ماہ مبارک کی آمد

ہفتہ 28 جون 2014

Mian Ashfaq Anjum

میاں اشفاق انجم

دو دن بعد ہماری زندگیوں میں ایک دفعہ پھر نیکیوں کا موسم بہار یعنی رمضان المبارک رحمتوں کی بہار لئے آ رہا ہے جس کے متعلق نبی مہربانﷺ نے فرمایا لوگو! تم پر ایک عظیم مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے ، مبارک ہے، یہ مہینہ جس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار راتوں سے بہتر ہے۔الله تعالیٰ نے اس کے روزے کو فرض اور رات کے قیام کو نفل قرار دیا ہے جس نے رمضان میں نفلی کام کیا، گویا اس نے فرض ادا کیا جس نے ایک فرض ادا کیا اس نے 70فرض ادا کئے یہ صبر کا مہینہ ہے صبر کا جواب جنت ہے۔

رمضان غم خواری کا مہینہ ہے یہ وہ مہینہ ہے جس میں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے جس نے اس میں روزے دار کو افطار کرایا اس کے گناہوں کی مغفرت کر دی جائے گی۔
دوسری جگہ نبی مہربانﷺ نے فرمایا رمضان میں آدمی کے ہر عمل میں 10گنا سے 700گنا تک ثواب بڑھا دیا جاتا ہے۔

(جاری ہے)

الله تعالیٰ فرماتے ہیں روزہ میرے لئے ہے میں خود اس کی جزا دوں گا روزے دار کے لئے دو خوشیاں ہیں ایک خوشی روزے دار کو افطار کے وقت اور دوسری خوشی اپنے رب سے ملاقات کے وقت ملے گی۔

فرمایا گیا ہے جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو اسے چاہیے وہ بے ہودہ فحش باتیں نہ کرے، اگر کوئی دوسرا اس سے گالی گلوچ اور جھگڑا کرے روزہ دار کہہ دے میں روزے سے ہوں۔روزے کی فضیلت اہمیت درجات بتانے کے ساتھ ساتھ ذمہ داریوں کا احساس بھی دلایا گیا ہے۔
روزے کا مقصد آدمی کو اسی اطاعت کی تربیت دیتا ہے۔روزہ انسان کی فرماں برادریوں اور اطاعتوں کو ہر طرف سے سمیٹ کر ایک مرکزی اقتدار کی جانب پھیر دیتا ہے۔

اگر کسی آدمی نے احمقانہ طریقے سے روزہ رکھا جن چیزوں سے روزہ ٹوٹتا ہے ان سے پرہیز کرتا رہا اور باقی تمام افعال کا ارتقاب کئے چلا جاتا ہے جنہیں الله نے حرام کیا ہے تواس کے روزے کی مثال ایسے ہے جیسے ایک مردہ لاش کہ اس میں اعضا تو سب کے سب موجود ہوتے ہیں صورت انسانی بنتی ہے مگر جان نہیں ہوتی بے روح روزے کو کوئی روزہ نہیں کہہ سکتا۔نبی اکرمﷺ نے فرمایا جس نے جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہ چھوڑا تو خدا کو اس کی حاجت نہیں ہے کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔

حضور اکرمﷺ نے فرمایا : کتنے ہی روزے دار ایسے ہیں کہ روزے سے بھوک پیاس کے سوا ان کے پلے کچھ نہیں پڑتا۔کتنے ہی راتوں کو کھڑے رہنے والے ایسے ہیں جنہیں اس قیام سے رات جاگنے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔قرآن عظیم الشان میں فرمایا گیا”تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو“ یعنی روزے فرض کرنے کا اصل مقصد انسان کے اندر تقویٰ پیدا کرنا ہے۔

تقویٰ کے معنی خوف کے ہیں اس سے مراد خدا سے ڈرنا ہے اور اس کی نا فرمانی سے بچنا ہے۔حضرت ابی بن کعب نے بیان کیا ہے حضرت عمر نے ان سے پوچھا تقویٰ ککسے کہتے ہیں؟ انہوں نے عرض کیا کہ امیر المومنین آپ کو کسی ایسے راستے سے گزرنے کا اتفاق ہوا جس کے دونوں اطراف خاردار جھاڑیاں ہوں راستہ تنگ ہو حضرت عمر نے فرمایابارہا۔انہوں نے پوچھا تو ایسے موقع پر آپ کیا کرتے ہیں۔

حضرت عمر نے فرمایا میں دامن سمیٹ لیتا ہوں بچتا ہوا چلتا ہوں۔دامن کانٹوں میں نہ الجھ جائے۔حضرت ابی نے فرمایا بس اسی کا نام تقویٰ ہے۔
ماہ رمضان نزول قرآن کا مہینہ ہے۔قرآن کا مہینہ بھی کہا جاتا ہے جہاں فضائل آتے ہیں۔وہاں تنبیہہ بھی آتی ہے۔رمضان المبارک کو تربیت کا مہینہ بھی کہا جاتا ہے۔پورے سال کا ریفرشر کورس کیا جاتا ہے۔باجماعت نماز کا معمول راتوں کے قیام کا معمول ،صدقہ خیرات کی عادت سب کچھ سیکھنے کے ساتھ ساتھ صبر ،برداشت اور اپنے آپ کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔

بابرکت مہینہ میں جہاں آسمانوں سے رحمتیں برستی ہیں۔انسانوں کے دل کیوں پتھر ہو جاتے ہیں۔انسان انسان کے ہاتھوں کیوں لٹتا ہے کمر توڑمہنگائی کیوں جنم لیتی ہے۔ حالانکہ شیطان کو قید کر دیا جاتا ہے۔پھر ایسا کیوں ہوتا ہے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم رمضان کے حقیقی فلسفے کو سمجھنے سے محروم ہیں ۔رمضان رحمت ،مغفرت اور آگ سے نجات کے ساتھ ساتھ خود احتسابی کا مہینہ بھی ہے۔

تبدیلی کا مہینہ بھی ہے۔حقوق العباد کا مہینہ بھی ہے زکوٰة کا مہینہ بھی ہے۔ خیرات، صدقات کا مہینہ بھی ہے، صحابہ فرماتے ہیں رمضان کے مہینہ میں نبی مہربانﷺ کمر کس لیتے تھے رات کے قیام کو بڑھا دیتے ،تلاوت قرآن کو بڑھا دیتے، صدقات ،خیرات کو بڑھا دیتے ، سب کچھ الله کے نبیﷺ نے اپنی امت کے لئے کیا پھر میں اور آپ اس سے غافل کیوں ہیں۔کمی کہاں رہ گئی، یقینا کمی ہمارے اپنے اندر ہے ہمارے گھروں میں ہے۔

ہماری اولادوں میں ہے۔ہمارے چلنے پھرنے میں ہے، لین دین ،بول چال، کاروبار میں ہے۔کیسے رمضان المبارک کی فیوض برکات کو سمیٹا جا سکتا ہے۔اس کے لئے مجھے اور آپ کو کیا کرنا چاہیے؟اس کے لئے قرآن و سنت میں رہنمائی کر دی گئی ہے ۔باہمی رواداری، برداشت، ایثار کے ساتھ خود احتسابی کے عمل کو اپناتے ہوئے اسلامی فلاحی معاشرے کے قیام میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

جھوٹ سے توبہ، قرآن سے لگاؤ، قیام الیل کا معمول، حقوق العباد کا خیال دل وجان سے کرنا ہے۔دوسروں کی طرف دیکھنے کی بجائے اپنے آپ کو آئینہ کے سامنے رکھ کر سوچنا ہے آج پھر نیکیوں کا موسم بہار پوری رعنائیوں کے ساتھ سایہ فگن ہو رہا ہے۔آئیے مل کر رمضان المبارک کا استقبال کریں اور احکام خداوندی اور فرمان رسولﷺ پر عمل کرتے ہوئے رمضان کے روزے رکھنے اور پہلے ،دوسرے اور آخری عشرے کے ثمرات کو سمیٹنے کا عزم کریں اور طے کریں کوئی بدلے نہ بدلے میں بدلوں گا اپنے گھر میں تبدیلی لانے ، اولاد کو بدلنے کے لئے مسجد کو مرکز بناؤں گا۔الله مجھے اور آپ سب کو رمضان المبارک کی حقیقی برکات کو سمیٹنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :