ماہِ رمضان میگاکلیئرنس سیل اورہمارا مہنگائی پیکج

پیر 30 جون 2014

Muhammad Akram Awan

محمد اکرم اعوان

ہر دن،ہر مہینہ اللہ رب العزت کی طرف سے ہے۔ جس طرح اللہ عزوجل نے دن اور رات کے باقی حصوں پرتہجدکے وقت کو فضیلت دی اورجمعةالمبارک کو باقی دنوں پربرتری عطاء فرمائی، اسی طرح اللہ پاک نے ماہِ رمضان کودیگر تمام مہینوں پربرتری اور فضیلت عطاء فرمائی۔ رمضان المبارک اُمت ِ مسلمہ پر اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا فضل اور احسان ہے کہ رمضان المبارک حصول ِ تقویٰ کابہترین وسیلہ ہے ۔

اس ماہِ مقدس میں قرآن پاک نازل ہوااور اس نسبت نے رمضان المبارک کی عظمت کوچار چاند لگا دیئے۔
صحابی رسول ﷺحضرت سیدنا کعب الاحبار سے مروی ہے فرماتے ہیں"بروز ِ قیامت ایک منادی اس طرح ندا کرے گا۔ ہر بونے والے(یعنی عمل کرنے والے)کو اس کی کھیتی(یعنی عمل) کے برابر اجردیا جائے گا سوائے قرآن والوں(یعنی عالم قرآن) اور روزہ داروں کے کہ انہیں بے حد وحساب اجردیا جائے گا "( شعب الایمان، ج۳،ص۴۱۳،حدیث۳۹۲۸)
یہ بابرکت مہینہ بے پناہ رحمتوں،فضیلتوں اور سعادتوں کے ساتھ ساتھ انسان کی جسمانی اور روحانی تربیت کا بھی ذریعہ ہے۔

(جاری ہے)

رمضان المبارک جہاں انسان کے اندرایسی صفات اور اہلیت پیداکرتا ہے کہ انسان سال بھر بے شماربدنی بیماریوں، نفسانی خواہشات اور شیطانی خطرات سے محفوظ رہتا ہے وہیں اس ماہ ِ مقدس میں دن میں روزہ،رات کو تراویح، تلاوت قرآن پاک اور قیام الیل کے ذریعہء سے انسان میں صبروتحمل ،جذبہ خیر، ہمدردی، مساوات اور غریبوں کے دُکھ دردکا احساس پیدا ہوتا ۔

سارا سال متواتر گناہوں کے سبب انسان کی طرف سے اپنے رب ِ کریم کے ساتھ پیدا کی گئی دوری مٹ جاتی ہے اورماہ ِ رمضان میں رب ِ کریم سے گڑگڑا کربخشش طلب کرنے سے یہ فاصلے کم ہو جاتے ہیں حتی کہ انسان کا اپنے رب العزت کے ساتھ براہ راست رابطہ استوار ہوجاتا ہے۔
دُنیا بھر میں لوٹ سیل ،میگاکلیئرنس سیل کے نام پرسپیشل آفرز ،بچت سکیم اورمختلف پیکجز متعارف کروائے جاتے ہیں۔

جس کی وجہ سال بھر کی ناکارہ اور فروخت نہ ہونے والی اشیاء سے دُکانیں اور سٹور بھرجاتے ہیں۔ان اشیاء کے بے کار پڑے رہنے سے جگہ، وقت،محنت اورپیسہ کا ضیاع ہوتاہے۔ ان ناکارہ اور فضول اشیاء کے بوجھ کو اُتارنے کے لئے سال میں ایک بار میگا سیل کے اعلانات کئے جاتے اور بڑے بڑے اشتہارات شہربھر میں لگائے جاتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس موقع سے فائدہ حاصل کرسکیں۔

اسی طرح سارا سال اللہ کی نا فرمانیوں، گناہوں اورناپسندیدہ اعمال سے دل سیاہ اوردماغ شیطان کی پناہ گاہیں بن جاتے ہیں۔جس کے سبب ہمارا سارا وجود ناکارہ ،ناپسندیدہ اور معاشرے میں بگاڑاور بدامنی کا سبب بن جاتا ہے۔ان گناہوں کا بوجھ کم کرنے کے لئے اللہ رب العالمین ماہ ِ رمضان میں میگا سیل لگاتا ہے۔اس ماہ ِبابرکت میں نوافل کا اجربڑھا کر فرائض اور فرائض کے اجروثواب میں کئی گنا اضافہ کرد یا جاتا ہے۔

بس یوں سمجھ لیں کہ بائی ون ،گیٹ ون فری (Buy One Get One Free) کی طرح ایک عمل کا اجر کئی گنا بڑھا دیا جاتا ہے۔اسی طرح ماضی میں کئے گئے گناہوں پر پچھتاوا،ندامت اوراپنے رب سے مغفرت طلب کرنے پر ہمارا وجود گناہوں سے پاک ہو جاتا ہے بلکہ بعض اوقات تواللہ جل شانہ اپنی صفت ِکریمی کی برکت ہمارے گناہوں کو نیکیوں میں تبدیل کردیتا ہے۔ اس طرح خوش نصیب انسان اس ماہِ مقدس کی میگاکلیئرنس سیل سے خوب فائدہ اُٹھاتے ہوئے گناہوں سے بالکل پاک اور صاف ہوجاتے ہیں۔


حضرت ابن ِ مسعود سے ایک روایت ہے کہ رمضان کی ہررات میں ایک منادی پکارتا ہے کہ اے خیر کے تلاش کرنے والے متوجہ ہواور آگے بڑھ اوراے برائی کے طلب گاربس کر اور آنکھیں کھول۔ اس کے بعد وہ فرشتہ کہتا ہے، کوئی مغفرت کا چاہنے والا ہے کہ اس کی مغفرت کی جائے، کوئی توبہ کرنے والا ہے کہ اس کی توبہ قبول کی جائے،کوئی دعا کرنے والا ہے کہ اس کی دعا قبول کی جائے، کوئی مانگنے والا ہے کہ اس کا سوال پورا کیا جائے۔


جس طرح اللہ پاک نے دنوں کو باقی دنوں پر اور بعض مہینوں کو باقی مہینوں پر فضیلت عطاء فرمائی ،اسی طرح انسان کے دل ودماغ کو اللہ رب العزت نے پورے انسانی وجودپر فضلیت وبرتری عطاء فرمائی۔ اللہ رب العالمین نے انسانیت کی رشدوہدایت کے لئے کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزار رسول اورانبیاء علیہ صلوة والسلام مبعوث فرمائے ۔ کسی نبی علیہ السلام نے اپنی قوم کو ترک ِ دنیا کی دعوت وتبلیغ نہیں فرمائی بلکہ انسانیت کے دل ودماغ پر محنت فرمائی۔

یعنی انسانی سوچ وفکر کو دنیا کی بجائے اللہ اور آخرت کی طرف پلٹنے کی محنت فرمائی۔کہ ہرانسان کی سوچ اورفکر جب آخرت پر مرکوز ہوگی تودنیا کی فکر اور طلب خود بخودراہ ِ راست پر آجائے گی۔یہی وجہ ہے کہ کسی نبی علیہ السلام نے کاروبارِ دنیاسے منع نہیں فرمایا۔ ہمارے پیارے نبی آخرالزماں حضرت محمدﷺ نے بھی جہاں تما م معاملات ِزندگی کی مکمل راہنمائی فرمائی، وہیں خودتجارت اور دیگر امورِ دنیا انجام فرماکرقیامت تک آنے والے ہرانسان کے لئے عملی نمونہ عطاء فرمادیا۔


حضرت انس بن مالک روایت کرتے ہیں آنحضرت ﷺ نے فرمایاحلال روزی کمانا ہرمسلمان پر واجب ہے۔حضرت عبداللہ بن مسعودروایت کرتے ہیںآ نحضرتﷺ نے فرمایا ، حلال روزی کمانے کے لئے محنت کرنا نماز کے بعد سب سے بڑا فریضہ ہے۔
ہماری حکومتیں ہر باررمضان المبارک میں ریلیف پیکج اورسبسڈی کے نام سے اشیاء ضرورت سستے داموں مہیا کرنے کے اعلانات کرتی ہیں۔

لیکن ہرسال انتظامیہ اور آڑھتیوں کی ملی بھگت سے ریلیف پیکچ ، مہنگائی پیکچ میں تبدل کردیاجاتا ہے۔دیکھنے میں آیاہے کہ ہرسال سب سے زیادہ مہنگائی رمضان کے مہینہ میں کی جاتی ہے۔ کہ ماہِ رمضان شروع ہونے سے قبل ہی سبزیاں، پھل اور متعدد اشیاء گوداموں میں ذخیرہ کردی جاتیں ہیں۔ جس سے مارکیٹ میں اس مصنوعی قلت کے سبب بحران کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے اور لوگ ضروریات زندگی مہنگے داموں خریدنے پر مجبور ہوجاتے۔


حضرت عبداللہسے ارشاد نبوی ﷺمروی ہے (جس کامفہوم کچھ یوں ہے)کہ جس تاجرنے ایک رات بھی یہ تمنا کی کہ مال مہنگا ہوجائے اور اس خیال سے اسے روک رکھا تو اللہ تعالیٰ اس کے چالیس سال تک کے نیک اعمال ضائع کردے گا۔
ایک اخباری اطلاع کے مطابق اس سال بھی( صرف پنجاب میں) آڑھتیوں نے 20کروڑ سے زیادہ مالیت کی سبزیاں ادردیگر اشیاء کو ذخیرہ کرکے گوداموں میں رکھ دیا ہے تاکہ رمضان المبارک کے آغازمیں ہی قیمتوں میں ازخود اضافہ کردیاجائے۔

حقیقت یہی ہے کہ رحم ، ہمدردی، شرافت، اخلاقی ذمہ داری کاہمارے کسی شعبہ میں نام ونشا ن تک باقی نہیں رہا۔ ارشاد ِ نبوی ﷺ کامفہوم ہے۔ جواپنے جسم کی پرورش حرام مال سے کرتا ہے۔ یعنی ناجائز آمدنی کے ذریعے وہ ضرور سزا پائے گا۔ رمضان المبارک بے شک کمائی کا مہینہ ہے مگر نیکیوں اور ثواب کی کمائی کا۔ہم نے اس ماہِ مبارک کوبھی دنیاوی اور عارضی کمائی کامہینہ بنا لیا ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ یہی تو ایک مہینہ ہے سال بھر کی کمائی کا۔ روزہ اور عبادات اپنی جگہ ،کاروبار اپنی جگہ، ہم نے جائز یا ناجائز کے بارے میں کبھی نہیں سوچا۔ہم سمجھتے ہیں کہ آدمی کاروبار کرتا ہے تو اس کا مقصدصرف اور صرف منافع حاصل کرنا ہے۔
حضرت عباد  کہتے ہیں (جس کامفہوم ہے)کہ ایک مرتبہ حضورنبی کریم ﷺنے رمضان المبارک کے قریب ارشادفرمایا!کہ رمضان کا مہینہ قریب آگیا ہے۔

جو بڑی برکت والا ہے۔ حق تعالیٰ شانہ اس میں تمھاری طرف متوجہ ہوتے ہیں اور اپنی رحمت ِ خاصہ نازل فرماتے ہیں۔،خطاؤں کو معاف فرماتے ہیں،دعاکوقبول کرتے ہیں، تمھارے تنافس (باہمی مقابلہ)کو دیکھتے ہیں اور ملائکہ پر فخرکرتے ہیں۔ پس اللہ کو اپنی نیکی دکھاؤ۔بدنصیب ہے وہ شخص جو اس مہینہ میں بھی اللہ کی رحمت سے محروم رہ جائے۔ (طبرانی)
ہم سب اپنے اپنے اعمال اور کردار کے جوابدہ ہیں۔

ہم میں سے ہرشخص حکمرانوں کوظالم، سفاک کہتاہے۔ لیکن ہم ذخیرہ اندوز ، ناجائز منافع خور، کھانے پینے کی عام اشیاء میں ملاوٹ کرنے والے دھوکہ بازکو سماج دُشمن کیوں نہیں سمجھتے ہیں؟ بلکہ ایسے طریقہ سے مال کما کردولت مندبننے والے سے دوستی اور رشتہ داری پرفخر محسوس کرتے ہیں۔بے شک ہم سب اس دھوکے اور فریب کے لامتناہی سلسلہ کا حصہ ہیں۔
ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے:اے مومنو! تم سب مل کر توبہ کرو، توقع ہے کہ تم فلاح پا جاو گے( النور:۳۱)۔

ہم نے سارا سال اللہ کے احکامات سے انحراف کیا،ساری زندگی اُس کی نافرمانی اورگناہ کی دلدل میں گزاری،ہم نے سود سے کاروبار کرکے اللہ اور اُس کے سچے اور پیارے رسول ﷺ کے خلاف اعلان جنگ کئے رکھا۔ اللہ نے ہمیں ماہِ رمضان عطا کیا ہے۔ جس میں اللہ رب العزت کی طرف سے عام معافی کا اعلان ہے۔ آؤ مل کر اللہ کے سامنے ہتھیار ڈال دیں اورسچے دل سے اللہ پاک جو غفورالرحیم ہے سے اپنے گناہوں کی مغفرت طلب کریں کہ یہ موقع اور مہینہ زندگی میں پھر نصیب ہو نہ ہو۔

ہرنمازکے بعداور سحروافطار کے وقت اپنے اور اپنے والدین، بہن، بھائیوں،بیوی ، بچوں،دوست احباب، عزیزواقارب کی صحت و سلامتی ایمان کی دعا کرتے رہیں، اپنے پیارے وطن پاکستان کی سلامتی،اس میں امن وامان کی بحالی اور ارض ِ پاک کی ترقی اور خوشحالی کے لئے نیک خواہشات اور دعاؤں کو اپنے روزانہ کے معمولات کا جزولازم بنائیں۔میری طرف سے اُردو پوائنٹ کے قارئین کو رمضان کریم کی دلی مبارک ۔

اللہ پاک مجھے اور آپ سب کو مقبول اعمال کی توفیق عطا فرمائے ،اللہ رب العزت ہم سب پر رحم فرمائے اورہم سب کواس ماہِ مقدس وبابرکت کا صحیح معنوں میں اکرام واحترام کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ نیکیاں سمیٹنے کی توفیق عطافرمائے۔
اے رب العزت ہمارے گناہوں کو معاف فرما ، ہمارے حال ِ زار پر رحم فرمااور ہمارے ملک پاکستان سمیت پُورے عالمِ اسلام میں امن سکون عطاء فرما۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :