انٹرا پارٹی الیکشن اور ڈاکٹر قاری عتیق الرحمان

بدھ 2 جولائی 2014

Muhammad Uzair Asim

محمد عزیر عاصم

جماعتی الیکشن کسی بھی جماعت میں ایک اہم مرحلہ ہوتا ہے،اس مرحلے میں نہ صرف نئی قیادت کا چناؤ ہوتا ہے بلکہ متحرک کارکنوں اور قائدین کی صلاحیتوں کا اعتراف بھی کیا جاتا ہے۔یہ امر یاد رکھنے کے قابل ہے کہ جماعتی الیکشن کے حوالے سے پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی تاریخ اتنی اچھی نہیں ،بڑی سیاسی جماعتوں میں "بلامقابلہ"انتخاب کا رحجا ن آج تک موجود ہے۔

قومی منظر نامے میں آج کے دور میں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن بڑی سیاسی جماعتوں میں شمار ہوتی ہیں ،لیکن ان میں پارٹی الیکشن جس روایت سے ہوتے ہیں ،وہ ہمارے سامنے ہے،قائدین بلامقابلہ منتخب ہوجاتے ہیں،حتیٰ کہ صوبائی قیادت بھی مرکزی قائدین کی آشیر باد سے ایک حکم سے منتخب ہوجاتی ہے اور مخلص اور متحرک کارکن منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں،بعض اوقات اپنا منہ دیکھ لیتے ہیں اور بعض اوقات اپنے قائدین کا منہ دیکھنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

ہماری سیاسی جماعتوں میں گنتی کی جماعتیں ہیں ،جن میں پارٹی الیکشن واقعی الیکشن ہوتے ہیں نہ کہ سلیکشن، ان میں جماعت اسلامی ،جمعیت علمائے اسلام ،اہلسنت والجماعت ،اے این پی(کچھ حد تک)،ایم کیو ایم(کچھ جگہ الیکشن اور کسی جگہ سلیکشن) اور اس بار تحریک انصاف نے انٹرا پارٹی الیکشن کروائے(جن کی شفافیت کی داستان اس کے اپنے ہی کارکنوں نے بیان کر دی کہ کتنا پیسہ چلا اور کتنے لوگوں کا ریٹ لگا)۔

بہرحال پارٹی الیکشن ایک جمہوری اور مثبت روایت ہے،انہی کی بنیا د پہ جماعتیں مضبوط ہوتی ہیں اور نئے لوگ جماعت کا نہ صرف حصہ بنتے ہیں بلکہ فیصلہ سازی کا اختیار بھی ان کے حصہ میں آتا ہے۔
گزرے ماہ سے جمیعت علمائے اسلام کے صوبائی انتخابات کا سلسلہ چل رہا ہے۔جس کے نتائج سے ہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان میں کس قدر شفافیت کا اہتمام ہے،جیسا کہ بلوچستان میں گزرے تیس سال سے صوبائی امیر کے عہدے پہ فائز رہنے والے مولانا محمد خان شیرانی چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل اس دفعہ انتخابات میں اپنی حیثیت برقرار نہ رکھ سکے اور صوبائی قیادت کا تاج مولانا فیض اللہ کے سر پہ سج گیا،دوسری طرف صوبہ پنجاب کے انتخابات میں سابقہ امیر مولانا رشید احمد لدھیانوی اور سابقہ ناظم عمومی ڈاکٹر قاری عتیق الرحمان کے مابین مقابلہ ہوا اور امارت کی ذمہ داری ڈاکٹر قاری عتیق الرحمان کے حصہ میں آئی،اسی طرح خیبر پختونخواہ میں بھی مقابلہ کی فضا جاری ہے،تادم تحریر وہاں کے الیکشن ابھی نہیں ہوئے،بہرحال ایک مذہبی سیاسی جماعت میں یہ عمل اس کے زندہ رہنے کی علامت ہے۔


صوبہ پنجاب میں چونکہ جاگیر داری نظام اور خان خوانین کا غلبہ ہے،اس لیے یہاں پہ جمعیت کا وہ کام نہیں ہے جو خیبر پختونخواہ اور بلوچستان اور اندرونی سند ھ میں ہے،گزری صوبائی قیادت اس حوالے سے کافی متحرک ثابت ہوئی تھی کہ ایک صوبائی نشست پنجاب سے اور دو نشستیں صوبہ سندھ سے حاصل ہوئی تھیں جو کہ نادیدہ قوتوں سے برداشت نہ ہوئیں اور سازشوں سے چھین لی گئی ،سندھ میں دھاندلی اور پنجاب میں ڈگری کا ایشو بنا،ان حالات میں نئی قیادت کو اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا ہوگا اور پہلے سے بڑھ کر کام کرنا ہوگا تا کہ آنے والے الیکشن میں جماعت نہ صرف کامیاب ہو بلکہ سازشوں کا بھی کامیابی سے سامنا کرے۔


پنجاب کے نو منتخب امیر ڈاکٹر قاری عتیق الرحمان کو اللہ تعالیٰ نے بہت سی صلاحیتوں سے نوازا ہے،نہ صرف قوت گویائی بلکہ فصاحت و بلاغت کے ساتھ ساتھ فہم و فراست سے بھی خوب خوب نوازے گئے ہیں ،پھر اپنے اسلاف کی نہ صرف لاج رکھی ہوئی ہے بلکہ صوبہ بھر میں آوازِ جمعیت بن کے اکابر کا مشن بھی پہنچا چکے ہیں،جب بولتے ہیں تو اک جہان کا درد اپنا درد بنا کے بولتے ہیں،علاقہ چھچھ جس کی شہرت دین داری کے حوالے سے آج بھی تسلیم کی جاتی ہے،ڈاکٹر صاحب اسی خطہ کے فرزند ہیں،یہاں پہ جاگیرداری نظام پہ پہلی چوٹ آپ ہی کے والد ماجد شیخ الحدیث حضرت مولانا سعید الرحمان صاحب نے اکابر کی سرپرستی میں لگائی تھی،اور نہ صرف صوبائی اسمبلی پہنچے تھے بلکہ صوبائی وزارت بھی آپ کے حصہ میں آئی تھی،ان کے فرزند انہی کی مثل اکابر کی سرپرستی میں اپنے سیاسی سفر میں آگے بڑھ رہے ہیں،ضلع اٹک کے ناظم عمومی ،پھر پنجاب کے ناظم عمومی اور صوبہ پنجاب کے نومنتخب امیرکے عہدے پہ اپنے انتخاب سے اپنی صلاحیتوں کا اظہار کر دیا ہے۔


ڈاکٹر صاحب کی اس نئی ذمہ داری پہ جہاں ان سے بہت سی توقعات ہیں کہ وہ صوبے بھر میں جماعت کو مزید فعال کریں گے ،اکابر اور اربابِ مدارس سے رابطے کر کے جماعتی قوت اور طاقت میں مزید اضافے کی کوشش کریں گے وہاں ان کے اپنے حلقے کے حوالے سے چند خدشات بھی ہیں کہ وہ اپنی مصروفیات کی وجہ سے پہلے بھی وقت کم دے پاتے تھے اب اس حوالے سے مزید تشویشناک صورتحال سامنے آسکتی ہے کہ قاری صاحب اپنے حلقے کے لیے بہت کم وقت دے پائیں گے،مقامی جماعت تو پہلے بھی شاکی ہے کہ قاری صاحب حقہ کیلئے کوئی دن مخصوص کریں اور کارکنوں سے رابطے میں رہیں،ہم امید کرتے ہیں کہ قاری صاحب پہلے کی نسبت اب زیادہ وقت دیں گے اس کی وجہ یہ ہے کہ اب ذمہ داری پہلے کی نسبت اور بڑھ گئی ہے اور اس ذمہ داری کی حیثیت سے ان کی اپنی حیثیت اپنے حلقے میں مستحکم ہونی ضروری ہے۔


ہم امید کرتے ہیں کہ قاری صاحب اپنی ذمہ داریوں کا بخوبی احساس کریں گے اور اس وقت چھچھ کے تمام علمائے کرام کی جو حمایت انہیں حاصل ہے اس سے خاطر خواہ نتائج حاصل کریں گے ،اب مقامی جماعت کا بھی امتحان ہے کہ وہ قاری صاحب سے کتنا وقت لے پاتی ہے۔قاری صاحب کے قائد پنجاب کے انتخاب پر چھچھ کے دونوں بڑے اداروں (جامعہ قاسمیہ اہلسنت والجماعت اور جامعہ عربیہ اشاعت القرآن)میں خوشی کی لہر ابھی تک محسوس کا جا رہی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :