خاموش ہلاکتیں یا قتل ،،، ذمہ دار کون؟

ہفتہ 28 جون 2014

Dr Awais Farooqi

ڈاکٹر اویس فاروقی

پاکستان یوں تو مسائل کی آماجگاہ بن چکاہے اس پر طرفہ تماشہ دیکھں وہ ولگ جن کو ان مسائل کو حل کرنا ہے انہیں اس بات کا ادراک ہی نہیں عوام کے ووٹوں سے منتخب شدہ نمائندوں سے کوئی یہ پوچھنے ولا نہیں کہ حضور آپ نے ووٹ مانگتے وقت ہم سے ہمارے مسائل کے حل کا وعدہ کیا تھا مگر آپ تو ”اسمبلی“ کے ہی ہو کر رہ گئے ہونا تو یہ چاہے کہ اگر عوامی نمانئدے عوام کے مسائل حل نہ کریں اور جو وعدے کیے انہیں پورا نہ کریں تو ان کے خلاف الیکشن میں ان کی ناہلی کی درخواست دائر کر دینی چاہے کیونکہ پہلا حق ووٹر کا ہے کہ وہ اپنے ووٹ کا حساب مانگے۔

ملک بھر میں بعض اسیے معمالات یا مسائل ہین جن کی بنا پر کئی زندگیاں تلف ہو چکی ہیں مگر ان کے سد باب کے لئے کوئی کوشش کہیں نظر نہیں آتی شہر ہوں یا دیہات شادی بیاہ، بیٹے کی پیدائش اور انتخابات میں جیتنے کے بعد بے تحاشا ہوئی فائرنگ کی جاتی ہے جس کے نتیجے میں ہلاکتیں بھی ہوتیں ہیں مگر ایسی ہلاکتوں کو ”اتفاقی حادثے“ کی قبر میں دفنا دیا جاتا ہے حالانکہ ناحق قتل پر قاتل کو سزا ہونی چاہیے ملک کا کون سا کونا یا شہر ایسا ہے جہاں ہوئی فائرنگ نہ ہوتی ہو اوراس کے نتیجے میں ہلاکتیں یا زخمی حالانکہ قانون موجود ہے مگر اس کا حال بھی دیگر قوانین جیسا ہی ہے۔

(جاری ہے)

حال ہی میں وی او ائے میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں میں بتایا گیا ہے کہ بعض صوبوں خصوصاً کے پی کے اور بلوچستان میں شادی کے علاوہ بچے کی پیدائش، خاص طور سے لڑکے کی پیدائش کے موقع پر ہوائی فائرنگ کرنا سالوں پرانی روایت ہے۔ بعض قبائل فخریہ طور پر اس روایت کو زندہ رکھنے کے حق میں ہیں۔حالیہ برسوں کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ 23 اکتوبر1986ء کو بھی پشاور میں ایسا ہی ایک حادثہ پیش آ چکا ہے، جس کے بارے میں خدشات ظاہر کئے جا رہے تھے کہ طیارہ شادی کی خوشی میں ہونے والی فائرنگ میں گھر گیا تھا۔

پولیس کے مطابق حادثے کے وقت طیارہ لینڈنگ کے لئے نیچے آ رہا تھا اور اس میں چند ہی لمحوں کی دیر تھی کہ نامعلوم سمت سے آنے والی گولیاں طیارے میں پیوست ہوگئیں اور طیارہ رن وے سے پہلے ہی حادثے سے دوچار ہوگیا۔طیارہ لاہور سے پشاور آرہا تھا اور اس میں 49 افراد سوار تھے جن میں سے 13 افراد اندھا دھند فائرنگ کے سبب موت کی آغوش میں جا سوئے۔پولیس نے اسی رات شک کی بنیاد پر فائرنگ کرنے والے سات افراد کو حراست میں لیکر تفتیش شروع کردی۔

پولیس اہلکاروں کی حد تک یہ بات یقینی سمجھی گئی کہ طیارے پر زمین سے فائرنگ کی گئی۔۔۔لیکن، تخریب کاری کی غرض سے نہیں بلکہ شادی کی خوشی میں۔صوبہ خیبرپختونخواہ اور بلوچستان میں شادی کے علاوہ بچے کی پیدائش، خاص طور سے لڑکے کی پیدائش کے موقع پر ہوائی فائرنگ کرنا سالوں پرانی روایت ہے۔ بعض قبائل فخریہ طور پر اس روایت کو زندہ رکھنے کے حق میں ہیں جس کی وجہ سے یہ نا تو اسے معیوب سمجھا جاتا ہے اور نہ ہی اسے کوئی ترک کرنے کا خواہش مند ہے ،سونے پہ سہاگا کے مصداق خیبرپختونخواہ، بلوچستان، قبائلی علاقہ جات اور وزیرستان کی تمام ایجنسیوں میں ناصرف ہتھیاروں کی کھلے عام نمائش اور ان کا استعمال عام ہے بلکہ یہاں ہتھیاروں کو مردوں کا زیور سمجھا جاتا ہے۔

صوبے کا ’درہ خیبر‘یا ’باڑہ‘ اور چند دوسرے علاقے تو ایسے ہیں جہاں گھر گھر جدید سے جدید ہتھیار بنائے اور بیچے جاتے ہیں۔ پستول، ریوالور، ڈبل بیرل، سنگل بیرل، بلیٹس اور دیگر ملکی و غیر ملکی خطرناک اور جدید ترین ہتھیاروں کا ’مقامی ورڑن‘۔۔۔غرض کہ سب کچھ یہاں دستیاب ہے۔ مردوں کے ساتھ ساتھ عورتیں اور بچے بھی اس کام میں ہاتھ بٹاتے ہیں۔

ایسے میں بچوں کو کم عمری سے ہی ان کا استعمال آجاتا ہے۔ نتیجے کے طور پر ان کے دل سے خطرناک ہتھیاروں کا خوف نکل جاتا ہے اور یوں خوشی کے مواقع پر ان سے ہونے والی فائرنگ کی جان لیوا روایت نسل در نسل منتقل ہوتی چلی آ رہی ہے۔یہاں حالات یہ ہیں کہ عام سبزیوں کی طرح انہیں ٹوکریوں میں دکانوں پر سجاسجا کر رکھا جاتا ہے۔ نہ کسی کو کھلے عام بیچنے پر کوئی خوف ہے نہ خریدار ہی شرماتا ہے۔

ناجائز اور غیر قانونی ہتھیاروں کے اس وسیع کاروبار پر ملکی اور غیر ملکی ٹی وی چینلز اب تک بے شمار دستاویزی فلمیں پیش کرچکے ہیں۔اور اب تو بالائی صوبوں سے نکل کر یہ وبادیگر شہروں تک بھی پہنچ چکی ہے۔ یہاں رمضان اور عیدین کا چاند دیکھ کر، نئے سال کی خوشی میں اور کبھی کبھی ’خوامخواہ‘ بھی ہوائی فائرنگ کے واقعات معمول بنتے جا رہے ہیں۔

یہ رپورٹ اپنی جگہ ہمیں جھنجھوڑنے کے لئے کافی ہے اس کے علاوہ پاکستان کے دیگر شہروں اور دیہاتوں میں بھی اس معاملے میں کچھ ایسی ہی صورت حال ہے ، ہوائی فائرنگ سے ہونے والے نقصانات کا اگر کہیں سے ریکارڈ دستیاب ہو جائے تو اس سے ہونے والی ”خاموش“ ہلاکتوں کی تعداد اچھی خاصی ہو سکتی ہے ۔ ہوائی فائرنگ سے ہونے والی ہلاکتوں پر پولیس بھی کوئی خاص تحقیق نہیں کرتی بلکہ اکثر اوقات ایسے کیس د با دیے جاتے ہیں۔

یہ جو ہم اخباروں میں پڑھتے ہیں کہ کہیں سے نہ معلوم گولی سے فلاں زخمی یا بعد ازاں ہلاک ہو گیا یہ نہ معلوم گولیاں شوقیہ ہوائی فائرنگ کرنے والے ان افراد کی ہوتی ہیں جو محلے یا علاقے میں اپنی دھاک بٹھانا چاہتے ہیں، جن سے اب تک کئی قیمتی جانیں ، جو کسی کا سہاگ کسی کا سہارے اور مستقبل تھے اجڑ چکی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے حکومت اپنے شہریوں کو ”خاموش اتفاقی“ اموات(جو ہے تو قتل ہی کی ایک شکل) سے بچانے کے لئے ایسے اقدامات اٹھائے کہ ہوائی فائرنگ کے نتیجے میں کوئی ہلاکت نہ ہو پولیس کو اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرنا چاہے کہ وہ اپنے علاقے میں ایسے نظر رکھے حکومت اور پولیس چاہے تو اس اس پر قابو پایا جاسکتا ہے۔

۔ ویسے بھی ریاست کے اداروں کے ہوتے ہوئے کسی بھی فرد کو اسلحہ رکھنے کی اجازت نہیں ہونی چاہے بڑھتے ہوئے جرائم کی ایک وجہ اسلحے کا بلا روک ٹوک استعمال اور آسان حصول ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :