ریاست اور آئین

پیر 30 جون 2014

Imran Wasim

عمران وسیم

جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے بارہ اکتوبر 1999 سے اگست 2008 تک مملکت خداد پاکستان پربلا شرکت حکمرانی کی،فروری 2008 کے عام انتخابات کے نتیجہ میں ملک جمہوری حکومت کی تشکیل ہوئی تو حکمران اور اپوزیشن جماعتوں کے جانب سے مواخذہ کے خوف سے پرویزمشرف نے صدر پاکستان کے عہدہ سے استعفی ٰ دینے سے قبل سے قوم خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے لیے سر انجام دی خدمات کا تذکرہ کیا ،خطاب کے آخر میں سابق صدر پرویز مشرف کا کہنا تھا کہ پاکستان کی سر بلندی کے لیے خدمات سر انجام دینے کاجو صلہ انھیں دیا جا رہا اس کے بعد پاکستان کا اللہ ہی حافظ ہے ،پرویز مشرف نے اپنے دور اقتدار میں پاکستان کی سر بلندی ،عوام کی خوشحالی ،بے روزگاری و لاقانونیت کے خاتمہ ،قوم کو بنیادی حقوق کی فراہمی کے لیے اقدامات اٹھائے یا نہیں ،اس بحث میں جائے بغیر ماضی کے اس حاکم کو آج آئین شکنی کے مقدمہ آرٹیکل6کے تحت ٹرائل کا سامنا ہے ،جس میں پرویز مشرف پر فرد جرم عائد کی جا چکی ہے ،خصوصی عدالت میں شکایت کنندہ پر جرح مکمل ہونے کے بعد گواہاں کے بیان ریکارڈ ہونے اور ان پر جرح کرنے کا مرحلہ قریب آرہا ہے ، آئین شکنی کا جرم ثابت ہونے پر ملزم کو عمر قید یا سزائے موت تک ہو سکتی ہے ، جرم ثابت ہونے پرخصوصی عدالت آئین شکنی کے مقدمہ میں سابق صدر کے لیے عمر قید یا سزائے موت میں سے کیا سزا تجویز کرتی ہے، قطع نظر اس بات کے ملک میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری،بد عنوانی ،افراتفری ،بے سکونی کے سبب پرویز مشرف کے دور کو آج کی جمہوری حکومتوں سے بہتر گر دانتے ہیں ، تعلیم کی کمی اور آئین پاکستان کی دفعات سے لاعلمی کی بنیاد پر پاکستان کے عوام سابق صدر کے خلاف عدالتی کاروائی کو سیاسی انتقام قرار دیتے ہیں ۔

(جاری ہے)


بات کو آگے بڑھانے سے پہلے ضروری ہے کہ کسی بھی ملک کے لیے آئین کتنا ضروری ،کتنا اہمیت کا حامل اور کیا حیثیت رکھتا ہے اس کی وضاحت کرنا لازمی ہے ،آئین کو سادہ الفاظ میں دستور بھی کہا جاتا ہے ،کسی بھی ملک کے لیے دستور کی اہمیت ایسے ہی ہوتی ہے جیسے انسانی جسم کے لیے روح کی ،دستور جو عوام کی خواہشات اور ضروریات کو مد نظر رکھ کر تشکیل پا تاہے ،کسی بھی ملک کے دستور میں یہ اصول طے کر لیے جاتے ہیں کہ ملک میں کس طرز کا نظام حکومت ہو گا ،حکومتوں کی تشکیل کیسے ہو گی ،وفاقی اور صوبائی سطح پر اختیارات کی تقسیم کا کیا فارمولا ہو گا ،ریاست میں عوام کے بنیادی حقوق اور فرائض کیا ہونگے ،وفاق اور صوبہ کی سطح پراعلی ٰ ریاستی عہدوں پر فائز شخصیات اپنے اختیارات کی انجام دہی کس طرح کریں گے ،اور دستور تمام سویلین اور غیر سویلین اداروں کی حدود قیود کا تعین کرکے یہ بات بھی واضح طور پر لکھ دی جاتی ہے کہ ریاست کا ہر شہری ریاست کے لیے تشکیل کیے دستور کا وفا دار رہے گا اور جو شہری خواہ وہ حکمران ہی کیوں نہ ہودستور کا وفادار نہ کرنے کے جرم میں قانونی کاروائی کا سامنا کرنا پڑے گا ۔

،پاکستان کے آئین / دستور کے تحت ملک میں وفاقی پارلیمانی طرز حکومت رائج ہے ،آئین کے آرٹیکل 5 کے مطابق ملک کا ہر شہری 1973 کے دستور کی ایک ایک دفعہ اور شو کا وفا دار ہو گا ،ایسا نہ کرنے کی صورت میں قانون اپنا راستہ اختیار کریگا،پرویز مشرف نے تین نومبر2007 آئین ( دستور ) کو معطل کیا جو کہ بظاہرآئین کی منشا کے خلاف اور آرٹیکل 5 کے تحت دستور سے بے وفائی کرنے کے زمرے میںآ تا ہے ،معاملہ سپریم کورٹ میں چیلنج ہوا تو عدالت نے اس اقدام کو غیر آئینی قرار دیا ،عدالتی فیصلہ کے نتیجہ میں ماضی کے حکمران پرویز مشرف عدالتی کاروائی کا سامنا کر رہا ہے ۔


پرویز مشرف کے خلاف عدالتی کاروائی کو ایک طرف رکھ کراگر یہ سوال اٹھایا جائے کیا سابق فوجی سر براہ کے خلاف آئین شکنی کی کاروائی کرنے والے سیاسی قوتیں آئین کی تمام دفعات سے وفاداری کا دم بھر رہی ہے ؟؟؟ کہیں ایسا تو نہیں تو دوسروں کو آئین آئین کا درس دینے والی سیاسی حکومتوں یا سیاسی قوتوں آئین کی بیشتر دفعات کی عمل داری کو یقینی بنانے کی بجائے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرکے تو نہیں بیٹھی ،اگر ایسا ہے تو کیاآئین کے متعدد آرٹیکل کی خلاف ورزی یا عمل داری کو یقینی نہ بنانے پر آرٹیکل چھ کی کاروائی بنتی ہے ؟؟؟ان سوالوں کا جواب تلاش کرنے کے آئین پاکستان کا جائزہ لینا ضرور ی ہے ،پاکستان کے آئین ( دستور ) کا آرٹیکل واضع الفاظ میں یہ بیان کرتا ہے کہ کسی کو کسی کے معاشی استحصال کی اجازت نہیں ہو گی ،ہر شخص ہو اسکی صلاحیت اور کام کے مطابق معاوضہ دیا جائے لیکن عملی طور پر پورے ملک میں آئین کی اس شرط پر عمل ہو تا نظر نہیں آتا ،حکومت کی جانب سے اجرت کی کم سے کم شرح مقرر کرنے کے باوجود طا قتور طبقہ عوام کی اکثریت کا معاشی طور پر استحصال کر رہا ہے ،پی ایچ ڈی ،ایم فل اور ماسٹرز کی ڈگریاں ہاتھوں میں لیے قوم کا مستقبل در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں ،بے روزگاری کے سبب لاکھوں کروڑوں کمانے والے نجی تعلیمی ادارے تنخواہ کے نام پر محض چند ہزار روپے معاوضہ دیکر پڑے لکھے طبقہ کا استحصال کر رہے ہیں ،آئین کا آرٹیکل 9 لوگوں کی جان و مال کے تحفظ سے متعلق ہے ،جس کے مطابق ریاست کے ہر فرد کی جان اور اس کے مال کے حفاظت کے ذمہ داری حکومت کی ذمہ داری ہو گی ،کیا عملی طور پر ایسا ہو رہا ہے ،کیا کراچی ،کوہٹہ ، وزیرستا ن سمیت دیگر علاقوں میں عوام کے جان و مال کے تحفظ کی آئینی شرط کو پورا کیا جا رہا ہے ،کیا آئین نو کی موجودگی میں سانحہ ماڈل ٹاون،سانحہ تھر ،سانحہ ہزارہ ٹاون کا کوئی جواز بنتا ہے ، پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 11 غلامی ،اور چائلڈ لیبر کے خاتمہ کی یقین دہانی کرا تا ہے لیکن حقیقت اس کے بر عکس ہے،آئین کے آرٹیکل میں کہا گیا ہے ہر فرد کو اپنے مذہب کی پیرویی کرنے کی مکمل مذہبی آزادی ہو گی،کیا آئین کے بیان کے باوجود اقلیتوں کی عبادت گاہوں کا تحفظ کیا جا رہا ہے ،آئین کی اس شرط پر عمل ہو رہا ہو تا تو شائد سپریم کورٹ کو اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ سے متعلق فیصلہ دینے کی ضرورت پیش نہ آتی ،آئین کا آرٹیکل 25 کہتا ہے کہ ریاست کے تمام شہری قانون کی نظر میں برابر ہونگے ،عملی طور آئین کی یہ شرط بھی محض آئینی شرط تک ہی محدود رکھائی دیتی ہے ،ملک میں امیر اور غریب کے خلاف قانون کیسے ایکشن میں آتا ہو وہ کسی بھی ڈکا چھپا نہیں ہے ،آئین کے آرٹیکل 140 اے مطابق تمام صوبوں میں لوکل حکومتوں کے قیام کے بلدیاتی انتخابات کرائیں جائینگے ،کیا تمام صوبوں نے آئین کی لوکل باڈیز الیکشن کی شرط کو پورا کیا ؟؟؟ یقینا نہیں ،فروری 2008 سے قائم ہوئی صوبائی حکومتیں اٹھارہویں ترمیم کے پاس ہو جانے کے بعد سے آئینی دفعہ کی عمل داری سے سال 2010 سے رو گردانی کرتی چلی آرہی ہے ،بلوچستان میں گزشتہ سال لوکل باڈیز انتخابات ہوئے تو وہ سپریم کورٹ کے احکامات کا نتیجہ ہے ،سیاسی حکومتیں ماضی میں بھی بلدیاتی انتخابات سے دامن چھڑاتی رہی ہیں ،عجیب اتفاق ہیں کہ ملکی تاریخ میں جہوریت ہر شب خون مارنے والی غیر جمہوری قوتوں نے بلدیاتی انتخابات کراکے عوام کو اپنے لو کل نمائندے منتخب کرنے کا موقع فراہم کیا ،آئین کو آرٹیکل 212 چیف الیکشن کمشنر کی تقرری سے متعلق ہے ،افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ فخر الدین جی ابراہیم کی جانب سے یہ عہدہ چھوڑے ایک سال ہونے کو ہے لیکن وفاقی حکومت اپنی اس ذمہ داری کو پورا کرنے سے گریزا دکھائی دیتی ہے ، صرف یہی نہیں آئین کے کئی مزید آرٹیکل اور دفعات ایسی ہے جن کی عمل داری کو وفاقی اور صوبائی حکومت کی جانب سے یقینی نہیں بنایا جا رہا ہے، بحث کو مزید بوریت سے بچانے کے لیے بحث کے نتیجہ کی طرف آئیں تو آئین کے چند آرٹیکل کو معطل کرنے کے جرم میں پرویز مشرف کو آئین شکنی کے مقدمہ کا سامنا ہے تو سیاسی حکومتیں جو ما ضی سے آئین کے بیشتر آرٹیکل اور دفعات کی عمل داری پر کان نہیں دھر رہی ہے جب کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں پر یہ آئینی ذمہ داری ہے کہ دستور پاکستان کی ایک ایک شرط کو من و عن تسلیم کرکے اس کی عمل داری کو یقینی بنا یا جائے ،تو ایسی صور میں دستور پر من و عن عمل نہ کرنے کی صورت میں کیا سیاسی حکومتوں کے خلاف آرٹیکل 6 کا کیس نہیں بنتا ؟؟؟دانشوروں اور غیر جانبدار حلقوں کی رائے ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتں دستور پاکستان کی ایک ایک شرط اور شق پر عمل در آمد کو یقینی بنانے کے تہیہ کر لیں اور خلوص نیت سے آئینی راستہ کو اختیار کرلیں تو نہ صرف ملک میں جمہوریت کو تقویت ملے گی ،بلکہ کے دیرینہ مسائل بھی ایک ایک کرکے ختم ہو تے جائینگے ،صرف یہی نہیں آئین کی مکمل پاسداری کو یقینی بنانے کی صورت میں انقلاب کے دعوے دار سیاسی اور غیر سیاسی بونے بھی اپنی موت خود مر جائینگے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :