اقلیتوں کے حقوق اورمذہبی رواداری

جمعہ 4 جولائی 2014

Syed Farzand Ali

سید فرزند علی

امریکی ایوان نمائندگان کے 5ارکان کیری ،بنٹیولیو،ایڈم شیف،تلسی گبارڈ اورٹام پٹری نے وزیر اعظم نوازشریف کو خط لکھ کر سندھ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیاہے کہ پاکستان میں ہندووٴں ،عیسائیوں اور دیگر مذہبی اقلیتوں کی حفاظت کو یقینی بنایاجائے ۔
اسی طرح گذشتہ دنوں سپریم کورٹ آ ف پاکستان نے پشاور چرچ حملہ کیس کے متعلق متفرق درخواستوں کی سماعت کے موقع پر 32صفحات پر مشتمل فیصلے میں وفاقی حکومت کو حکم دیاہے کہ اقلیتوں کے تحفظ کیلئے ٹاسک فورس بنائی جائے اور اقلیتوں کی عبادت گاہوں کی بے حرمتی کرنے والوں کے خلاف فوجداری مقدمات درج کئے جائیں سوشل میڈیا پر اقلیتوں کے خلاف شر انگیز تقاریر کرنے والوں کو سزادی جائے اور تعلیمی اداروں میں مذہب کی بنیاد پر تفریق نہ کی جائے اور تعلیمی نصاب کو ایسا بنایاجائے جو مذہبی رواداری کو فروغ دے اس سلسلے میں حکومت نے ٹاسک فورس کو تشکیل دینا شروع کردیاہے ۔

(جاری ہے)


پاکستان کی تاریخ میں سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے پہلی بار ایسا فیصلہ آیاہے اور جو ہدایات سپریم کورٹ نے دی ہے وہ پاکستان کے آئین میں پہلے سے ہی درج ہیں ان پر کس حد تک عمل درآمد نہیں ہوتا اس کاذمہ دار کوئی مسلمان ،کوئی عالم دین یاکوئی دینی جماعت نہیں بلکہ حکومت پاکستان ہے جس نے آئین کے مطابق ملک کا نظام چلانا ہوتاہے ۔
پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں اقلیتوں کے حقوق کوتسلیم کیاجاتاہے اگر آئین پاکستان کا بغورمطالعہ کیاجائے تو پتہ چلتاہے کہ آئین کے آرٹیکل 20کی شق (الف)کے مطابق ہر شہری کو اپنے مذہب کی پیروی کرنے ،اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کا حق ہوگا اورشق(ب)کے مطابق ہر مذہبی گروہ اور اس کے ہرفرقے کو اپنے مذہبی ادارے قائم کرنے ،برقراراور ان کا انتظام کرنے کا حق ہوگا آئین کے آرٹیکل 21کے مطابق کسی شخص کو کوئی ایسا خاص محصول ادا کرنے پر مجبور نہیں کیاجائیگا جسکی آمدنی اس کے اپنے مذہب کے علاوہ کسی اور مذہب کی تبلیغ وتریج پر صرف کی جائے آرٹیکل 22کی شق (ایک)کے مطابق کسی تعلیمی ادارے میں تعلیم پانے والے کسی شخص کو مذہبی تعلیم حاصل کرنے یاکسی مذہبی تقریب میں حصہ لینے یامذہبی عبادت میں شرکت کرنے پر مجبور نہیں کیاجائے گا اگر ایسی تعلیم ،تقریب یاعبادت کا تعلق اس کے اپنے مذہب کے علاوہ کسی اور مذہب سے ہو۔

شق (دو)کے مطابق کسی مذہبی ادارے کے سلسلے میں محصول لگانے کی بابت استثناء یارعایت منظور کرنے میں کسی فرقے کے خلاف کوئی امتیازروانہیں رکھاجائے گا شق نمبر (تین)قانون کے تابع....(الف)کے مطابق کسی فرقے یاگروہ کو کسی تعلیمی ادارے میں جو کلی طور پر اس فرقے یاگروہ کے زیرانتظام چلایاجاتاہو ،اس فرقے یاگروہ کے طلباء کو مذہبی تعلیم دینے کی ممانت نہ ہوگی اور(ب)کے مطابق کسی شہری کو محض نسل،مذہب ،ذات یامقام پیدائش کی بناء پر کسی ایسے تعلیمی ادارے میں داخل ہونے سے محروم نہیں کیاجائے گا جسے سرکاری محاصل سے امداد ملتی ہوآئین کے آرٹیکل 27کی شق(ایک)کے مطابق کسی شہری کے ساتھ جو بہ اعتباردیگر پاکستان کی ملازمت میں تقررکا اہل ہو،کسی ایسے تقررکے سلسلے میں محض نسل، مذہب، ذات، جنس، سکونت یامقام پیدائش کی بناء پر امتیاز روانہیں رکھاجائے گا آئین کے آرٹیکل 36کے مطابق مملکت اقلیتوں کے جائز حقوق اور مفادات ،جن میں وفاقی اورصوبائی ملازمتوں میں ان کی مناسب نمائندگی شامل ہے تحفظ کرئے گی آئین پاکستان کے باب 2میں آرٹیکل 51کی شق (4)کے مطابق قومی اسمبلی میں غیرمسلموں کیلئے دس نشستیں مختص کی جائیں گی اسی طرح شق (6)کی ذیلی شق(ج)کے مطابق غیرمسلموں کیلئے مخصوص تمام نشستوں کیلئے حلقہ انتخاب پوراملک ہوگا آئین کے آرٹیکل 227کی شق (تین)کے مطابق کسی اسلامی قانون کا غیرمسلموں پر اطلاق نہیں ہوگا اور نہ ہی اسکا اثرپڑے گا ۔


ان تمام حقوق ہونے کے باوجود اگر یہ الزام لگایاجائے کہ پاکستان میں اقلیتوں کو حقوق حاصل نہیں ہے تو یقینا یہ پاکستان کے خلاف سازش ہے جس میں امریکہ ،اسرائیل سمیت مختلف غیرمسلم ممالک ملوث ہیں جو دنیا کے واحدایٹمی اسلامی ملک پاکستان کو غیرمستحکم کرنا چاہتاہیں اور اس کام کیلئے پاکستان میں مقیم غیرمسلموں کو اکسایاجاتاہے کہ انہیں پاکستان میں حقوق حاصل نہیں ہیں اس سلسلے میں حکومت پاکستان اور دینی جماعتوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ پاکستان میں موجوداقلیتوں کو ساتھ ملاکراس سازش کو ناکام کرنے کیلئے اپنا کردارادا کریں ۔


پاکستان علماء کونسل اس سلسلے میں اہم کردارادا کررہی ہیں جن کے زیراہتمام مختلف شہروں میں ہونے والی ”بین المذاہب “کانفرنسوں میں مختلف مذاہب کے لوگ تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان اقلیتوں کیلئے محفوظ ترین ملک ہے گذشتہ دنوں اسلام آباد کے مقامی ہوٹل میں پاکستان علماء کونسل کے زیراہتمام” بین المسالک و بین المذاہب مکالمہ کیوں ضروری ہے ؟ کے عنوان سے قومی کانفرنس کا انعقاد کیاگیاتھاجس میں یورپین یونین سمیت مختلف ممالک کے 12سفارتکاروں نے شرکت کی تھی جس میں ان کاکہناتھاکہ بین المذاہب مکالموں کے ذریعے ناصرف اختلافات کو ختم کیا جا سکتا ہے بلکہ ایک دوسرے کے قریب آنے کا بھی موقع ملتاہے یورپین یونین کے پاکستان میں نمائندے لارس گونر وگمارک (Lars Gunnar Wigemark)کاکہناتھاکہ یورپ نے اسلام سے بہت کچھ سیکھا ہے کیونکہ دین اسلام کی امن ،بھائی چارہ اور برابری کی بات کرتاہے پولینڈ کے سفیر اندرے اننیزکاکہناتھاکہ دین اسلام کی خوبصورت تاریخ ہے دین اسلام نے ہمیں فزکس ،کمیسٹری سے روشناس کروایا کیونکہ اسلام علم کی طرف توجہ دلاتاہے ارجنٹینا کے سفیر روڈ ولوف جے مارٹن کاکہناتھاکہ اسلام امن اور بھائی چارے کا دین ہے ناروے کی سفیر سیسل کاکہناتھاکہ مسائل ہر جگہ موجود ہیں ہمیں مل کر اسے حل کرنے کی ضرورت ہے انہوں نے کہاکہ اسطرح کی کانفرنسیں جاری رہنی چاہیے فلسطین کے سفیر ابواحمد ولید نے کہاکہ یہ عظیم کانفرنس ہے اسطرح کی کانفرنس سے ایک دوسرے کے قریب آنے کا موقع ملے گا۔


اسطرح کی کانفرنسیں یقینا خوش آئند ہیں لیکن بین المذاہب رواداری کا فائدہ اسی صورت میں ہوگا جب غیرمسلم ممالک میں بھی مسلمان اقلیت کے ساتھ بہترین حسن سلوک روارکھا جائے گا فلسطین میں اسرائیلی دہشت گردی اور برمامیں مسلمانوں کے ساتھ حسن سلوک کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں اسی طرح وسطحی افریقہ کی تازہ ترین مثال بھی موجود ہے جہاں مسلمانوں کی تعداد کو کم کرنے کیلئے انتہاپسند مسیحی جبراور تشددکا راستہ اپنا رہے ہیں اس معاملے میں اقوام متحدہ بھی خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے جبکہ دوسری طرف اقوام متحدہ نے بزورطاقت سوڈان اور ملائیشیا میں مسیحوں کیلئے الگ ممالک بنائے اور آج کل وسطحی افریقہ میں مسیحوں کیلئے الگ ملک بنانے کی کوشش کی جارہی ہے اگر دنیا کے مسلمانوں کے ساتھ اسطرح کا امتیازی سلوک جاری رہاتو بین المذاہب کے درمیان رواداری کو فروغ دینا ممکن نہیں ہوگا مختلف مذاہب کے لوگوں کو اپنے اپنے مذہب پر علم اور دلیل کی بنیاد پر عمل پیرا ہوکر ایک دوسرے کے ساتھ رواداری کا جذبہ پیدا کرنے کے مواقع پیدا کرنے چاہیے یہی جذبہ ایک دوسرے کے حقوق کو تسلیم کرنے کی بنیاد بنے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :