نیا پاکستان

منگل 8 جولائی 2014

Jahid Ahmad

جاہد احمد

ذرا چشمِ تصور سے ملاحظہ کیجیے مستقبل کا نیا پاکستان! ملکوتی قوتوں کے مالک خان صاحب مارگلہ کی پہاڑیوں پر کھڑے اپنے ہاتھ فضاء میں بلند کرتے ہیں۔ جوں جوں ہاتھ فضاء میں بلند ہوتے ہیں توں توں سونامی کی لہریں اٹھ اٹھ پڑتی ہیں۔ پھر خان صاحب اپنے ہاتھوں کی جنبش سے سونامی کی لہروں کو بلند سے بلند تر کرتے ہوئے یک دم دونوں ہاتھ جھٹکے سے آگے کی جانب گرا دیتے ہیں اور اشارہ پاتے ہی سونامی پاکستانی دارلحکومت کو تہہ و بالا کرنے کی غرض سے چڑھ دوڑتی ہے۔

مزید تصور کیجیے کہ خان صاحب کالے کپڑے زیبِ تن کیے تختہ دار پر کھڑے اپنے دستِ مبارک سے ان حضرات کو پھانسیاں دینے کا کام سرانجام دے رہے ہیں جنہوں نے ان کے کارکنان کو کسی بھی وجہ سے کبھی خراش تک پہنچانے کی کوشش کیا نیت بھی کی ہو۔

(جاری ہے)

پھر خیال کیجیے کہ عظیم ترین محب الوطن خان صاحب سبز شیروانی پہنے سٹیج پربراجمان ہیں اورہمارے جیسے متوسط پاکستانیوں میں حب الوطنی کی اسناد تقسیم کر رہے ہیں۔

خان صاحب بے شک یہ سب کچھ کر سکتے ہیں! آل راؤنڈر جو ہوئے!! کیا خوب تصویر ہے نئے پاکستان کی جہاں خان صاحب تمام تر نظام کو سونامی میں بہانے کے بعد ڈکٹیٹر کے روپ میں مسندِ اقتدار ہیں اور ان کی زباں سے جھڑا ہر لفظ قانون کا درجہ رکھتا ہے۔ یقینا یہ کہہ دینے میں کوئی مذائقہ نہیں کہ خان صاحب طاہرالقادری صاحب کا زیادہ مشہورو معروف اور سیاسی قوت رکھنے والا Morph ہیں!
کچھ بھی نام دے لیں! 27 جون 2014 کا سیاسی جلسہ یا بہالپور سونامی میلہ! حقیقت یہ ہے کہ خان صاحب انتشار کی سیاست پر کاربند ہیں۔

کچی لسی کی طرح بڑھائے گئے چار مطالبات، ملکی نظام کو دس لاکھ لوگوں کی سونامی سے درہم برہم کردینے کی دھمکیاں اور پولیس کو اپنے ہاتھوں سے پھانسیاں لگانے کی بڑھکیں! کیا انتشار کی سیاست کرنا ہی خان صاحب کا خاصا ہے؟ میلے ٹھیلوں میں نوجوانانِ پاکستان کے جذبات بھڑکا کراور وسیع تر قومی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ملکی نظام کے خلاف بات کرنا ایک سابق کرکٹر رہ چکے سیاستدان کی دانش کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

اختلافات رکھنا جمہوریت کا حسن ضرور ہے مگر اختلاف کے نام پر انتشار اور انارکی پھیلانا کسی طور مہذب اقوام کا شیوہ نہیں۔مگر کون سمجھائے محترم کو کہ کسی بھی جمہوری نظام میں ایک عدد منتخب حکومت ہوتی ہے جو ملکی معاملات ملکی آئین یا قوانین کے زیرتحت چلانے کی پابند ہوتی ہے اور اسی طرح جمہوری نظام میں حکومت کے روز و شب پر نظر رکھنے کی ذمہ دارایک مضبوط حزبِ اختلاف ہوتی ہے ۔

یہ دونوں قوتیں سیاسی اختلافات رکھتے ہوئے ملک کے بہترین مفاد میں کام کرتی دکھائی دینی چاہییں۔اقتدار کا رستہ عوام کا ووٹ ہے نہ کہ کسی شارٹ کٹ کی تلاش۔ سمجھنے والے سمجھتے ہیں کہ اختلاف اور بے ہنگم شور شرابے میں بہر حال واضح فرق ہوتا ہے۔ چیئر مین تحریکِ انصاف جس طرز کی سیاست اور مخالفت کو اپنا اور اپنی جماعت کا وطیرہ بناتے جا رہے ہیں اس کی تشریح کے لئے موزوں ترین مہذب لفظ محض ’غیر ذمہ دار‘ ہی ہو سکتا ہے!
ہر گزرتے دن اور تحریکِ انصاف کی جانب سے اختلاف ، ملکی نظام میں بہتری ،عوام کی فلاح و بہبود اور ہرے مستقبل کے نام پر اٹھایا جانے والا ہر قدم ذی شعور پاکستانیوں کے دل میں خاں صاحب کا حقیقی قوت کی کٹھ پتلی ہونے سے متعلق شکوک و شبہات کو تقویت بخش رہا ہے۔

آسان الفاظ میں لکھا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ چیئرمین تحریکِ انصاف کو پاکستان کا جمہوری نظام پنکچر کرنے کا کام سونپا گیا ہے!!
دیانت داری سے خان صاحب کی شخصیت کا خلاصہ کیا جائے تو تجزیاتی رپورٹ یہی بتاتی ہے کہ موصوف کو مینیا ہے کہ پاکستان میں ان سے زیادہ محب الوطن شخص پیدا ہی نہیں ہوا۔ اسی طرح کا ایک اور مینیا جو پچھلے ایک آدھ سال میں دکھائی دینے لگا ہے وہ یہ کہ الیکشن 2013 میں پورے پاکستان نے ان کی جماعت کو ووٹ دیا تھا۔

پھر انتخابات میں ایسی دھاندلی ہوئی کہ اس بے چاری جماعت کے سارے کے سارے ووٹ باقی ماندہ جماعتوں نے آپس میں بانٹ لئے اور ان کو حقِ حکمرانی سے محروم کر دیا گیا۔ پاکستان کی تیسری بڑی سیاسی جماعت کے چیئر مین کے ذہن پر اقتدار کی کرسی تک کسی بھی حالت میں پہنچنے کا آسیب سوار ہو چکا ہے جس کے لئے وہ کسی بھی حد تک جانے پر تیار دکھائی دیتے ہیں چاہے رستہ سیاسی ہو یا غیر سیاسی! کس قدر معصومیت سے پوچھتے ہیں کہ ان کی حرکات جمہوریت کو کیسے ڈی ریل کریں گی۔

کاش کے ان کی جماعت کا کوئی پڑھا لکھا شخص حضرت کو پاکستان کی مختصر سی تاریخ کا احوال سنا دے۔کاش کہ کوئی خان صاحب کو 1977 کے الیکشن،مخالف جماعتوں کی جانب سے لگائے گئے دھاندلی کے الزامات،ملکی حالات کا خراب ہونا،انتشار و انارکی پھیلنا، نظامِ مصطفی کا نعرہ، آپریشن فئیرپلے ، منتخب وزیر اعظم کی پھانسی، ضیاء الحق کی مطلق العنانیت کا سیاہ دور اور پاکستان کی بدنصیبی کا قصہ بھی سنا دے۔

شاید ان کو بات سمجھ آئے کہ آج کی دنیا میں کسی بھی ملک کی بہتری اور روشن مستقبل کی بنیاد جمہوری نظام کے تسلسل سے چلنے سے مشروط ہوتی ہے۔
خان صاحب اور حواریوں کا اسلام آباد پر چڑھ دوڑنے کا لائحہ عمل پاکستان تحریکِ انصاف کا شارٹ کٹ کے ذریعے اقتدارکے حصول کے علاوہ خیبر پختونخوا میں پے در پے ناکامیوں پر سے عوام کی توجہ ہٹانے کا نیا ہتھکنڈا نظر آتا ہے۔

خیبر پختونخوا میں فی الوقت ناکام ہو چکی سونامی پارٹی کی کارکردگی باقی ماندہ پاکستان کی آنکھیں کھول دینے کے لئے بہت کافی ہے۔
چیئر مین صاحب کو سمجھنا چاہیے کہ لاکھوں نوجوان آنکھیں بند اور دماغ ماؤف کر کے ان کی شخصیت پر بھروسا کرتے ہیں۔ ان کے اعمال اور زباں سے ادا کردہ ہر ہر جملہ مکمل ذمہ داری کا مظہر ہونا چاہیے۔ اگر خان صاحب واقعتا جمہوریت پسند شخصیت ہیں تو اختلافات اور معاملات پارلیمنٹ میں طے کرنے چاہییں اور اقتدار میں آنے کے لئے انتخابی عمل کا رستہ اپناتے ہوئے اگلے انتخابات کا انتظار ضرور کرنا چاہیے۔

اگر نہیں تو پھر یہ سوچنا بھی جائز ہے کہ صوبائی حکومت کی کمزور کارکردگی، نیٹو سپلائی اورڈرون حملوں پر ناکام سیاست، دہشت گردوں سے امن مذاکرات اور طالبان سے محبت رکھنے والے خان صاحب خود بھی جانتے ہیں کہ انتخابی عمل کے ذریعے وہ شاید اس مرتبہ خیبر پختونخوا کا ووٹ بینک بھی ہارجائیں گے۔
سونامی جب بھی آتی ہے بربادی لاتی ہے۔ سونامی کو کسی صورت مثبت عمل سے نہیں جوڑا جا سکتا۔ پاکستان تحریک انصاف موجودہ ڈگر پر قائم رہی تو خدا اس دن سے بچائے کہ جب پاکستان پر اس جماعت کا راج ہو گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :