سوال یہ ہے۔۔۔۔۔؟

جمعرات 26 جون 2014

Ghulam Nabi Madni

غلام نبی مدنی۔ مکتوبِ مدینہ منورہ

وہ منظر ابھی بھی میری آنکھوں کے سامنے ہے جب ہزاروں لوگ اپنے گھروں سے حواس باختہ ہوکر نکل رہے تھے۔پورے علاقے میں خوف وہراس سے ایک کھلبلی مچی ہوئی تھی۔نوجوانوں کی آنکھیں غصے سے سرخ ہورہی تھیں،ان کی پیشانیوں پر تیوریوں کے آثار ان کے دل میں لگی آگ کی نشاندہی کر رہے تھے۔ستر سال کے بوڑھے بزرگ لڑھکتے قدموں کے ساتھ ہاتھوں میں تسبیح لیے اپنے گھروں کی طرف دوڑ ے جارہے تھے۔

عفت وعصمت کی پیکر وہ مائیں،بہنیں اور بیٹیاں جنہوں نے زندگی بھر کبھی چار دیواری سے باہر شرم وحیاء کی وجہ سے قدم نہ رکھے تھے،جنہیں زندگی میں کبھی اس کا خیال تک بھی نہ گزرا تھا کہ وہ اپنے گھروں سے یوں دربدر کی جائیں گی کہ ان کی عفت وپاکدامنی تک کو داوٴ پر لگادیاجائے گا،آج اپنوں کی انا کی خاطر مجبور ہوکر سسکتے قدموں کے ساتھ اپنی مقدس پناہ گاہوں کوچھوڑ رہی تھیں۔

(جاری ہے)

ہر طرف افراتفری اور نفسا نفسی کا عالم تھا۔قیامت سے پہلے ایک قیامت کامنظر تھا۔انسانوں سے لے کر جانوروں تک ہر مخلوق کے ارد گرد موت کے سیاہ بادل منڈھ لارہے تھے۔جنت نما وادیوں کا منظر پیش کرنے والی خوبصورت وادیاں ویران ہورہی تھیں۔لہلہاتے کھلیان،پکتی فصلیں،پھل دار درخت، پررونق بازاراورصدائے الٰہی سے گونجتی مسجدیں اجڑتی جارہی تھیں۔

انسانوں کا ایک جم غفیر چیونٹیوں کی مانند مختصر سا زاد ِ راہ لیے اپنی پناہ گاہوں سے مجبور ومقہور ہوکراجنبی منزل کی طرف رواں دواں تھا۔
اس جمِ غفیر میں موجودکئی پیرانہ سال بزرگ توچلتے چلتے غموم وہموم اور اپنوں کے لگائے ہوئے زخموں سے چور ہوکر حقیقی منزل تک پہنچ گئے۔بہت سے معصوم بچے بھوک، پیاس اورچلچلاتی دھوپ سے نڈھال ہوکر زندگی کی بازی ہار گئے۔

کئی ادھیڑ عمر نوجوان اور عورتیں خطرناک بیماریوں میں مبتلا ہوگئیں۔اس ازدحام میں کئی بچے اپنے والدین سے جداہوگئے۔بے شمار خاندان روٹی کے ایک لقمے تک کو ترس گئے۔غیرت مند مہمان نواز روٹی کے لیے تپتی دھوپ میں لمبی لمبی لائنوں میں دھکے کھانے لگے۔قوم کے معزز سردار وں کی دستاریں پاوٴں تلے روندھی جانے لگیں۔دوسروں کا سہارا بننے والوں کو مشکل وقت میں دہشت گردی کے نام پراتنا بے یارومددکیا گیا کہ انہیں اپنے صوبوں میں داخل ہونے سے روک دیا گیا۔

انہیں اپنے گھروں سے ڈرا دھمکا کر یوں دربدر کیا گیا کہ نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن۔گل خان شمالی وزیرستان میں جاری حالیہ آپریشن کے خوف سے دربدر ہونے والے لاکھوں آئی ڈی پیز کا آنکھوں دیکھا حال سنا کر بلک بلک کر رونے لگ گیا۔ ”گل خان آزمائشیں اللہ کی طرف سے آتی رہتی ہیں،صبر سے کام لیں حوصلہ بلند رکھیں،ان شاء اللہ بہت جلد سب ٹھیک ہوجائے گا“،میں نے گل خان کی ڈھارس بندھاتے ہوئے کہا۔

یہ آزمائشیں ہیں، نہ آفتیں یہ اپنوں کی طرف سے ڈھایا جانے والا ظلم ہے ۔آخر ہمارا قصور کیا تھا؟ہمیں کس جرم کی یہ سزادی جارہی ہے؟دہشت گردی کے ناسور کے خلاف کیے جانے والے آپریشن پر ہمیں کوئی اختلاف نہیں !لیکن کیا کبھی کسی نے آپریشن کی وجہ سے ہم جیسے لاکھوں معصوم لوگوں پر گزرنے والے اِن المناک حالات کے بارے میں بھی کچھ سوچا ۔گل خان نے آنسو پونچھتے ہوئے آپریشن کے نقصانات پر اپنے غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔


یہ حقیقت ہے کہ دہشت گردی کی عفریت سے پوراملک جل تھل ہوگیا ہے۔امن وامان ،بھائی چارگی ،اتحاد واتفاق اور قومی وملی جذبات ٹوٹ کر رہ گئے ہیں۔ارضِ پاک ناحق لوگوں کے خون سے سرخ ہوگئی ہے۔لوگ خوف وہراس اور بد امنی کی وجہ سے ذہنی طور پر مفلوج ہوکر رہ گئے ہیں۔کاروبار اور معاشی نظام تباہ ہوگیا ہے۔سیاستدانوں سے لے کر عوام الناس تک ،عبادت گاہوں سے لے کر مذہبی پیشواوٴں تک ہر جگہ اور ہر شخص غیر محفوظ ہو کر رہ گیاہے ۔

گزشتہ ایک دہائی سے ملکی صورتحال کو اس قدر مخدوش کرنے میں دہشت گردی جیسے ناسور کا واقعی غیرمعمولی کردار رہاہے،اس کردارکاکوئی بھی منصف مزاج پاکستانی انکار نہیں کرسکتا۔دوسری طرف اس ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے ریاست کی طرف سے کیے جانے والے اقدامات کااگرسنجیدگی سے جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ آج تک کسی بھی حکومتی شخص یاانتظامی نمائندے یاملک میں عدل وانصاف فراہم کرنے والے منصفین نے اس ناسور کے خلاف ٹھوس اور مضبوط لائحہ عمل اختیار کیا ہے ،نہ اس مسئلے کو کبھی سنجیدگی اور دیانت داری سے حل کرنے کے لیے کوئی قابل قدر کوشش کی ہے۔

افغانستان پر امریکی جارحیت کے بعد جن حالات سے ملک ِپاک دوچار ہوا اس کاادراک ق لیگ ،پی پی پی اور نون لیگ سمیت ہرحکومت کو تھااورہے۔افسوس کی بات یہ ہے کہ ان حکومتوں نے ان حالات سے نمٹنے کے لیے اور اس کے نتیجے میں دہشت گردی کے نام پر پھیلنے والے انتشار خوف وہراس اور قتل وغارت گری کے خلاف رسمی اورروایتی بیانات کے علاوہ کوئی سنجیدہ قدم نہیں اٹھایا،جس کی وجہ ملک میں طالبان نائزیشن پروان چڑھی۔

اگر ملک میں طالبان نائزیشن اورریاستی وحکومتی اداروں کی طرف سے آپس میں مل بیٹھ کرمعاملات طے کرنے جیسے معاملات پر غور کیا جائے ، تویہ بات سامنے آتی ہے کہ دونوں طرف سے ایک دوسرے کو یا تو غلط فہمیوں کی بنا پر سمجھنے کی کوشش نہیں کی گئی ،یا اگر کی بھی گئی تو چند دشمن عناصر کی وجہ سے بہت جلد درمیان میں دیوار چین کھڑی کردی گئی۔نتیجتاً ملک میں دہشت گردی کے نام پر قتل وغارت گری اور آپریشنوں کو ایک ایسا ناختم ہونے والا سلسلہ شروع کردیاگیاکہ جس کے نتائج آج قبائلی علاقوں بالخصوص شمالی وزیرستان کی عوام سے لے کرملک کے دوردراز علاقوں میں بسنے والے عام افرادتک بھگت رہے ہیں۔


سوات آپریشن ہو یا جنوبی اور شمالی وزیرستان آپریشن قطع نظر ان کی ضرورت اور اہمیت کے اگر ہم ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل اور حالات کا جائزہ لیں تو یہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ ان آپریشنوں سے دہشت گردی کاناسور تو ختم ہوا ،نہ ختم ہوتا نظر آرہاہے ،الٹا دہشت گردی جیسے ناسور کو بڑھانے والے محرکات میں اضافہ ہوگیاہے۔یقین نہ آئے تو گل خان جیسے نوجوانوں کے دلوں میں جذبات اور انتقام کے جولاوے پک رہے ہیں ان کو دیکھ لیا جائے، بہت ممکن ہے کہ یہ آتش فشاں بن کربہت جلد پھٹ جائیں۔

حالیہ آپریشن میں چار لاکھ سے زائدلوگ جن کا قصور سوائے اس کے اور نہیں کہ وہ شمالی وزیرستان میں پیدا ہوئے دربدر ٹھوکریں کھاتے پھر رہے ہیں۔ان آئی ڈی پیز کے لیے حکومتی سطح پر خاطرخواہ اقدامات کیے گیے ہیں ،نہ آئندہ اس کی کوئی امید نظر آرہی ہے۔جون کے آگ برساتے سورج میں جائے پناہ تلاش کرنے والے ان قبائلیوں کی حالت زارکا صحیح احساس تو بس اسے ہوسکتا ہے جس نے کبھی تپتے سورج میں ننگے سر چل کر دیکھا ہو۔

ائیرکنڈیشنڈمحلات میں بیٹھے عوام کی قسمت کا سودا کرنے والے سیاسی بازیگروں کو ان لاچار وبے یارومدگا ر انسانوں کا احساس کیوں کر ہوسکتاہے؟ انہیں تو اتنی بھی فرصت نہیں کہ بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان کے بے آب گیاہ میدانوں میں لگے ضروریات زندگی سے خالی خیموں میں جاکر گل خان جیسے مظلوم لوگوں کی حالت زار کو دیکھ سکیں یا کم ازکم انہیں تھپکی دے کر حوصلہ دے سکیں۔

ارض وفلک نے شاید اسلامی تاریخ میں کبھی یہ منظر نہیں دیکھا ہوگا کہ ایک ہی اللہ ،ایک ہی نبی اور ایک ہی ملک میں بسنے والے بھائیوں کو مصائب میں اس قدر تنہا چھوڑ دیا جائے کہ انہیں اپنے صوبوں اور اپنے علاقوں میں داخل نہ ہونا دیا جائے۔اللہ کی مخلوق کو شاید دنیا میں کبھی کسی نے اتنی ذہنی اور جسمانی اذیتیں نہ دی ہوں گی جتنی آج شمالی وزیرستان کے آئی ڈی پیز کو دی جاری ہیں۔

افسوس آج ہم رحمة اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھول گئے کہ”ساری مخلوق اللہ کا کنبہ ہے ،اللہ کے ہاں لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب وہ ہے جو اللہ کے کنبے کے ساتھ اچھا برتاوٴ کرے“۔سوال یہ ہے کہ کیا گل خان جیسے شمالی وزیرستان کے لاکھوں لوگ اللہ کاکنبہ نہیں ہیں؟اگر ہیں اور یقینا ہیں!تو پھر کیوں ہم انہیں ناکردہ جرائم کی سزادے کراللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان عالی کی توہین کر رہے ہیں ؟؟؟ ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :