779پاوٴنڈ اور آگرے کا تاج محل !

منگل 8 جولائی 2014

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

بوسٹن اور کیمبرج امریکی ریاست میسا چوسٹس کے دو جڑواں شہر ہیں ۔بوسٹن میسا چوسٹس کا دارالحکومت اور کیمبرج اس کے ساتھ دریائے چارلس کے کنارے آباد ایک خوبصورت شہر ہے ،دونوں شہر اپنی الگ الگ خصوصیات کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہیں ۔بوسٹن کو امریکہ کا تعلیمی دل کہا جاتا ہے ،یہ شہر کالجوں اور یونیورسٹیو ں سے گھرا ہوا ہے اور آپ کو بوسٹن شہر میں دنیا کا ہر سٹوڈنٹ دکھا ئی دیتا ہے ۔

یہ امریکی خطے نیو انگلینڈ کا سب سے بڑا شہر ہے اور یہ امریکہ کی معاشی اور ثقافتی سرگرمیوں کا مرکز ہے ۔یہ نیو یارک سے چار سو میل کے فاصلے پر ہے اور اس کے جنوب میں بحر اوقیانوس لیٹا ہوا ہے ۔بوسٹن کے ساتھ دریائے چارلس کے دوسرے کنارے کیمبرج شہرآباد ہے اور کیمبرج مغربی دنیا کا مکہ اور یروشلم ہے ۔

(جاری ہے)

اگر ہم امریکی تاریخ سے کیمبرج کو نکال دیں تو امریکہ کی پچاس فیصد عظمت اور شان وشوکت ختم ہو جاتی ہے،اس کی وجہ کیا ہے وہ میں آپ کو آگے چل کر بتاوٴ ں گا ۔

1492میں امریکہ کی دریافت کے بعد جب برطانویوں نے امریکہ میں آباد ہو نا شروع کیا تو میسا چوسٹس ان کی پہلی آماجگاہ اور بوسٹن اورکیمبرج ان کا پہلا گھر ہو اکرتے تھے ۔برٹش لوگو ں نے اپنی مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لیئے کیمبرج میں ایک چرچ قائم کیا اور 1636میں میسا چوسٹس انتظامیہ نے اس چرچ کو باقاعدہ ایک کالج ڈکلیئر کر دیا ۔یہ جاننے سے پہلے کہ آنے والے زمانے میں یہ کالج کس نام سے مشہور ہوا اور اس نے دنیا کی تاریخ میں کیا کردار ادا کیا آپ کہانی کا دوسرا پارٹ بھی پڑھ لیں ۔


جان ہارورڈبرٹش انگریزتھا اوروہ 26نومبر1607کو لندن کے مضافات میں ڈریائے ٹیمز کے کنارے ایک گاوٴں میں پیدا ہوا تھا۔اس کے والد کا نام رابرٹ ہارورڈ تھا اور وہ ایک چھوٹی سی سرائے کا مالک تھا ۔1625میں ساوٴتھ واک میں طاعون کی وبا پھیلی تو اس کا والداس وبا کا پہلا شکار تھا ۔اس کی والدہ کا نام کیتھرین تھا ،اس کی والدہ نے تین شادیاں کی تھیں اور اسے تینوں شوہروں سے جائیداد وراثت میں ملی تھی ۔

جان ہارورڈ نے کیمبرج شہر کے امونیل کالج میں داخلہ لے لیا ۔1636میں اس نے سیڈلز نامی لڑکی سے شادی کر لی ۔1637میں جان ہاورڈ اور اس کی بیوی برطانیہ چھوڑ کر امریکہ چلے آئے اور یہاں انہوں نے کیمبرج میں دریائے چارلس کے کنارے رہائش اختیار کر لی ۔1637تک وہ ایک سو بیس ایکڑ زمین کے مالک بن چکے تھے ۔1638میں جا ن ہارورڈ ٹی بی کا شکار ہو ااور اس کی زندگی کی الٹی گنتی شروع ہو گئی ۔

ایک عرصہ تک زندگی اور موت کی گود میں کھیلنے کے بعد جب اسے اپنی موت کا یقین ہو گیا تو اس نے اپنی پوری قوت گویائی کوجمع کر کے اعلان کیا”میری کتابیں اورمیری آدھی جائیداد 1636میں قائم ہونے والے کالج کے نام کردی جائیں “اس کی کل مالیت 779پاوٴنڈ تھی ،کالج انتظامیہ جان کے جذبے سے بے حد متائثر ہوئی اور اس نے ہارورڈ کی وفات کے بعد 13مارچ 1639کو اس کا لج کو”ہارورڈ کالج “ڈکلیئر کر دیا اورآج دنیا اسے ہارورڈ یونیورسٹی کے نام سے جانتی ہے ۔


ہارورڈ یونیورسٹی دنیا کی نمبر ون یونیورسٹی ہے اور اس نے اپنا یہ اعزاز گزشتہ کئی دہائیوں سے برقرار رکھا ہوا ہے ۔اس سال بھی دنیا بھر کی یونیورسٹیوں میں درجہ بندی کے اعتبار سے ہارورڈ یونیورسٹی سب سے پہلے نمبر پر آئی ہے ۔برطانوی میگزین ٹائمز ہائر ایجوکیشن نے سال 2014کی سو بہترین یونیورسٹیوں کی لسٹ جاری کی ہے ۔دی ورلڈ یونیورسٹی رینکنگ کی تازہ فہرست میں ہارورڈ یونیورسٹی پہلے نمبر پر رہی ۔

دنیا کی ٹاپ ٹین یونیورسٹیوں میں امریکہ کی آٹھ اور برطانیہ کی دو یونیورسٹیاں شامل ہیں ۔ٹاپ ہنڈرڈ میں امریکہ کی 46،برطانیہ کی دس ،اور جرمنی کی چھ یونیورسٹیاں شامل ہیں ۔1633میں اس وقت جب آگرے میں تاج محل کی تعمیر کا آغاز ہو رہا تھااور اس پر کروڑوں روپے خرچ کیئے جارہے تھے جان ہارورڈاپنے 779پاوٴنڈ سے دنیا کی نمبر ون یونیورسٹی کی بنیاد رکھ رہا تھا ۔

1650میں جب حسن و جمال کا یہ شاہکار پایہء تکمیل کو پہنچ رہا تھا تو ہارورڈ کو لج کو گورنمنٹ سے چارٹر کا درجہ مل رہا تھا ۔1780میں گورنمنٹ نے اسے یونیورسٹی کا درجہ دے دیا تھا اور انیسویں صدی کے آتے آتے ہارورڈ یونیورسٹی امریکی تہذیب وعظمت کا عظیم الشان شاہکار بن چکی تھی ۔ہارورڈ یونیورسٹی دو سو دس ایکڑ پر مشتمل ہے ۔دنیا میں نوبل پرائز لینے والوں میں سے 75افراد اس یونیورسٹی سے وابستہ رہے ہیں اور دنیا میں یہ اعزاز صرف ہارورڈ یونیورسٹی کے پاس ہے ،اس کے فنڈز کی رقم تقریبا 27بلین ڈالر ہے اور دنیا میں کسی اور تعلیمی ادارے کے پاس اتنے فنڈز نہیں ۔

امریکہ کے آٹھ سابق صدر یہاں سے فارغ التحصیل ہیں ،دنیا کے 62ارب پتی افراد یہاں زیر تعلیم رہے اور 13سال تک دنیا کا امیر ترین رہنے والا شخص بل گیٹس بھی اسی یونیورسٹی کا اسٹوڈنٹ ہے ،دنیا کے ہر ذہین اسٹوڈنٹ کی خواہش ہے کہ اسے ہارورڈ میں ایڈمیشن مل جائے اور ہارورڈ یونیورسٹی میں داخلہ دنیا کے ہر اسٹوڈنٹس کا ایک سہاناخواب ہے ۔دنیا میں امریکہ کو امریکہ کہلوانے اور اسے سپر پاور بنانے میں اس یونیورسٹی کا بڑا حصہ ہے ۔


آج ہمارے ہاں انقلاب کے دعویداروں اور تبدیلی کے نعرے لگانے والے سیاستدانوں کی کمی نہیں لیکن ایک ایسی تبدیلی جو اس ملک اور قوم کے لئے ترقی اور خوشحالی کے دروازے کھول دے اس کے لئے کو ئی آگے نہیں بڑھتا ،ہمارے یہ سارے لیڈر اور سیاستدان اقتدار کے پجاری اور خواہشات کے غلا م ہیں ،ان کے اربوں روپے باہر بینکوں میں پڑے ہیں لیکن ان میں سے کسی کو یہ توفیق نہیں ہو تی کہ وہ جان ہارورڈ کی طرح 779پاوٴنڈ سے کسی عظیم یونیورسٹی کی بنیاد رکھے ۔کاش بلاول بھٹو ،حمزہ شہباز ،مونس الٰہی ،موسیٰ گیلانی اورارسلان افتخار سیاست کے گندے تالاب میں کودنے کی بجائے ہارورڈ طرز کی کسی یونیورسٹی کی بنیار درکھتے تو شاید یہ اس ملک اور قوم کے حق میں بہتر ہوتا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :