پولیس فورس بن نہ جائے کہیں پورس فورس

اتوار 6 جولائی 2014

Shahid Nazir Chaudhry

شاہد نذیر چودھری

میری بڑی خواہش رہی ہے کہ پولیس کے پاس حقیقی اختیارات ہوں تاکہ اسکا دبدبہ وقار کیساتھ قائم ہوجائے۔ لیکن مجھے یہ بھی خدشہ ہے پولیس محض اختیارات اور دبدبہ پابھی لے مگر اسکی ویلفیرکا سسٹم نہ بنایا گیا تو یہ پولیس فورس پورس فورس بن سکتی ہے۔روٹی اور عزت نفس کی ماری پولیس کے پاس گولی مارنے کا اختیارایسے ہی ہے جیسے بھوکے معاشرے میں چوری پرہاتھ کاٹنے کی سزا سنا دینا۔

ہامرے حکمران بھول گئے ہیں کہ وسائل کے اعتبار سے پولیس بھی بھوکی ہے اور معاشرہ بھی بھوکا۔اب بھوکے کو بھوکا مارے گا تو کیا ہوگا،یہ اندازہ سبھی کو ہے۔پاکستان میں بھوک اور روزگار حقیقی مسئلہ ہے جس نے کرائم انڈسٹری کو فروغ دیا ہے ۔لہذا گولی کی سرکارکو معاشرے میں ہیجان اور ناانصافی کو اپنی انتہا کراس کرنے سے پہلے ملک میں بنیادی حقوق اور عزت سے جینے کا بندوبست بھی کرنا چاہئے۔

(جاری ہے)

باقی یہ سرکار کی مرضی ہے کہ وہ پاکستان کے تحفظ کے لئے جتنے چاہے قوانین بناتی رہے لیکن قانون برائے قانون بنانے سے کیا ہوگا۔اصل کام ان کا مساویانہ عادلانہ اطلاق ہے ۔ناکہ اسمبلیوں میں بیٹھ کر قانون سازی سے دل کو بہلانا۔
یہ سن لیجئے کہ …گولی مارنے کا اختیار ملنے کے بعد پولیس بہت خوش دکھائی دے رہی ہے لیکن اگر پولیس غور کرے تویہ اختیارات بہت بھاری محسوس ہوں گے۔

انسان کاندھوں اور کمر پر لادا ہوا بوجھ تو اٹھا لیتا ہے لیکن ضمیر پر بوجھ پڑجائے تو اسے سنبھالنا مشکل اور جینا دوبھر ہوجاتا ہے۔گولی کا اختیار ضمیر کے لئے بہت بڑا امتحان ہے۔ مجھے یقین ہے پندرہ گریڈ سے اوپر والے پولیس افسروں نے ضمیر کا سودا نہ کیا تو مملکت خدادادنے جو انہیں اختیار تفویض کیا ہے وہ اسے ایمانداری سے استعمال کریں گے اور میرے وطن کو اُن وحشی دہشت گردوں سے کے خلاف مقدس جنگ میں اِس گولی کو بے دریغ چلائیں گے کہ جنہوں نے میرے وطن کی مانگ اجاڑ رکھی ہے۔

پولیس سمجھ لے کہ گولی کا اختیار ایک فتویٰ کی حیثیت رکھتا ہے۔بالکل ان دہشت گردوں کے فتاویٰ کی طرح… جو اپنے ملاوٴں سے فتوے لیکر میرے وطن کے عظیم سپوتوں کے سینے میں گولیاں اتارتے اورانکے سروں کو کاٹ کر فٹ بال بناتے رہے ہیں۔ان دہشت گردوں نے آج تک جتنے بھی فوجی اور پویس جوانوں کو شہید کیا ہے وہ اس پر نادم نہیں بکہ اس کو عین شرعی اور قابل ثواب فعل سمجھتے رہے ہیں ۔

اس جنگ میں پولیس کی گولی حرمت دین کی پاسدار ثابت ہوسکتی ہے بشرطیکہ پولیس نے یہ گولی حجت کے بعد چلائی اور جس پر چلائی وہ واقعی ننگ انسانیت ایک دہشت گرد تھا۔
سچی بات یہ ہے کہ پولیس کو ایک طاقتور قانون کی اشد ضرورت تھی۔جسطرح فوج نے دہشت گردی کی جنگ میں جو قربانیاں دی ہیں پولیس بھی پیچھے نہیں رہی ہے۔لیکن فوج کی تربیت اور اختیارات کا دائرہ وسیع ہونے کی وجہ سے اسے دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے میں آسانی رہی ہے جبکہ پولیس کو اس سے محروم رکھا گیا ہے اور اسی محرومی نے دہشت گردوں اور پورے معاشرے کی نظر میں پولیس کی اہمیت کم کردی ہے ۔

وہ پولیس کی پیشہ وارانہ اور قانونی کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر کھلے عام اور دھڑلے سے کارروائیاں کرتے،سیاستدانوں،مذہبی رہنماوٴں کے محافظوں کا فرض بھی ادا کرتے نظر آتے ہیں۔اب توقع تو یہی کی جارہی ہے کہ تحفظ پاکستان آرڈیننس پولیس کو کریمنل اسٹیک ہولڈرز کی”کچھاروں“ اور محفوظ پناہ گاہوں میں بھی گھسنے کی جرأت عطا کرے گا۔پولیس کو اسے پہلے یہی خدشہ ہوتا تھا کہ اگر بڑوں کے ”باڈی گارڈ کم ٹیررسٹس“ کے فرائض ادا کرنے والوں پر کمزور ہاتھ ڈالے گئے تو انکی اپنی جانوں اور نوکریوں کی کوئی ضمانت نہیں،بالفرض انہیں عدالتوں میں لایا بھی گیا تو باسٹرڈز باعزت رہا ہوکر پہلے سے زیادہ زہریلے ہوجائیں گے۔

تحفظ پاکستان آرڈیننس نے پولیس کو عدم تحفظ کے خوف سے نکال دیا ہے ،ممکن ہے پولیس کو اب کریمنلز کو تھانوں وغیرہ میں لے جانے کا تردد ہی نہ کرنا پڑے اوروہ انہیں وہیں خلاص کرکے قانون کا پیٹ بھر دیا کریں گے یوں گویامعاشرہ کئی ناسوروں سے پاک ہوجائے گا۔
میری ایک بڑی تمنا یہ بھی تھی کہ ہماری پولیس کو بھی فوج کی طرح دبدبہ حاصل ہو ۔بعضوں کے مطابق پولیس کا دبدبہ ہر دور میں برحق رہا ہے بلکہ ایک تھانیدار جب آپنی” آئی“ پرآتا ہے تواسکے سامنے ڈی سی ،جرنیلز اور وزیر مشیر،حتٰی کہ ہر شعبے کا بڑے سے بڑا افسر اور حکمران بھی بے بس ہوجاتا اور تھانیدار انکی مشکیں کس کے پانی بھی بھروا سکتاہے اور اسکے لئے تھانیدار کو کسی نئے قانون کے تحت اختیارات کی یاد دہانی کرانے کی ضرورت پیش نہیں آتی ۔

تھانیدار کو اپنی تھانیداری کااستعمال کرنا آتا ہو تواسے کوئی مائی کالعل بے بس نہیں کرسکتا۔ ہماری پولیس ماشااللہ، ازل سے بااختیار ہے اور ابد تک اسے بے اختیار نہیں کیا جاسکتا ۔اسکے باوجود جب تحفظ پاکستان آرڈیننس میں پولیس کو مشکوک افرادکومتنبہ کرکے گولی مارنے سمیت کئی اختیار دئیے گئے ہیں تو معترضین اور پولیس کی نفسیات جاننے والوں نے حیرت کا اظہار کیا ہے کہ آخر اس قانون کی ضرورت کیوں پیش آگئی ہے۔

پاکستانی پولیس تو پہلے ہی اتھری اور وکھری ٹائپ کی پولیس ہے ،وہ جہاں چاہے ،جب چاہے ڈنڈا گولی چلا سکتی ہے،پولیس مقابلوں کے نام پر بے گناہوں کو پار کرسکتی ہے،سپاری لیکر رئیل اسٹیٹ والوں کے دھندے میں انکا ہاتھ بٹا سکتی ہے۔چھاپے مار کر میاں بیوی کو زنا میں اندر کرسکتی ہے۔ہاں اگر کوئی مشکل درپیش تھی تو یہ ہوسکتی تھی کہ دہشت گردوں اور تخریب کاروں کے خلاف پولیس مقابلوں میں اسے پریشانی اٹھانا پڑتی تھی،جب ان دہشت گردوں کو عدالتوں میں پیش کرتی تھی تو ناکافی ثبوتوں کی وجہ سے ان کوباعزت بری کردیا جاتا تھا جس پر اکثر پولیس افسر کف افسوس ملتے ہوئے کہتے سنے گئے کہ” کاش ہمارے پاس ایسے اختیارات موجود ہوں کہ بس… پھر آپ دیکھیں ان سماج دشمنوں کا کیسے صفایا کرتے ہیں“ممکن ہے تحفظ پاکستان آرڈیننس کی ضرورت ایسی خواہشوں کوبھی پورا کرنے کے لئے پوری کی گئی ہے۔

اس آرڈیننس پر سماج کے بہت سے بڑوں نے تحفظات بھی ظاہر کئے ہیں ۔ظاہرہے ان کے تحفظات پولیس وردی میں موجود کالے بجھنگ بھیروں سے ہوں گے جو اب بھیڑئیے بن چکے ہیں۔یہ بھیڑئیے سپاری لیکر یا ذاتی دشمنی کے لئے اس قانون کو استعمال کرسکتے ہیں جس سے معاشرے میں بے چینی اور پولیس اسٹیٹ کا نظریہ تقویت پکڑے گا ۔یہ بات کرنا اب کوئی انوکھی بات نہیں رہی کہ پاکستان کا سیاسی اور وڈیرہ کلچر نیز قبضہ گروپوں اور رئیل اسٹیٹ مافیانے جرائم پیشہ افراد اور کوٹھہ کلچر کی خوب پرورش کی ہے ۔

اس طبقہ کے پولیس سے گہرے مراسم ہوتے ہیں اور یہ بات کوئی چھپی ہوئی نہیں ہے کہ پولیس کی ڈیروں اور کوٹھوں سے وابستگیاں بڑھنے سے جرائم اور گناہ کو تقویت ملتی رہی ہے لہذا پولیس کے بعض”کالے بھیڑیوں“ نے اگر اس قانون کو اپنی تسکین و انا اور تن آسانی کا ذریعہ بنا لیا تو خرابیاں کم ہونے کی بجائے بڑھ بھی سکتی ہیں۔ لہذا اس آرڈیننس سے پیدا ہونے والی خرابیوں کے تدارک کا بھی موثر انتظام ہونا چاہئے۔تاکہ اگر بے گناہ لوگ پولیس کی بربریت کا نشانہ بن جائی تو ان کے لوحقین کو فوری انصاف مل سکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :