قادری کا رائٹ ٹریک

ہفتہ 28 جون 2014

Nabi Baig Younas

نبی بیگ یونس

میں حسب معمول راولپنڈی کینٹ کے علاقے میں واقع ضیاء پارک صبح کی ایکسرسائزکیلئے پہنچا، دوڑنا شروع کیا تو دیکھا کہ ایک نوجوان ٹریک پر الٹے سائڈ پر رننگ کررہا تھا، پہلے چکر میں اُس سے سامنا ہوا تو میں نے چاہتے ہوئے بھی کچھ نہیں کہا، دوسرے چکر میں مجھ سے رہا نہ گیا اور جونہی ہم دوڑتے ہوئے ایک دوسرے کے سامنے آئے تو میں نے رُک کر کہا:
Excuse me! Brother you are running on the wrong track, this track is from right to left۔

بھائی جان میں بارہ سال سے اس پارک میں آرہا ہوں اور ایسے ہی ٹریک پر دوڑتا ہوں، نوجوان مسکراتے ہوئے بولا۔ اِس کا مطلب آپ یہ غلطی طویل عرصے سے کررہے ہیں، آپ کو خود بھی محسوس کرنا چاہئے کہ سارے لوگ ٹریک پر دائیں سے بائیں چل رہے ہیں اور آپ واحد آدمی ہیں جو الٹا چل رہے ہیں ، یہ کہتے ہوئے میں نے اپنی بات ختم کردی۔

(جاری ہے)

نوجوان تھیک یو سر کہتے ہوئے پھر الٹے سائیڈ سے بھاگنے لگا۔

میں دو چکر لگا کر پارک کے ایک کونے میں ایکسرسائز میں مصروف ہوگیا اور دیکھا کہ موصوف نے تیسرا چکر بھی الٹے سائیڈ سے ہی لگایا۔ اُس نے نہ صرف مجھے بلکہ پارک میں واک کرنے کیلئے آنے والے تمام لوگوں کو بیوقوف سمجھا جو رائٹ ٹریک پر جارہے تھے۔
پارک سے نکلتے وقت میں نے انتظامیہ کے بندے کو بتایا کہ اگر کوئی ٹریک پر الٹے سائیڈ سے دوڑرہا ہو تو آپ اسکو کیوں نہیں سمجھاتے ہیں؟ وہ سمجھ گیا کہ میرا اشارہ کس کی طرف تھا اور کہا اچھا اس بندے کو ہم نے پہلے بھی سمجھایا لیکن باز نہیں آیا اب اِس کو کل سے پارک میں داخلے پر پابندی لگادیں گے۔

اگلے دن سے مجھے وہ نوجوان نہیں ملا، ہوسکتا ہے اُسکی ٹائمنگ مختلف ہو لیکن اِس نوجوان کی ضد اور ہٹ دھرمی ہم سب پاکستانیوں کے مائینڈ سیٹ کی عکاسی کرتا ہے۔ ہم سب یہی کہتے ہیں کہ ہم رائٹ ٹریک پر ہیں لیکن ہوتے نہیں۔ ہم خود کو رائٹ ٹریک اورہر دوسرے کو غلط ٹریک پر سمجھتے ہیں۔ اسی لئے شائد کوئی سونامی لانے، کوئی انقلاب لانے،کوئی نظام کو بدلنے، کوئی اسلام آباد کے ڈی چوک کو تحریری اسکوائر بنانے اور کوئی فوجی مارشل لاء کی باتیں کرتا ہے۔

طاہرالقادری صاحب جو کینیڈا کی شہریت رکھتے ہیں ، انہیں ہر سال پتہ نہیں کیا سوجتی ہے اور وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ پاکستان میں پورا نظام ہی غلط ہے اور وہ اس نظام کو ٹھیک کرنے کیلئے رائٹ ٹریک پر ہیں۔ لیکن اگر کوئی انکی زندگی اور طرز عمل کا غیر جانبدارانہ تجزیہ کرے تو وہ فتنہ پرست آدمی نظر آتے ہیں۔ گزشتہ سال جنوری میں انہوں نے چار روز تک اسلام آباد میں دھرنا دیا جو چودہ سے سترہ جنوری تک جاری رہا اور میں مکمل چار دن اُن کے دھرنے میں صحافتی فرائض انجام دیتا رہا، اِس دوران اُنکی گفتگو کا ہر لفظ تحریر کرتا رہا، انکی ہر بات پہلی بات سے بالکل برعکس ہوتی تھی۔

لوگ اب قادری صاحب کی طرف سے ڈی چوک میں رکھے گئے بلٹ پروف کنٹینر میں کی جانے والی تقریروں کو یقینا بھول چکے ہونگے لیکن میرے پاس اب بھی یہ تقاریر ریکارڈ میں ہیں۔ قادری صاحب نے چودہ جنوری کو دھرنے کے شرکاء سے پہلی تقریر انتہائی جارحانہ کی اور کہا کہ" یزیدیت کا تختہ اُلٹا کر اسلام آباد سے واپس لوٹیں گے، ہمارا لانگ مارچ غریب عوام کو انکا حق دلانے کیلئے ہے، سلطنت کے خاتمے تک لانگ مارچ جاری رکھوں گا ۔

۔۔۔ "پندرہ جنوری یعنی دھرنے کے دوسرے روز انہوں نے فرمایا کہ" کل آکر پھر بولوں گا اور اگلے دن کی نوبت نہیں آئے گی ، یہ معرکہ کربلا ہے، نیت کرلو، جس نے لوٹ کے جانا ہے رات کے اندھیرے میں جائے میں اکیلے لڑوں گا ۔۔۔۔" سولہ جنوی تیسرے دن کہا " آمریت کے بت کو پاش پاش کردوں گا۔۔۔۔" اُس کے بعد چوتھے روز کیا ہوا؟؟؟ وہی جو پوری قوم نے دیکھا اور جس سے طاہرالقادری سے توقع کی جارہی تھی۔

حکومت کا ایک وفد قمر زمان قائرہ کی قیادت میں آیا اور طاہرالقادری صاحب جو پہلے ہی وفد کا استقبال کرنے کیلئے بے تاب بیٹھے تھے اُٹھ کر فرداً فرداً وفد کے ارکان سے گلے ملتے رہے۔ ایک سادہ پیپر پر چند نکات رقم کئے گئے اور قادری صاحب چپ کر کے کنٹینر سے نکلے ، ایک گاڑی میں سوار ہوکر گھر چلے گئے۔ ان کے کارکن اسلام آباد کی سڑکوں کی خاک چھانتے رہے۔

جن لوگوں کو یزید کا لقب دیا اُن کے ساتھ ہی مذاکرات کئے اور ایک لالی پاپ بھی نہیں ملا۔ نہ یزیدیت کا تختہ اُلٹایا ، نہ غریبوں کو اُن کے حقوق دلائے، نہ ہی میدان کربلا میں اپنی جان دی اور نہ ہی آمریت کے بت کو پاش پاش کیا، بلکہ چپ کر راہ فرار اختیار کی۔ اُس کے کچھ عرصہ بعد واپس کینیڈا چلے گئے ۔ اِس مرتبہ وہ پھر بلند و بانگ دعوے کرتے ہوئے کینیڈا سے برطانیہ اور پھر برانیہ سے دبئی کے راستے پاکستان تشریف لائے۔

باتیں وہی پرانی تھیں، نظام بدلنے کی، حکومت کو گھر بھیجنے کی، انقلاب برپا کرنے کی وغیرہ وغیرہ ،جانا لاہور تھا لیکن فلائٹ اسلام آباد کی لی۔ انتظامیہ نے طیارے کو لاہور بھیجا توقادری صاحب نے طیارے سے اُترنے سے ہی انکار کردیا، پھر ہوا وہی چار گھنٹے کے بعد گورنر پنجا کے ہمراہ گھر تشریف لے گئے۔ لیکن گھر جانے سے قبل شہادت کے طلبگار قادری صاحب نے نہ صرف بلٹ پروف گاڑی کا تقاضا کیا بلکہ گورنر سے بھی التجا کی کہ وہ اُن کے ساتھ گاڑی میں بیٹھیں گے تاکہ اُن پر کوئی حملہ نہ ہو۔

ایف آئی اے نے اب طاہرالقادری کے بارے میں چھان بین شروع کردی اور الیکشن کمیشن نے بھی ان کے ظاہر کئے گئے مالی اثاثوں کی تفصلات جاری کیں جن میں کافی تضادپایا جارہا ہے ۔ طاہرالقادری کی پوری زندگی پر نظر ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ وہ کبھی بھی رائٹ ٹریک پر نہیں تھے اور نہ اب ہیں۔ انقلاب لانے والے نہ جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں ،نہ ڈرنے والے اور یزیدکے ساتھ مذاکرات کرنے والے ہوتے ہیں اور نہ ہی وہ بلٹ پروف گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں۔ ایسے لوگ خود اپنی زبان سے کہیں یا نہ کہیں لیکن پوری دنیا کو پتہ چلتا ہے کہ وہ رائٹ ٹریک پرہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :