صُبح ہونے کو ہے۔۔۔۔!

جمعرات 26 جون 2014

Imran Ahmed Rajput

عمران احمد راجپوت

جب کسی بھی ملک کی عوام ریاستوں سے ٹکرانے لگ جائے اور ریاستی حکمران آمریت کی چادر اوڑھ کر ظلم و بربریت کا بازار لگانا شروع کردیں توسمجھ لیں کہ کچھ ہونے والا ہے۔علامہ طاہر القادری پاکستان تشریف لے آئے۔ بوکھلاہٹ اور خوف کا شکار حکومت نے اپنی تمام ریاستی مشنری علامہ صاحب کی آمد کی نظر کردی ایسا لگ رہاتھا جیسے 12 اکتوبر 1999 کا ری پلے دکھایا جارہا ہے علامہ صاحب کے جہاز کو تقریباً چالیس منٹ تک بمعہ مسافروں کے آسمانی فضاؤں میں ہائی جیک کئے رکھااور بالآخر جنھیں اسلام آباد اترنا تھا وہ لاہور اتاردیئے گئے ۔

پنجاب کی سڑکوں پر ایک عجیب قسم کی سول وار کا سماں بندھا ہوا تھا ٹی وی چینل پر کبھی پنجاب پولیس کو عوامی لشکر کے پیچھے بھاگتے دکھایا گیا تو کبھی عوامی لشکر کو پنجاب پولیس کے پیچھے بھاگتے دکھایا گیا۔

(جاری ہے)

انہی نجی ٹی وی چینلز پر بیٹھے اینکر پرسنوں کی ایک فوج اپنے اپنے پالیسی سازوں کی کیسٹ اپنے دماغوں میں فِٹ کئے گھروں میں بیٹھی عوام کا دل بہلارہے تھی کوئی کہتا نظر آیا انقلاب فلاپ ہوگیا کوئی کہتا نظر آیا انقلاب ہائی جیک ہوگیا کوئی کہتا نظر آیا انقلاب ڈیل ہوگیا اور کوئی کہتا نظر آیا انقلاب شروع ہوگیا اب اصل میں انقلاب کو ہوا کیا ہے یہ تو آنے والے وقتوں میں سب کو پتا چل جائے گا ۔

لیکن قارئین اِن سب باتوں میں ایک بات آپ نے محسوس کی ہوگی کہ پاکستان اب دو قسم کی سوچوں میں واضح طور پر تقسم ہوتا جارہا ہے۔ایک وہ سوچ جو پاکستان میں موجودہ کرپٹ سسٹم کی حامی ہے اور دوسری وہ سوچ جو ملک میں تبدیلی کی خواہ ہے۔ اولذکر سوچ کے حامی یہ چاہتے ہیں کے پاکستان میں موجود نام نہاد نظامِ جمہوریت جوں کا توں چلتا رہے۔ اس نظام کے حامی زیادہ تر لوگ سرمایہ دار اور بیوروکرٹیس طبقے پرمشتمل ہیں اور وہ سیاسی جماعتیں جو اس ملک کو برسوں سے اپنے باپ کی جاگیر سمجھتی آرہی ہیں۔

اس کے علاوہ عوامی سطح پر ایک وہ سوچ بھی کارفرما ہے جو شکست خوردہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کو ترقی کی طرف گامزن دیکھنا نہیں چاہتی اور یہی وہ لوگ ہیں جن کے بل پر کامیابی کے جھنڈے گاڑتی کرپٹ سیاسی جماعتیں برسوں سے اقتدارکے مزے لوٹتی آرہی ہیں۔ اور دوسری وہ سوچ ہے جو پاکستان کے غریب ومظلوم عوام پر مشتمل ہے اور وہ تبدیلی کے ذریعے پاکستان میں سے سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ اور حقیقی نظامِ جمہوریت آئین ِ پاکستان کی مکمل بحالی جو عملاً معطل ہے اس ملک کی غریب مظلوم عوام کے حقوق کا حصول شہری حکومتوں کا قیام قانون و انصاف کا عملی نظام چاہتے ہیں۔

قارئین پہلے یہ دو سوچیں اس طرح واضح نہ تھیں اور لوگ ایک عجیب الجھن کا شکار تھے کیا صحیح ہے کیا غلط کس نظام کو سپورٹ کریں کس کو نہیں کوئی فیصلہ نہیں لے پارہے تھے سیاسی سوجھ بوجھ سے قاصر تھے ۔لیکن اب عوام میں اللہ کے فضل و کرم سے شعورِ آگاہی آتی جارہی ہے اور وہ پاکستان میں موجودہ کرپٹ سیاست اور طرزِ حکمرانی کو دیکھ کر بیدار ہورہے ہیں۔

اور اِن دو سوچوں میں منقسم سیاست دانوں سے لیکر سِول سوسائٹی میڈیا سے لیکر عوام کی نچلی سطح تک سب ڈیوائیڈ ہوچکے ہیںآ پ دیکھیئے گا وہ وقت بھی دور نہیں جب ان دو سوچوں کو حق اور باطل سے تعبیر کیاجانے لگے گا ۔ دیکھا جائے تو موجودہ نظام کے حامیوں میں واضح کمی آتی جارہی ہے اور نظام کی تبدیلی کے حامی لوگوں میں واضح اضافہ ہورہا ہے جو کہ ایک خوش آئند عمل ہے جو کہ اس بات کا ثبوت ہے کہ لوگوں میں سیاسی و سماجی شعور بیدار ہورہا ہے ۔

یہی انقلاب کی پہچان ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ علامہ طاہر القادری صاحب آگے کا لائحہ عمل کیا مرتب کرتے ہیں نظام کی تبدیلی کے حوالے سے مسلم لیگ ق متحدہ قومی موومنٹ آل پاکستان مسلم لیگ عوامی مسلم لیگ شیخ رشید اور پاکستان تحریکِ انصاف سمیت دیگر سیاسی جماعتیں پاکستان عوامی تحریک کے ساتھ کھڑی ہیں دیکھا جائے تو یہ سب سیاسی پارٹیاں تبدیلی کی خواہش مند ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ تمام جماعتیں علامہ صاحب کے ساتھ آخر تک کھڑی رہے پائیں گی۔

۔۔؟؟ یا پھر پچھلی بار کی طرح اس دفعہ بھی یہ سب جماعتیں صرف زبانی جمع خرچ سے کام چلائیں گی۔ اس حوالے سے ایم کیو ایم کی پالیسی کافی حد تک محطاط رویہ اپناتی ہے چونکہ وہ تبدیلی کی خواہاں تو ہے لیکن تبدیلی نہ آنے تک وہ موجودہ سسٹم سے جڑی رہنا چاہتی ہے ۔اور یہی پالیسی پاکستان تحریکِ انصاف نے بھی اپنائی ہوئی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف کی لیڈرشپ قطعی یہ نہیں چاہتی کہ ان کی جماعت کے سامنے تبدیلی کی خواہاں کوئی اور جماعت بھی مقبولیت حاصل کرلے اور پاکستان تحریکِ انصاف عوام کے لیے سیکنڈ آپشن بن جائے۔

ہماری ملک کی سب سے بڑی بد قسمتی یہ ہے کہ ہم اکیلے انقلاب لانا چاہتے ہیں اور اس میں اپنے علاوہ کسی کو شریک نہیں ٹھہرانا چاہتے۔ یہی وجہ تھی کہ 14فروری 2013 کے لانگ مارچ کو آخری وقتوں میں ناکامی سے دوچار ہونا پڑا ۔ جو کہ ہمارے نزدیک عمران خان کی سنگین سیاسی غلطی تھی جس کا نقصان خان صاحب نے 2013 کے عام انتخابات میں خوب اٹھایا ہم نے اس وقت بھی خان صاحب کوہونے والے اُس نقصان سے آگاہ کیا تھا ۔

ہم سمجھتے ہیں پچھلی دفعہ کا علامہ صاحب کا لانگ مارچ جو کہ کامیاب تو تھا لیکن بے نتیجہ ہونے کی وجہ سے بے معنی ہوگیا جس کا نقصان سب سے زیادہ عمران خان اور انکی پارٹی کو ہوا۔اگر اس وقت عمران خان اس لانگ مارچ میں شامل ہوجاتے تو نظام کی تبدیلی کے تحت ہونے والے الیکشن میں ان کی کامیابی کافی حد تک ممکن تھی۔خیر وقت دوبارہ عمران خان صاحب لیے ایک کڑا امتحان لیے کھڑا ہے اب کی بار عمران خان علامہ صاحب کے ساتھ آخرتک ساتھ چلیں گے یا پھر پچھلی بار کی طرح موجودہ سسٹم کے ساتھ چمٹے رہی گے اور آگے عمران خان کواس کے کیا سیاسی نتائج بھگتنا پڑیں گے اس طرف بھی عمران خان کو سوچنا ہوگا۔

لیکن ہم عمران خان صاحب کو اتنا بتا دینا چاہتے ہیں کہ وہ انتخابی اصلاحات کے بنا موجودہ سسٹم کے تحت کبھی اقتدارکی منزل کو نہیں چھوسکتے چاہے وہ ایم کیو ایم کی طرح مزید تیس سال اپنی پارٹی کودے دیں انقلابی اور عوامی پارٹیاں انقلاب کے بنا حصولِ اقتدار کو پہنچ ہی نہیں سکتیں۔ لہذا جب پاکستان کی فضاؤں میں انقلابی نعروں کی گونج لہرانے لگی ہے عوام میں انقلابی لاوہ پکنا شروع ہوچکا ہے تو اب ان تمام سیاسی پارٹیوں کو بھی ایک پلیٹ فارم پر آخری انقلابی معرکہ کے لیے خودکو تیار کرنا ہوگااگر وہ واقعی قومی مفاد کو مدِنظر رکھتے ہیں اور خود کو انقلابی کہلاتے ہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :