مہاجرین کی مدد کیجئے…رمضان کا ثواب پالیجئے

اتوار 6 جولائی 2014

Zubair Ahmad Zaheer

زبیر احمد ظہیر

شمالی وزیرستان آپریشن سے چھ لاکھ افراد بے گھر ہوئے ہیں ۔بے گھر ہونے کا دکھ بڑا گہرا ہوتا ہے ۔ہمارے پیارے نبی ﷺ نے بھی ہجرت کی ۔مکہ سے ہجرت کے وقت رخسار مبارک پر آنسو جاری تھے ۔بے گھر ہونے کا دکھ و ہ ہی سمجھ سکتا ہے جس پر کوئی قیامت صغرا گزری ہو۔بے گھر ہونے کا قلق جاننا ہوتوزلزلہ 2005میں کشمیر اورہزارہ کے لاکھوں افراد کی نقل مکانی اور ہجرت کی لاکھوں کہانیوں سے معلوم کیا جاسکتا ہے ۔

زلزلہ 2005کے دوران قدرتی آفت زلزلے کی صورت میں آئی ،لوگ اپنے ہاتھوں بنے گھروں میں دب کر رہ گئے ،جو بچے ان کا راشن بھی منوں مٹی تلے دب کر ضائع ہوگیا ۔رابطہ سڑکیں ایسی ٹوٹیں کہ سڑکوں کا نام ونشاں تک صفہ ہستی سے مٹ گیا ۔زندگی بچانے کے لیے ان لوگوں کو بھی ہجرت کرنی پڑی ۔

(جاری ہے)

پوری دنیا مدد کو آمڈآئی ،دنیا بھر سے امداد بھی خوب آئی ۔پاکستان کے عوام نے بھی دل کھول کر سخاوت کی ۔

مگر برسوں کی محنت جب پل بھر میں بے کارہوجائے تو ایسے متاثرین کی بحالی کوئی آسان کام نہیں ہوتی ۔آج زلزلہ کو نو سال ہونے کو ہیں ۔مگر متاثرین جیسے پہلے تھے ویسے نہیں رہے ۔غریب امیر بن گئے اور امیر راتوں رات کنگال قلاش ہوگئے ۔ان کی زندگی میں یہ تبدیلی نو سالوں میں بھی پوری نہ ہوسکی ۔قدرتی آفات جب آتی ہیں تو مسائل کا مسلسل طوفان بھی ساتھ لاتیں ہیں ۔

پاکستان کی حکومت اور دنیا بھر کے امدادی ادارے نو سال کی انتھک محنت کے باوجود بھی متاثرین کی زندگی مکمل بحال نہیں کرسکے۔آج بھی آزادکشمیر اور خبیر پختون خواہ کے ہزاروں اسکولوں کی چھت آسمان ہے ۔دیواریں ہوا کی بنی ہوئی ہیں ۔اسکول فرنیچر کی جگہ پتھروں کی سلوں سے کام لیا جاتا ہے ۔دیگر مسائل بھی جون کے توں ہیں ۔آزادکشمیر اور خیبر پختوں خواہ کے یہ لاکھوں متاثرین اقتصادی لحاظ سے دس بیس سال ماضی میں چلے گئے ہیں ۔

ان کے گزرے نو سال کی ساری جمع پونجی گھروں کی تعمیراتی ضرورتوں کی نذر ہوگئی ہے۔نو سالوں میں بچت نہ ہونے کی وجہ سے یہ لوگ شادی بیاہ ،موت مرگ کے اضافی اخراجات کابوجھ سہنے کے متحمل نہیں ۔جس کی وجہ سے کئی طرح کے معاشرتی مسائل نے جنم لیا ،اور یہ بظاہر نظر نہ آنے والے مسائل دن بدن مزید بڑھ رہے ہیں ۔
زلزلہ 2005کے متاثرین کی دکھ بھر ی یہ کہانی ابھی مکمل بھی نہیں ہوئی تھی ۔

کہ شمالی وزیرستان آپریشن نے چھ لاکھ افراد کو بے گھر کردیا ۔نہ صرف یہ لوگ بے گھر ہوئے بلکہ آپریشن زدہ علاقوں سے باہر نکلنے کے لیے انہیں بے سروسامانی کے عالم میں نقل مکانی بھی کرنی پڑی ۔شمالی وزیرستان سے ہونے والی یہ ہجرت زلزلہ 2005کے بعد سب سے بڑی نقل مکانی ہے ۔یہ لوگ جسے جس طرف موقع ملا ،جان بچا کر نکل آئے ،جب جان پر بن جائے تو اسے کڑے وقت میں ضروریات زندگی کی اہمیت ثانوی ہوجایا کرتی ہے ۔

ان متاثرین کے ساتھ بھی ویسا ہی ہوا ۔اور یہ لوگ محض اپنی جانیں بچا کر نکل آئے ۔آپریشن حالت جنگ ہے اور جنگ ہمیشہ ہنگامی ہوا کرتی ہے ۔جنگ میں جنگی امور کو ہی اہم سمجھا جاتا ہے ۔ایسے مواقع پر متاثرین کی آباد کاری دوسرے مرحلے پر ہوتی ہے ۔ چھ لاکھ متاثرین یہ تعداد کسی طور پر بھی کم نہیں ۔پاکستان کے ہوٹلوں میں دستیاب سب سے سستا کھانا جسے آدھی پلیٹ کا نام دیا جاتا ہے ۔

اس کی بھی کم قیمت 50روپے سے کسی طور پر بھی کم نہیں ۔پچاس روپے ،ایک وقت اور ایک فرد کے کھانے کو اگر سادہ سی ضرب چھ لاکھ سے ساتھ دی جائے تو یہ رقم 3کروڑ بنتی ہے ۔ان کے دوقت کے کھانے کی رقم 6کروڑ بنتی ہے ۔ناشتہ کو ملا کر صرف ان کے ایک دن کے کھانے کی کم سے کم قیمت ساڑھے 10 کروڑ بنتی ہے ۔سادہ لفظوں میں شمالی وزیرستان کے مہاجرین کے محض ایک دن کے کھانے کا کم سے کم ،سستے سے سستا بجٹ محض 10 کروڑ بنتا ہے ۔

اب بچوں کے لیے خصوصی لازمی اور گراں قیمت غذاء ،رہائشی ضروریات ،رمضان کی افطاری کے لازمی دسترخوان ان تمام کا اگر موٹا موٹا حساب کیا جائے ان کا مجموعی اور لازمی خرچہ تقریبا 12کروڑ یومیہ بنتا ہے ۔متاثرین کی حالت زار بنوں میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے ،حکومتی امداد ابھی ابتدائی مراحل میں ہے اور پہلے روزے میں ہی متاثرین راشن سے محروم رہے ۔

حکومت کی امداد متاثرین کی تعداد کے حساب سے ناکافی ہے ۔یوں سمجھ لیجیے کہ یہ لوگ اپنے گھروں میں سبزی وغیرہ کھیتوں سے پورا کرلیتے تھے ۔اورزراعت پیشہ ہونے کی وجہ سے کئی ایک کاگزر بسر زمینوں سے ہوتا تھا ۔زراعت سے وابستہ اور دیہی کاموں کے ماہر یہ لوگ اب ہزاروں کی تعداد میں بے روز گار ہیں ۔جنہیں شہری زندگی کا کوئی کام ڈھنگ سے کرنا بھی نہیں آتا ۔

ان سے مدد کے لیے عالمی امداد کی بھی وہ صورتحا ل نہیں جو زلزلہ متاثرین کے لیے تھی ،پاکستان میں عوامی تعاون سے راشن وغیرہ اور پکے پکائے کھانوں کی ترتیب بھی ویسی نہیں ،جیسی زلزلہ متاثرین کے لیے تھی ۔زلزلہ ایک قدرتی آفت تھی جس پر ساری دنیا مددکو لپک آئی ۔شمالی وزیرستان آپریشن ہماری قومی ضرورت ہے لہٰذا اس پر دنیا میں کوئی ویسی ہل چل بھی نہیں ۔

پاکستان کے رفاعی اداروں میں اتنی جان نہیں کہ تن تنہا وہ چھ لاکھ افراد کی رہائشی اورغذائیضروریات پوری کرسکیں ۔ان چھ لاکھ افراد کی گزربسر کے انتظامات اکیلی وفاقی حکومت کے بس کا روگ بھی نہیں۔رفاعی ادارے اپنے طور پراور اپنے محدوو وسائل میں بحالی کے لیے کوشاں ہیں مگر ضرورت اس سے کہیں زیادہ کی ہے ۔پاکستانی قوم ایک تو خود مہنگائی کی ستائی ہوئی ہے ،جس نے عام فرد کی قوت خرید ہی متاثر کردی ہے ۔

اب رائے عامہ ان متاثرین کی بحالی کے لیے ہموار کی جانے کی ضرورت ہے ۔ان چھ لاکھ افراد نے بے گھر ہو کر پوری قوم کے 18کروڑ 95 لاکھ شہریوں کو گھروں میں پرامن رہنے کی خاطر خودبے گھر ہونے کی مصیبت جھیلی ۔پوری قوم اگر آج اپنے گھروں میں پرسکون ہے ۔تو اس میں ان چھ لاکھ متاثرین کی قربانیوں کا بھی بڑا اہم کردار ہے ۔اس لیے پوری قوم متحد ہوکر دامے ،درمے ،قدمے ،سخنے ان متاثرین کی مدد کرے ۔

پاکستان کاپرنٹ و الیکٹرانک میڈیا بھی فلم سازی کی بجائے حقیقی خبر پر توجہ مرکوز کرے ۔ بے گھر ہونے کا دکھ اگر ہمارے پیارے نبی جناب حضور اکرم ﷺسے برداشت نہیں ہوا ۔تو عام مسلمان بھی اس صدمہ کو کیسے برداشت کر سکتا ہے ۔جب آقائے دوجہاں حضور اقدس ﷺ کومکہ سے مدینہ ہجرت کرنی پڑی تب حضور ﷺ کے آنسو بھی اپنے گھر سے بے گھر ہونے پر رخسار مبارک پر جاری ہوگئے تھے ۔

نقل مکانی اور بے گھر ہونے کے دکھوں کا مداو تو نہیں کیا جاسکتا ،تاہم ان متاثرین کی جان اور عزت نفس تو بچائی جاسکتی ہے ۔حکومت اور عوام مل کر ان مہاجرین کو زلزلہ2005 کے متاثرین جیسی بدحالی سے بچا لیں ۔انہیں ہاتھ نہ پھیلانے دیجئے ․آگے بڑھ کر ان ہاتھ تھام لیجئے۔ان کی ضروریات ان کے ہاتھوں میں تھما دیجئے۔رمضان میں ڈھیروں ثواب کمائیے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :