیا کرنا ہے ۔ اُنہوں نے وہی کچھ کیا جو اُس وقت ملک و قوم کے بہترین مفاد میں تھا۔

(جاری ہے)

سبھی متفق تھے کہ 2010ء میں شمالی وزیرستان میں آپریشن کے لیے حالات سازگار نہیں تھے ۔اُن دنوں تو جنرل اطہر عباس نے بھی بطور ڈی جی، آئی ایس پی آر متعدد بار یہ کہا کہ فوج باجوڑ ، سوات اور جنوبی وزیرستان میں اپنی پوزیشن مستحکم کر رہی ہے اِس لیے فی الحال شمالی وزیرستان کا محاذ کھولنا مناسب نہیں لیکن اب پتہ نہیں کون سی ایسی کایا کلپ ہو گئی کہ جنرل صاحب نے یک غیر ملکی نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے جنرل اشفاق پرویز کیانی کو شدید تنقید کا نشانہ بنا ڈالا ۔

اُنہوں نے فرما یا کہ 2010ء میں مذہبی عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن کا فیصلہ کر لیا گیا تھا اور 2011ء میں تیاری بھی مکمل کر لی گئی لیکن جنرل کیانی تذبذب اور ہچکچاہٹ کا شکار ہو گئے جس کی بنا پر قوم کو بے حد نقصان اُٹھانا پڑا ، ہزاروں جانیں ضائع ہوئیں ، قومی اداروں پر خوفناک حملے ہوئے اور دہشت گرد قوت پکڑتے چلے گئے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا فوج میں طویل عرصے تک ملازمت کے باوجود بھی جنرل اطہر عباس یہ بھی نہیں جان سکے کہ قومی معاملات میں راز داری کی کیا اہمیت ہے ؟۔

کیا اُنہیں معاملے کی نزاکت کا احساس نہیں ہوا یا پھر تھری سٹار جنرل نہ بننے کے غم نے اُنہیں سب کچھ بھلا دیا ؟۔جنرل صاحب بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ تک فراموش کر بیٹھے کہ عین اُس وقت جب افواجِ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصروف ہیں ، اُن کے اِس انٹرویو سے فوج کا مورال کتنا ڈاوٴن ہو گا اور ملک و قوم کی کتنی بدنامی ۔اُن کے انٹرویو سے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہ اب تک پاکستان کے منتخب جمہوری حکمرانوں کو نام نہاد اور عضوِ معطل ہی سمجھتے ہیں اور اُن کے خیال میں فیصلہ کُن قوت اب بھی فوج ہی ہے ۔

سوال یہ ہے کہ اگر تاخیر کے ذمہ دار جنرل کیانی تھے تو کیا سیاسی قیادت بے بس تھی ؟۔کیاحتمی فیصلہ منتخب قیادت نے کرنا ہوتا ہے یا فوج نے ؟۔ اور کیا فوج سیاسی قیادت کے فیصلے سے بغاوت بھی کر سکتی ہے ؟۔ اگر اِن تمام سوالوں کا جواب نفی میں ہے تو پھر جنرل کیانی تاخیر کے ذمہ دار کیوں کر قرار دیئے جا سکتے ہیں ۔
حقیقت یہی ہے کہ اور کسی معاملے میں ہو نہ ہو لیکن دہشت گردی کے خلاف جنگ کے معاملے میں عسکری اور سیاسی قیادتیں ہمیشہ ایک صفحے پر ہی رہی ہیں اور اب بھی جب شمالی وزیرستان میں آپریشن کا فیصلہ کیا گیا تو آئی ایس پی آر کی جانب سے یہ بیان جاری ہوا کہ ”سیاسی قیادت کی ہدایت پر شمالی وزیرستان میں آپریشن شروع کر دیا گیا ہے “ ۔

2010 ء میں شمالی وزیرستان آپریشن کے بارے میں صرف عسکری قیادت ہی نہیں، سیاسی قیادت بھی ہچکچاہٹ کا شکار تھی جس کی سب سے بڑی وجہ شمالی وزیرستان میں ”حقانی نیٹ ورک“ کی موجودگی تھی ۔حقانی نیٹ ورک کو پاکستان کا دوست سمجھا جاتا ہے اور ہماری سیاسی اور عسکری قیادت کا یہی خیال تھا کہ اگر امریکی دباوٴ پر شمالی وزیرستان میں حقانی نیٹ ورک کے خلاف بھی آپریشن شروع کر دیا گیا تو کل کلاں جب امریکہ افغانستان سے چلا جائے گا تو وہاں پاکستان کے حق میں آواز بلند کرنے والا کوئی بھی نہیں ہو گا ۔

اب بھی حقانی نیٹ ورک کے انخلاء تک شمالی وزیرستان میں آپریشن کو روکا گیا اور اب جو غیر ملکی دہشت گرد شمالی وزیرستان میں چھپے بیٹھے ہیں اُن کا حقانی نیٹ ورک سے کوئی تعلق نہیں۔تذبذب کی دوسری وجہ یہ تھی کہ سوات ،باجوڑاور جنوبی وزیرستان میں افواجِ پاکستان کامیاب تو ہو چکی تھیں لیکن اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کا مرحلہ درپیش تھا اوراِن علاقوں سے ہجرت کرنے والے لاکھوں افراد کی مدد اور اُنہیں واپس اپنے گھروں میں بھیجنے جیسے مسائل بھی تھے ۔


شمالی وزیرستان میں آپریشن نہ کرنے کی تیسری وجہ وہ مذہبی و سیاسی جماعتیں تھیں جو ہر حال میں مذاکرات کی حامی تھیں اور جنہوں نے اچھے اور بُرے طالبان کی نئی اختراع نکال کر اسے اپنے دلائل کی بنیاد بنایا ۔جب بھی اُن سے خود کش حملوں اور بم دھماکوں میں معصوم جانوں کے زیاں کا ذکر کیا جاتا تو وہ بڑی رسانت سے کہہ دیتے کہ یہ بُرے طالبان ہیں اور ہم اچھے طالبان کا مقدمہ لڑ رہے ہیں ۔

اچھے اور برے طالبان کی یہ بحث آج بھی جاری ہے لیکن یہ کوئی بتلانے کو تیار نہیں کہ ایسا کون سا فارمولا ہے جس کے تحت اچھے اور برے طالبان کی تمیز کی جا سکے ۔اب جب کہ شمالی وزیرستان میں آپریشن شروع کر دیا گیا تو انہی لوگوں کے دل میں اُن پانچ لاکھ آئی ڈی پیز کا درد جاگ اُٹھا ہے جنہیں بنوں اور اُس کے گرد و نواح میں آباد کرنے کی بھرپور کوشش کی جا رہی ہے ۔

آئی ڈی پیز کی بے گھری سے بے چین ہونے والے اِن سیاسی و مذہبی عناصر کو اللہ تعالےٰ نے یہ توفیق تو نہیں دی کہ وہ آئی ڈی پیز کے ساتھ ڈیرے ڈال بیٹھ رہیں البتہ اپنے آرام دہ گھروں میں بیٹھ کر وہ اِن کے غم میں گھلے ضرور جا رہے ہیں ۔
جنرل (ر) اطہر عباس خواہ کچھ بھی کہیں لیکن قوم جنرل کیانی کا صرف یہی احسان بھلا نہیں پائے گی کہ اُنہوں نے جب فوج کی کمان سنبھالی تو اُس وقت فوج مکمل طور پر سیاست زدہ ہو چکی تھی جس سے عوام کی نظروں میں اُس کا امیج بُری طرح مجروح ہوا ۔

اُنہوں نے چیف آف آرمی سٹاف کا عہدہ سنبھالتے ہی مختلف سول اداروں میں کام کرنے والے تمام فوجیوں کو واپس بلا لیا اور کور کمانڈرز کی میٹنگ بلا کر یہ حکم دیا کہ فوج کسی بھی صورت میں 2008ء کے انتخابات میں مداخلت نہیں کرے گی جس سے پرویز مشرف صاحب کے سارے منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے اور جمہوریت کو ایک دفعہ پھر پنپنے کا موقع مل گیا ۔آج بھی ایسے سیاستدانوں کی کمی نہیں جنہیں جنرل کیانی محض اِس لیے اچھے نہیں لگتے کہ انہوں نے پیپلز پارٹی کی حکومت کا تختہ اُلٹ کر مارشل لاء نہیں لگایا ۔

سبھی جانتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں بہت سے مواقع ایسے بھی آئے جب تقریباََ تمام دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کا یہی خیال تھا کہ اب حکومت کا جانا اور فوج کا آنا ٹھہر گیا لیکن جمہوریت پسند اور جمہوریت نواز جنرل اشفاق پرویز کیانی کے پائے استقلال میں لرزش نہ آئی ۔آج اگر ملک میں جمہوریت پنپ رہی ہے تو اِس میں غالب حصّہ جنرل کیانی کی کوششوں، کاوشوں اور صبر و تحمل کا ہے ۔

یہ جنرل کیانی ہی تھے جنہوں نے ہمیشہ امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی اور اُس کے ”ڈو مور “ کے مطالبے کو پرکاہ برابر حیثیت نہ دی ۔یہ بجا کہ امریکہ 2010ء سے ہی شمالی وزیرستان میں حقانی نیٹ ورک کے خلاف آپریشن کے لیے زور ڈالتا چلا آ رہا تھالیکن پاکستان کی سیاسی قیادت کے علاوہ جنرل کیانی بھی یہی سمجھتے تھے کہ حقانی نیٹ ورک کے خلاف آپریشن اپنے پاوٴں پر آپ کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے ، اِس لیے اِس مطالبے پر کبھی کان نہیں دھرے گئے۔

بے تحاشہ امریکی ڈرون حملے بھی اسی مطالبے سے رو گردانی کا ردِ عمل تھے ۔اب بھی امریکی مطالبے کو تسلیم کرتے ہوئے نہیں بلکہ قومی و ملی سلامتی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے یہ آپریشن کیا جا رہا ہے البتہ امریکہ سے یہ ضرور مطالبہ کیا جا سکتا ہے کہ اب جبکہ شمالی وزیرستان میں آپریشن شروع کر دیا گیا ہے تو امریکہ بھی اپنے ”ڈرونز“ کا رُخ افغانستان کے علاقے”کنڑ“ اور اُ س کے گرد و نواح کی طرف پھیر دے جہاں مُلّا فضل اللہ اور اُس کے ساتھی چھپے بیٹھے ہیں ۔ شمالی وزیرستان کے دہشت گردوں سے ہم خود نمٹ لیں گے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :