روزہ صرف بھوک کا نام نہیں

بدھ 2 جولائی 2014

Syed Shahid Abbas

سید شاہد عباس

رمضان المبارکی کی آمد کے ساتھ ہی بازاروں میں گہما گہمی شروع ہو گئی ہے۔ مساجد نمازیوں سے کچھا کھچ بھری ہوئی ہیں۔ چار سو درود و سلام کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں۔ ایک عجیب سا نور ہر سو پھیلا نظر آتا ہے۔ موسمی اعتبار سے روزہ مشکل بھی ہے لیکن پھر بھی جذبہء ایمانی سے منور دل روزہ چھوڑنے پر آمادہ نہیں۔ ہر کوئی اپنی دانست میں خشوع و خضوع کے ساتھ اس مبارک مہینے کی رحمتیں سمیٹنے میں مصروف ہے۔

افطاری سے کچھ دیر پہلے کے مناظر دیکھیں تو لوگ لدھے پھندے گھروں کو رواں دواں ہوتے ہیں۔
یہ تمام اہتمام اپنی جگہ ۔لیکن کیا ہم رمضان کی اصل روح کو آج تک پہچان پائے؟ کیا ہم نے وہ درس بھی سیکھا جو رمضان جیسے با برکت مہینے میں ہم کو سکھایا گیا؟ رمضان سے ایک دن پہلے کا منظر۔

(جاری ہے)

بازاروں میں تل دھرنے کو جگہ نہیں۔ وجہ؟ کیوں کہ کل پہلا روزہ ہے اور صبح سحری کا انتظام بھی کرنا ہے۔

حیران کن بات یہ دیکھی کہ بازاروں میں ہر جگہ تو تکار ، گالم گلوچ، لڑائی جھگڑا ہر طرف ۔کسی نے راستہ دینے کی درخواست کر دی تو اس کو جواب میں لفظ بھی پتھر کی طرح ملے۔دوکاندار حضرات کا تو کیا ہی کہنا۔ 10 کی چیز 100 کی اور اگر غلطی سے کسی نے پوچھ لیا کہ بھئی ایک دن میں اتنا ریٹ کیسے چڑھ گیا تو ایسے خونخوار نظروں سے گھورنا شروع کے جیسے پوچھنے والے کو کچا چبا جائے گا۔


ذرا مرکزی شاہراہ کی صورت حال پر غور کریں۔ سنگل لائن کی جگہ چار چار لائنیں بنی ہیں۔ نتیجتاً مکمل ٹریفک بلاک ۔ ایک صاحب جن کی وجہ سے پوری ٹریفک بلاک تھی، جب مودبانہ گذارش کی کہ جناب اگر آپ تھوڑی سی زحمت کر لیں تو تمام ٹریفک کھل جائے گی تو ان کا جواب تھا کہ نہیں جناب! ایسا نہیں ہو سکتا کیوں کہ میں تراویح کے لیے لیٹ ہو رہا ہوں۔ اب ان کو کون سمجھاتا کہ جناب پیچھے جو ٹریفک جام میں تین ایمبولینسز کھڑی ہیں ان میں تڑپتے مریضوں کا کیا قصور ہے۔

ہر کوئی اپنی مدد آپ کے تحت ٹریفک چلانے میں مصرو ف ہے۔ پانچ منٹ کا فاصلہ پچاس منٹ میں طے ہوا۔ وجہ کیا؟ ہر کوئی رمضان کی تیاری میں مصروف ہے اور دوسرے سے آگے نکلنے کا متمنی ہے۔
ارشاد ہوا کہ " رمضان میرا مہینہ ہے اور میں ہی اس کی جزا بھی دوں گا"۔ پھر ارشاد ہوا کہ " روزے تم پر اس لیے فرض کیے گئے تا کہ تم متقی بن جاؤ"۔ ہم یہ بات بھی بھلا بیٹھے کہ روزہ صرف ایک عبادت کا نام نہیں اگر ایسا ہوتا تو اللہ کی عبادت و حمد کے لیے تو فرشتے ہی بہت تھے۔

روزہ صرف بھوک اور پیاس کا نام بھی نہیں اگر ایسا ہوتا تا اللہ جو انسان کو 70 ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے کیسے گوارا کر لیتا کہ اس کا بندہ پورا دن بھوکا پیاسا رہے۔ روزہ خالصتاً اللہ کے لیے ہے۔ اور وہی اس کی جزا بھی دے گا۔
قرآن میں کہہ دیا گیا کہ روزے ہم سے پہلی امتوں پر بھی فرض کیے گئے۔ اور ان کی فرضیت کا مقصد ہی یہ ہے کہ انسان متقی ہو جائے(تفسیر)۔

لیکن ہم نے روزے کو (نعوذ باللہ ) اللہ پر احسان سمجھ لیا ہے۔ ہم اپنی دانست میں یہ تصور کر لیتے ہیں کہ اگر ہم روزے سے ہیں تو ہم باقی دنیا سے الگ ہو گئے۔ روزہ تو نام ہی اس بات کا ہے کہ آپ کی زبان سے بھی کسی کو تکلیف نہ پہنچے یعنی زبان سے کوئی ایسا لفظ نہ نکلے جس سے کسی دوسرے کو اذیت پہنچے۔ روزہ تو ہاتھوں کا بھی ہے کہ آپ کے ہاتھوں سے کسی دوسرے بھائی کو ایذا نہ پہنچے۔

روزہ تو آنکھوں کا بھی ہے کہ نگاہ بدی کی طرف نہ جائے۔ روزہ تو دوسروں کا خیال کرنے کا بھی نام ہے یعنی آپ کے ہمسائے میں کوئی ایسا تو نہیں جو بھوکے پیٹ ہو اور آپ پیٹ بھر کر کھانا کھا رہے ہوں۔روزہ توناجائز منافع خوری کی نفی کا نام بھی ہے۔ یعنی اس بابرکت مہینے میں کم سے کم منافع پر لوگوں کو اشیاء فراہم کی جائیں۔ روزہ تو ذخیرہ اندوزی کی ضد بھی ہے یعنی اس رحمتوں بھرے مہینے میں عام آدمی کو ضروریات زندگی وافر مقدار میں ملیں۔

روزہ تو جھوٹ سے دوری سکھاتا ہے یعنی اپنے فائدے کے لیے بھی جھوٹ نہ بولا جائے۔ روزہ سچ کی ترویج کا نام ہے چاہے اس میں اپنا نقصان ہی کیو ں نہ ہو جائے۔ روزہ اپنے زیر سایہ ملازمین پر شفقت کرنے کا نام ہے یعنی ان کی کسی چھوٹی موٹی غلطی کو بھی معاف کر دینا۔
اب ہم میں سے ہر کوئی انفرادی سطح پر بھی اپنا جائزہ لے سکتا ہے کہ ہم رمضان کی روح کو کس قدر اپنا رہے ہیں۔

ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جنہوں نے رمضان کے تقدس کی خاطر جھوٹ بولنا چھوڑ دیا۔ ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جو اپنے گھروں میں انواح و اقسام کے کھانے دسترخوان پر سجانے سے پہلے اس بات کی طرف بھی توجہ دیتے ہیں کہ کہیں ان کا ہمسایہ بھوکا تو نہیں ہے۔ کتنے فیصد لوگ ایسے ہوں گے جو رمضان کا مہینہ آتے ہی اس بات کو یقینی بناتے ہوں گے کہ اس مہینے کے تقدس کی خاطر گالم گلوچ سے پرہیز کریں اور اپنی زبان سے کوئی ایسا لفظ ادا نا کریں جو دوسروں کی تکلیف کا باعث بن جائے۔


ہم اپنی ذات یا اطراف کا جائزہ لیں تو ایسے لوگ آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔ تو پھر ہم کیسے خود کو مسلمان گردانتے ہیں جب ہمارا ہمسایہ بھوکا ہے اور ہم پیٹ بھر کر افطاری کر رہے ہیں۔ جھوٹ ہمارا روز کا وطیرہ ہے تو کیا پھر یہ روزہ وہ تو نہیں جو ہمارے منہ پہ مارا جائے گا؟آخر ہم کیوں رمضان کو صرف ایک مہینہ سمجھتے ہیں۔ اگر ہم اس کو ایک مہینے کے بجائے اپنی زندگی گزارنے کا نسخہء کیمیا سمجھیں تو ہماری زندگیاں اس مہینے کے بعد بھی امن و سکون کا گہوارہ بن جائیں گے۔ آج اگر ہم رمضان کی اصل روح کو پہچان جائیں تو جو جن مشکلات کا ہم شکار ہیں ان سے نہ صرف جاں خلاصی ہو سکتی ہے بلکہ آئندہ کے لیے بھی ہماری زندگی مثالی بن سکتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :