سیاسی ‘انتظامی موشگافیاں

بدھ 2 جولائی 2014

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

واٹر اینڈ سیوریج بورڈ نے قائد اعظم محمد علی جناح کی ہمشیر اور تحریک آزادی کی عظیم رہنما محترمہ فاطمہ جناح کے انتقال کے 47سال بعد انہیں پانی کی فراہمی اور نکاسی کے سروسز چارجز کی مد میں دو لاکھ 63ہزار 774روپے کا بل ارسال کیا ہے اور انہیں ہدایت کی گئی ہے کہ وہ نوٹس کی وصولی کے 10روز کے اندر اندر اپنے واجبات ادا کریں بصورت دیگر ان کے پانی اور سیوریج کے کنکشن منقطع کئے جا سکتے ہیں بصورت دیگر لینڈ ریونیو ایکٹ کے تحت ان کی جائے داد کی قرقی، نیلامی اور جرمانہ کیا جا سکتا ہے ، حتی کہ انہیں گرفتار بھی کیا جا سکتا ہے ۔

تفصیلات کے مطابق کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے صدر ٹاؤن کی طرف سے محترمہ فاطمہ جناح کو واجبات کی وصولی کا نوٹس ارسال کیا گیا ہے ، اس نوٹس کو کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کی طرف سے محترمہ فاطمہ جناح کیلئے آخری موقع قرار دیا گیا ہے اور واجبات کی ادائیگی کی آخری تاریخ 28 مئی مقرر کی گئی ہے۔

(جاری ہے)

محترمہ فاطمہ جناح کا صارف نمبر A0600390000ہے، نام و پتہ کے خانے میں مس فاطمہ جناح اور مرحوم لکھا گیا ہے ، جبکہ ان کا پتہ RA-241 کینٹ لکھا گیا ۔

واضح رہے کہ کراچی کینٹ کے علاقہ میں فاطمہ جناح روڈ پر بائیں ہاتھ پر واقع مکان فلیگ اسٹاف ہاؤس بابائے قوم کی ملکیت تھا، یہ گھر اب میوزیم کے طور پر استعمال ہو رہا ہے ۔ یہاں پر قائد اعظم اور محترمہ فاطمہ جناح کے ذاتی استعمال کی اشیا رکھی ہیں، محترمہ فاطمہ جناح کے نام پر بھیجے گئے نوٹس میں کہا گیا ہے کہ بل کا نہ ملنا قابل قبول عذر تسلیم نہیں کیا جائے گا ۔

بل کی کاپی ادارہ کے قریبی کنزیومر سینٹر سے حاصل کی جا سکتی ہے ۔ نوٹس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کنکشن منقطع ہونے کی صورت میں کنکشن بحالی فیس واجب الادا ہوگی۔ دریں اثنا کمشنر کراچی شعیب احمد صدیقی نے کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کی طرف سے محترمہ فاطمہ جناح کے نام نوٹس کے اجرا پر سخت برہمی کا اظہار کیا ہے۔ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے کمشنر کراچی نے بتایا کہ انہوں نے کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے منیجنگ ڈائریکٹر کو محترمہ فاطمہ جناح کے نام جاری کئے گئے نوٹس کو واپس لینے کی ہدایت کی ہے ۔

کمشنر کراچی نے بتایا کہ بورڈ کے منیجنگ ڈائریکٹر نے زبانی طور پر نوٹس واپس لینے کی یقین دہانی کرائی تاہم ابھی تک انہیں بورڈ کی طرف سے نوٹس واپس لینے کی تحریری اطلاع نہیں دی گئی۔ تاہم انہوں نے نوٹس واپس لئے جانے کی تحریری اطلاع جلد ملنے کی توقع ظاہر کی ۔ واضح رہے کہ محترمہ فاطمہ جناح کے نام اس قسم کا نوٹس کے الیکٹرک کی طرف سے جاری کیا گیا تاہم کے الیکٹرک کے ذرائع سے اس نوٹس کے اجرا کی تصدیق نہیں ہو سکی۔

ا
#عمران خان جلسے جلوسوں کے ذریعے اپنا وقت ضائع کرنے کی بجائے متاثرین آپریشن کی امداد کے حوالے سے مرکزی حکومت کا ساتھ دیں‘ وفاقی وزیرعابد شیر علی کا بیان اس بیان پر طرح طرح کے تبصرے جاری ہیں‘ ایک تبصرہ یہ بھی ہے کہ وفاقی وزیر کو بھی حکومتی ”سب اچھا“ کی بین بجانے سے اگر فرصت مل جائے تو وہ اپنے محکمے پر بھی توجہ دیں جو کسی کی بات نہیں مان رہا اور اب تو یوں لگتا ہے کہ یہ بے وزیر محکمہ ہے حالانکہ دو بڑے خاص اور چہیتے وزیر اس کے سر پربٹھائے گئے مگر․․․․․․ یا پھر سیاسی موشگافی ہے ‘جیسا کہ ہمارے ایک سیاسی رہنما سرکاری افسران کو کہاکرتے تھے کہ میں جو کچھ جلسوں ‘کھلی کچہریوں میں کہتا رہوں‘ لوگوں کے سامنے جو حکم جاری کروں مگر اس وقت تک عمل نہیں کرنا جب تک کہ کسی بھی کاغذ پر میرے سبز روشنائی سے دستخط موجود نہ ہوں۔

سو لگتا یہی ہے کہ پانی وبجلی کے معاملے کو وفاقی وزیرنے سبز روشنائی کے دستخطوں سے جوڑ رکھا ہے۔ ابتداً موصوف کی ”آنیاں جانیاں“ بھی خوب تھیں مگر اب لگتا یہی ہے کہ حکومت نے انہیں پانی‘ بجلی کے بعد عمران خان کو رگیدنے کاٹاسک سونپ دیا ہے
#پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری آل پارٹیز کانفرنس کے بعد ہوسکتا کہ رمضان کے بعد نئے لائحہ عمل کے تحت میدان میں آئیں مگر ان بارہ تیرہ جانوں کا کیا بنے گا جو خواہ مخواہ ہی بھینٹ چڑھ گئیں اورستم ظریفی یہ ہے کہ ان کے خون کے ذمہ داروں کوتعین نہیں ہوپارہا ‘ حکومت نے جس شخص کو ذمہ دار قرار دیکر استعفیٰ لیا یعنی رانا ثنا اللہ ‘ وہ بھی اس فرد جرم سے انکاری ہے‘ سی سی پی او بھی انکار کررہے ہیں‘ کمشنر لاہور بھی صاف جواب دے گئے‘ جوڈیشل کمیشن کی کاروائی جاری ہے مگرکیا انت ہوگا؟؟ ہرقاری یہی سوال کرتا ہے لیکن جواب نہیں ملتا‘ ملے بھی کیسے کہ یہاں ریمنڈ ڈیوس جیسے لوگوں کو تو راتوں رات صلح صفائی اور ”خون معاف“ کراکے باہر بھیج دیاجاتا ہے اور ہمارے ہاں کے ”ریمنڈڈیوس “ ہرقسم کے قاعدے قوانین کو پاؤں تلے روندتے ہوئے انسانی خون سے ہاتھ رنگتے چلے جاتے ہیں۔

رہا سوال کہ کیا نتیجہ نکلے گا؟؟ بات سیدھی سی ہے کہ انجام وہی ہوگا جس طرح بیکری ملازم پرتشدد کے حوالے سے انکوائریوں کاہوا ‘ یاپھر ایک خاتون رکن اسمبلی کی چوری کے معاملے کو جس ”خوش اسلوبی“ سے سلجھایاگیا۔ سو پیارے پیارے اور بھولے بھالے پاکستانی بھائیو!ان انکوائری کے چکر میں نہ رہنا ‘ ہونا وہی ہے جو حکومت چاہے گی‘ انقلاب لانے والے اپنے گھرخوش اورحکومت اپنے گھر‘ اصل ماتم تو ان بارہ تیرہ گھروں میں ہے جو انقلاب کی آس میں جان کی بازی ہارگئے‘ لیکن یاد رکھئے کہ خون ضائع نہیں جاتا رنگ ضرور لاتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ انقلاب لانے والے خون کا انصاف نہ لے سکیں لیکن حکمرانوں کو ”دین“ ضرور دینا پڑیگا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :