میاں صاحب کا توپخانہ اور اس کا انجام

اتوار 6 جولائی 2014

Israr Ahmad Raja

اسرار احمد راجہ

میدان جنگ میں توپخانے کی بڑی اہمیت ہے۔تیر،تلوار،نیزے اور بھالے کی زد سے بچنے اور دشمن پر کارگر کاروائی کیلئے کسی ایسے ہتھیار کی ہمیشہ سے ضرورت تھی جس کی مدد سے دشمن کی ہتھیاروں سے بچتے ہوئے اس پر حملہ آور ہوا جاسکے۔توپخانے کی ابتدائی شکل منجنیق کی تھی جسکا بنیادی آئیڈیا فلاخن سے لیا گیا فلاخن ایک سادہ سا ہتھیار ہے جسکی مدد سے پتھر پھینکا جاسکتا ہے فلاخن اور غلیل ایک ہی کام کرتی ہیں۔

فرق صرف اتنا ہے کہ فلاخن غلیل کی نسبت بھاری پتھر پھینک سکتی ہے اور غلیل میں چھوٹا پتھر یا لوہے کی گولی پھینکی جاسکتی ہے۔فلاخن یا غلیل کا تاریخی استعمال حضرت داؤد نے کیا۔آپ اپنے والد اور آٹھ بھائیوں کے ہمراہ حضرت طالوت کے لشکر میں شامل ہوئے اور اللہ کے حکم سے کافر بادشاہ جالوت کو اپنی فلاخن کا نشانہ بنا کر واصل جہنم کیا۔

(جاری ہے)

وقت گزرتا رہا اور منجنیق کا سائیز گولے کا وزن،در ستگی اور رینج بھی بڑھتا گیا۔

بنو امیہ دور کی ایک بڑی منجنیق جامع امیہ دمشق میں دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اس سادہ مگر ہیبت ناک ہتھیار کی میدان جنگ میں موجودگی سے دشمن کس قدر نفسیاتی دباؤ پڑتا ہوگا۔بعد کے ادوار میں منجنیقیں بحری جہازوں پر بھی فٹ کی جانے لگیں اور پتھروں کی جگہ بڑے بڑے آہنی اور فاسفورس اور گندھک کے تیزاب سے بھرے ڈرم نما آگ لگانے والے گولے بھی پھینکے جانے لگے۔

پانی پت کی لڑائی میں بابر کے توپخانے نے خوب کام کیا اور ابراہیم لودھی کے ہاتھیوں کا کام تمام کر دیا۔ہنی بال اور سکندر نے بھی منجنیق نما کسی توپخانے کا استعمال کیا جن کے دھماکوں سے ہاتھی،گھوڑے اور اونٹ بپھر جاتے اور سواروں کے قابو میں نہ رہتے۔جدید توپخانے کا رواج ہوا تو فرانسیسی،روسی اور امریکی توپیں مشہور ہوئیں۔تاریخی توپوں میں امجد شاہ ابدالی کی بھاری توپ بھی مشہور ہے۔

احمد شاہ نے یہ توپ نیشا پور اور شیراز کے محاصرے سے پہلے ڈھلوائی اور ایران کے کئی شہر اور قلعے اس توپ کی مدد سے فتح کیئے۔یہی توپ پانی پت کی لڑائی میں بھی استعمال ہوئی اور فتح کا باعث بنی۔امجد شاہ کی یہ توپ کئی بادشاہوں کے ہاتھوں گزرتی رنجیت سنگھ کے توپخانے کا حصہ بنی جس کے عملے میں سکھوں کی بھنگی مثل کے سپاہی شامل تھے۔سکھوں کی شکست کے بعد انگریز سکھ توپخانہ تو ساتھ لے گئے مگر بڑی توپ یہی چھوڑ دی احمد شاہ در دوراں (احمد شاہ درانی)کی یہ توپ آج بھی لاہور کی اہم شاہراہ پر موجود اپنی اہمیت کا احساس دلاتی ہے۔

تاریخ لاہور کے مطابق لاہور کا فقیرخاندان رنجیت سنگھ کے توپخانے کا انچارج تھا۔پتہ نہیں لاہور کے فقیر صرف توپیں چلاتے تھے یا پھر ڈھالتے بھی تھے۔اگر ڈھالتے تھے تو یقیناً توپیں ڈھالنے والی بھٹی پر ہی میاں صاحبان نے اتفاق فاؤنڈری کی بنیاد ڈالی ہوگی!
جدید توپ خانے سے ترقی کی اور قسم قسم کی توپیں وجود پذیر ہونے لگیں جن میں چھوٹی،بڑی اور درمیانی رینج کی توپوں کے علاوہ حرکتی توپیں،ہوائی توپیں،گن شپ ہیلی کاپٹر،بحری توپیں اور کمپیوٹر سے چلنے والی توپیں اور پھر توپوں سے بھی آگے میزائل اور بغیر پائیلٹ کے جہاز جنھیں ڈرون کہا جاتا ہے تخلیق ہوئے اور تباہی کے نئے سامان لائے۔

آج کے دور میں سائینسی تحقیق اور تخلیق کا مقابلہ ساتھ ساتھ چل رہا ہے ایک طرف توپوں ،جہازوں اور میزائلوں سے بڑھ کر بارودی دھماکے اور خود کش بمبار تباہی پھیلاتے ہیں تو دوسری جانب منفی پراپیگنڈہ فوج اور قوم کے مورال پر اثر انداز ہوتا ہے۔میاں صاحبان کے توپخانے میں بھی نہ توپیں ہیں،نہ جہاز،نہ میزائل اور نہ ہی خود کش بمبار مگر یہ توپخانہ اول الذکر توپخانوں کی نسبت زیادہ کارگر ہے۔

یوں تو میاں صاحب کی نون لیگ جو کہ پاکستان کی حکمران جماعت ہے میں کچھ جرنیل بھی ہیں مگر میاں صاحب کے توپخانے کا انچارج نہ تو کوئی استاد عل قلی خان ہے ،نہ بھنگی اور فقیر۔جنرل عبدالقادر بلوچ انفنٹری کے جرنیل ہیں اور جنرل ترمذی رسالے کے سابقہ جرنیل ہیں۔مگر لگتا ہے کہ وہ نون لیگ سے الگ ہیں چکوال والے جنرل عبدالقیوم توپخانے کے جرنیل تو ہیں مگر میاں صاحب کے میزائل خانے میں فٹ نہیں آتے۔

سنا ہے کہ اس توپخانے کے انچارج چڑیا والے نجم سیٹھی ہیں اور ان کی معاونت ایک میڈیا گروپ کے دانشور ر صحافی اور اینکر کرتے ہیں۔میاں صاحب کے توپخانے کی ساری توپیں ایک ہی رخ پر اور ایک ہی حدف پر فائیر کرتی ہیں ان توپوں کا رخ جی ایچ کیو اور آئی ایس آئی ہیڈ کواٹر کی طرف ہے ۔ کبھی یہ توپیں جنرل پرویز مشرف کی آڑ میں اور کبھی آمریت اور جمہوریت کی آڑ لیکر فائیر کرتی ہیں۔

مثل مشہور ہے کہ ”غم یاراں تے ناں بھراراں“یعنی غم یار کا اور نام بھائی کا۔مشرف جمہوریت اور آمریت کا نام لیکر فوج پر حملہ دراصلon locationفائیر ہے۔ آئی ایس آئی اور جی ایچ کیو دو ہیڈ کوارٹرز نہیں بلکہ دو قلعے ہیں دو مضبوط مورچے ہیں دو گھر ہیں اوردو مضبوط دیواریں ہیں جنہیں میاں صاحب کا توپخانہ دن رات مکارانہ بمباری کر رہا ہے تاکہ پاکستان غیر محفوظ اور پاکستاتی بے گھر ہوجائیں اور دشمن انہیں یرغمال بنالے۔

نون لیگ کے تھنک ٹینک میں شامل سارے ٹینک شرمن ہیں جن کی مرمت صرف بھارت میں ہوتی ہے یہی تھنک ٹینک میاں صاحب کی بوفر گنوں کا ایندھن تیار کرتا ہے تاکہ بمباری میں مکاری اور عیاری کا عنصر غالب رہے جب کبھی توپیں زیادہ گرم ہوجاتی ہیں یا نیا ایمونیشن آنے کا انتظار کرتی ہیں توتھینک ٹینک شرمن ٹینکوں کا روپ دھار کر خود بمباری کرنا شروع کر دیتے ہیں۔

میاں صاحب کا توپخانہ اور ٹینک میاں صاحب کے کمپوزٹ ڈائیلاگ کی طرح ایک کمپوزٹ فورس ہے جس میں بھارتی صحافیوں،دانشوروں،سیاستدانوں کے علاوہ فوجی میڈیا میں موجود پاکستان دشمن دستہ بھی شامل ہے۔
میاں صاحب کے تھینک ٹینک اور توپخانے کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ آپ ہمایوں بادشاہ سے مماثلت رکھتے ہیں ہمایوں بیمار ہوا تو بابر نے دعا کی کہ اسکی عمر ہمایوں کو لگ جائے۔

ہمایوں صحت مند ہوگیا اور بابر مرگیا۔امیر المومنین جنرل محمد ضیاء الحق شہید نے اپنی عمر میاں محمد نواز شریف کو لگ جانے کی دعا کی تو جنرل صاحب معہ امریکی سفیر اور دیگر جرنیلوں کے شہید ہوگئے اور میاں صاحب بادشاہ بن گئے ۔ہمایوں جلا وطن ہوکر ایران چلا گیا اور میاں صاحب سعودی عرب پہنچ گئے۔ہمایوں شاہ طہاسپ کی مدد سے واپس آیا تو اس کے ہمراہ قزلباش ترکمان اور ازبک فوجی دستے تھے جبکہ میاں صاحب کے ساتھ خاص میڈیا گروپ کی کمپوزٹ فورس کے علاوہ ذاتی ٹینک رجمنٹ(تھینک ٹینک)اور لیگی توپخانہ بھی آیا اور ملک پر چھاگیا۔

میاں صاحب کے توپخانے کی بڑی بڑی توپیں جناب وزیر دفاع،وزیر ریلوے،وزیر اطلاعات و قانون،مخصوص اینکر و صحافی بمعہ میڈیا مالکان کے جبکہ معاون توپوں میں مستردشدہ کیڈٹ صحافی، اور ایک ہیرو کا زیرو بیٹا اور دیگر میں اخلاقی لحاظ سے زیرو گروپ شامل ہے۔ہیرو کے زیرو نے اپنی صحافت چمکانے کیلئے کہا کہ جناب الطاف حسین کو گرفتار کروانے میں عمران خان کا ہاتھ ہے۔

زیرو ذہن کو پتہ نہیں کہ اسطرح کا بیان سکاٹ لینڈ یارڈ پولیس کے کردار کو مشکوک بناتا ہے اگر لندن پولیس کو اس بات کا علم ہوگیا تو صحافت کا شوق ٹھنڈہ پڑ جائے گا انگلینڈ میں دو نمبر پیسے سے خریدی ہوئی جائیداد کا حساب دینا پڑگیا تو نہ اینکری رہے گی اور نہ بیکری۔
حیران کن بات ہے کہ نوائے وقت جیسے ادارے نے پی ایم اے سے مسترد شدہ نااہل کیڈٹ کو اپنے ادارے میں ملک دشمن طاقتوں کی نمائندگی کیلئے کیوں رکھا ہوا ہے۔

جناب مجید نظامی صحافت کی دنیا کے ہیرو ہیں اور نوائے وقت کے مالک بھی، کہتے ہیں کہ اگر کسی کا کتا کسی دوسرے کو کاٹ ڈالے تو ذمے داری مالک کی ہوتی ہے۔ایسی ہی ایک مثال نوکر کی ہے نوکر بھی کوئی غیر اخلاقی حرکت کرے تو مالک ہی جوابدہ ہوتا ہے۔ادارے بلاشبہ مالکوں کے ہوتے ہیں مگر نمائندگی عوام کی کرتے ہیں۔بے شک یہ تمام لوگ امن کی آشا کی آڑ میں پاکستان کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں پر حملہ آور ہیں۔


میاں صاحب کے توپخانے میں بڑی اور معاون توپوں کے علاوہ رانی اور شیرنی قسم کی توپیں بھی ہیں جو اکثر پھوکے فائیر کرتی ہیں۔محترمہ عظمیٰ بخاری نے میاں کے توپخانے میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے ایک فائیر کیا اور فرمایا کہ جیو اور آئی ایس آئی دو ادارے ہیں۔پھوکا فائیر اسلئے ہے کہ ایک معزز رکن اسمبلی کو علم ہی نہیں کہ آئی ایس آئی ایک اہم ادارہ ہے جسکا تعلق ملکی سلامتی سے ہے۔

آئی ایس آئی ملک پاکستان اور پاکستانی قوم کی آنکھیں اور کان ہیں۔یہ قوم اور ملک ہے تو میاں صاحب اور بخاری صاحبہ ہیں خدا اس ملک کی حفاظت کرے اگر یہ نہ رہا تو میاں صاحب کے خاندان کو جاتی عمرہ اور محترمہ کو بخارہ میں کوئی نہ پوچھے گا۔میاں صاحب کو اگر اپنی دولت کا گھمنڈ ہے تو وہ تاریخ کی طرف دیکھیں۔شاہ ایران،صدام حسین،قذافی،شاہ ادریس اور شاہ فاروق کے پاس خزانوں کی کمی نہ تھی۔

وقت کی آندھی ریت کے محل مسمار کرتی ہے کہ کھنڈرات بھی باقی نہیں رہتے۔ آئی ایس آئی کے ساتھ جیو اور جنگ سے مقابلہ کرنا عقلی دیوالیہ پن کی نشانی ہے آئی ایس آئی قائد اعظم کے پاکستان کے محافظ ہے اور جیو قائد کے پاکستان کی نظریاتی اور جغرافیائی بنیادیں کھوکھلی کرنیوالا ایک کمرشل ادارہ ہے۔محترمہ ذرا حامد میر کے لیکچروں پروگراموں کی طرف بھی دھیان دیں اور ان کی چھاتی پر سجے بھارتی اور بنگلہ دیشی تمغوں کی چھنکار بھی سنیں۔

آئی ایس آئی ایسے خاموش سپاہیوں کی فوج ہے جو مسلسل حالت جنگ میں رہتی ہے جبکہ جنگ اور جیو پاکستان دشمن بھارتی میڈیا کی بزنس پاٹنر شپ میں امن کی آشا کے نام سے ایک پراپیگنڈہ مہم چلا رہے ہیں۔محترمہ عظمیٰ بخاری اور میاں صاحب کے توپخانے کے گنروں اور کمانڈروں سے گزارش ہے کہ وہ جنگ اور جیو پر لکھے جانے والے کالموں اور پروگراموں کی تھیم کو سمجھیں کہ یہ اخبار اور اس کے چینل صرف اور صرف نظریہ پاکستان،اسلام،افواج پاکستان،پاکستانی کلچر و ثقافت اور آئی ایس آئی پر فوکس کر رہے ہیں۔

اگر محترمہ عظمٰی بخاری اور تہمینہ دولتانہ کے پاس وقت ہو تو وہ حامد میر کے بھارتیوں کے ساتھ انٹرویو اور پروگراموں کے علاوہ حامد میر کی ڈھاکہ والی تقریر اور اردشیر کاؤس جی اور ڈاکٹر ہود بائی کے ساتھ انٹرویو دیکھ لیں۔علاوہ اسکے حامد میر کے کیپیٹل ٹاک میں وزیر دفاع کے بیانات،سوال و جواب اور سلیم صافی کے پروگراموں پر بھی ایک نظر ڈالیں اور پھر نفسیاتی جنگ کے متعلق کسی بھی رائیٹر کی کتاب دیکھ لیں۔

اس سلسلے میں جنرل قادر بلوچ اور جنرل عبدالقیوم صاحب سے بھی پوچھ لیں کہ کیا ان صحافیوں کے پروگراموں میں پیش کیا جانے والا مواد اینٹی پاکستان اور اینٹی اسلام نہیں؟
میاں برادران کا شمار دنیا کے کھرپ پتیوں میں ہوتا ہے جبکہ ان کے اہم پارٹی ممبر بھی ارب پتی ہیں۔تھوڑا سا مال مفت خرچ کرکے جیو کے پروگراموں کا کسی بھی عالمی نفسیاتی جنگ کے ادارے سے تجزیہ کروایا جاسکتا ہے۔

کتوں کی شہادت،پنجابی فوج،آئی ایس آئی کے سربراہ کا میڈیا ٹرائیل،صوفی شعراء کے کلام کی بہودہ کامیڈی،بزرگان دین کا تمسخر،اصحاب رسولﷺ اور خانوادہ رسولﷺ کی توہین،قرآن پاک کی آیات کا غلط ترجمہ و تشریح،بھارتی بہودہ کلچر کا فروغ،پاکستانی تاریخ و تمدن پر غلط بیانی،امن کی آشا کی آڑ میں نظریہ پاکستان کی نفی سمیت ہزاروں بیانات ایسے ہیں جن کی بنا پر اس میڈیا گروپ پر مستقل پابندی لگ سکتی ہے اور اس ادارے کے اینکروں،صحافیوں اور مالکان پر بھی توہین اصحاب،توہین قرآن اور توہین پاکستان کی دفعات کے تحت مقدمہ چل سکتا ہے۔

مگر جب حکومت وقت ایسے ادارے کی معاون ہوتو مقدمہ کون چلائے اور سزاکون دے؟
محترمہ تہمینہ دولتانہ نے ایک پروگرام میں فرمایا کہ اب وقت آگیا ہے کہ آرمی کو بیلنس آوٹ کیا جائے۔پتا نہیں وہ آرمی کو بیلنس آوٹ کرنا چاہتی ہیں یا آوٹ آف بیلنس کرنا چاہتی ہیں۔فی الحال ان کے کامریڈ ممبران اسمبلی اور وزراء کرام اپنی بیلنس شیٹ پر نظر ڈالے بغیر فوج کو آوٹ آف بیلنس کرنے کی کوشش میں ہیں۔

ن لیگ کی اس مہم میں چینلوں کے کچھ اینکروں نے جنگی پیمانے پر کام کیا اور حکومتی داد وصول کی۔ حکومتی ترجمان جناب پرویز رشید کے مبارک زبان سے کھلا پیغام بھی دیا کہ ہم غلیل والوں کے ساتھ نہیں۔جناب پرویز رشید کے بیان پر غور کیا جائے تو یہ اکھنڈ بھارت کے خواب کی تعبیر ہے اکھنڈ بھارت کا فلسفہ یہ ہے کہ کہ اشوکا کے بھارت کو یکجا کیا جائے اور آموں دریا سے لیکر بنگال اور تبت سے لیکر ایران تک ایک ہندوریاست قائم کی جائے۔

اکھنڈ بھارت کا دوسرا نام ہندواتا ہے جسکا مطلب ہندو راج کا قیام اور دیگرمذاہت کے ماننے والوں سے ہندو دھرتی کو صاف کرنا ہے۔نو منتخب بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی اسی فلسفے پر کار بند ہے اور اسکی پارٹی کا دستور بھی یہی ہے۔اشوک اعظم کے وزیر اعظم چانکیہ کو تیلیہ کا قول ہے کہ دشمن کا دشمن میر ادوست۔بھارت کے پاکستان دشمن ہونے میں کسی کو شک نہیں جبکہ پاک فوج اور آئی ایس آئی جو کہ پاکستان کی محافظ ہے بھارت دشمن ہے۔

جبکہ چند ملک دشمن امن کی آشا کے رشتے میں منسلک بھارت دوست اور ن لیگ کی بھارت دوستی کے معاون و مددگار۔ نون لیگ بھارت دوست،بھارت پاکستان دشمن،اسلام دشمن اور پاک فوج و آئی ایس آئی دشمن،کیا دنیامیں کوئی ایسی حکومت ہے جو اپنے ہی ملک،قوم اور مسلح افواج کے دشمنوں کی دوست ہے۔اگر جناب پرویز رشید اور ان کی جماعت جو حکمران جماعت ہے ایک ایسے ادارے کے ساتھ کھڑی ہے جو ملک دشمنی،فوج دشمنی اور دین دشمنی پر گامزن ہے تو پھر یہ ملک،یہ قوم اور فوج کس کے سہارے پر کھڑی ہے؟
کہتے ہیں کہ منفی پراپگنڈہ کسی بڑے حادثے کو جنم دیتا ہے میاں صاحب کو پتہ ہی ہوگا کہ ہر بمباری کے بعد جوابی بمباری بھی ہوتی ہے ۔

فوج ایک ڈسپلنڈ ادارہ ہے اسے بیلنس آوٹ کرنے کی بجائے اس کی جرأت اور جوانمردی کے بیلنس کو بڑھایا جائے اور چاہیں تو وہ سیز فائیر بھی کرسکتے ہیں وہ اپنی توپوں کو خاموشی کا حکم بھی دے سکتے ہیں مگر لگتا نہیں کہ وہ امن کی آشا اور سیفما کے اشوکا چکر سے نکلیں۔فوج کے بجائے جیو،جنگ اور دیگر چینلوں پر بیٹھے شترے مہار اینکروں کو بیلنس آوٹ کرنے اور انھیں کسی ڈسپلن میں رکھنے کی ضرورت ہے۔

کچھ صحافی اور اینکر ایسے بھی ہیں جو اگر بھارت،اسرائیل،امریکہ اور برطانیہ میں ہوتے تو ٹیلیویژن سکرینوں کے بجائے جیل کی کوٹھری میں ہوتے۔اکھنڈبھارت،ہندواتا اور امن کی آشا ایک ہی موروتی کی تین شکلیں ہیں اور تینوں کے مکروہ مقاصد پاکستان،اسلام،پاک آرمی اور نظریہ پاکستان کو مٹانا ہے میاں برادران اگرچہ چانیکائی چالوں کا شکار ہیں جو کہچند شاتر ذہنوں کی مشترکہ کاوشوں کا نتیجہ ہے مگر ضروری نہیں کہ وہ اس جال میں مسلسل پھنستے ہی جائیں وہ چائیں تو اس چکر سے نکل بھی سکتے ہیں۔

ورنہ ناراض چوہدری نثار کی طرح مزید لوگ آپ سے متنفرہو کر الگ ہونے لگیں گے اور طاہر القادری کے انقلاب اور عمران خان کے سونامی سے قبل ہی آپ اپنے توپ خانے سمیت کہیں کسی بڑی تباہی کا شکار نہ بن جائیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :