سانحہ ماڈل ٹاؤ ن…قصور وار کو ن؟

جمعرات 26 جون 2014

Zubair Ahmad Zaheer

زبیر احمد ظہیر

ڈاکٹر طاہرالقادری کی تحریک کو سانحہ ماڈل ٹاؤں میں 8اموات اور سو سے زائد زخمیوں نے چار چاند لگا دیے ۔یہ تحریک مکمل بے جان تھی ،پی پی دور میں بھی یہ ڈرامہ رچایا گیا مگر صدر زرداری کی ٹھنڈی پالیسی نے تحریک منہاج کو مظلوم نہ بننے دیا ۔حکومت نے سہولتیں دیں ،راستے صاف کیے ،اور یوں پی پی حکومت یہ تاثر دینے میں کامیاب ہوگئی کہ طاہر القادری جو کچھ کر رہے ہیں وہ حکومت کا قد کاٹھ بڑھانے کے لیے کر رہے ہیں ۔

ان کی شرائط ،مطالبات تسلیم کرنے کا بھی سارا ڈرامہ نکلا ۔اور ایک مطالبہ بھی پورا ہوکر نہ دیا ۔سیاسی شخصیات کے مزاجوں سے واقف بخوبی جانتے ہیں کہ سیاست میں کہیں ٹال مٹول سے بھی کام لیا جاتا ہے ۔اور کہیں تیزی بھی دیکھائی جاتی ہے ۔شریف برادران میں شہباز شریف کا مذاج قدرے تیز ہے یہ ردعمل فوری دکھاتے ہیں ۔

(جاری ہے)

رفاعی کاموں میں بھی اور سیاسی فیصلوں میں بھی ۔

مزاج میں تیزی کی یہ صورتحال میاں نواز شریف کی بھی رہی ہے ۔کہ یہ ردعمل میں عجلت کر جاتے ہیں ۔ سیاست میں ردعمل فوری دکھانا بسااوقات نقصان دہ ہوتا ہے بلکہ ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ سیاست میں فوری ردعمل فوائد سے زیادہ نقصان کا باعث ہے ۔فوری ردعمل کہاں درست اور کہاں نقصان دہ ہے ؟۔شریف برادران نے سماجی کاموں ،حکومتی کاموں میں تیزی دکھا کر عوام بالخصوص پنجاب کے عوام کو فوری ردعمل کا عادی بنا دیا ہے ۔

ماضی کی حکومتیں ٹال مٹول سے کام لیتی رہی ہیں ۔اچھے کاموں میں تو فوری انصاف اور فوری ردعمل شہرت کا باعث بنتا ہے ۔مگر جب اچانک کوئی بحران پیدا ہوجائے ،کوئی سیاسی چال الٹی پڑ جائے ۔کسی کے سیاسی مقاصد کچھ اور ہوں،ایسے موقع پر فوری ردعمل نقصان کا باعث ہوتا ہے ۔تنکا تنکا جوڑ کر برسوں کی محنت سے کمائی ہوئی عزت ،شہرت ساری شہرت پل بھر میں خاک میں مل جاتی ہے ۔

ایسی ہی صورت حال سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ہوئی ہے ۔ساری کہانی کا تجزیہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض سیاسی شخصیات ،سرکاری افسروں نے اپنے نمبر بنانے ،حکومت کی خوشنودی حاصل کرنے اور اس غلط فہمی میں کہ طاہر القادری اور حکومت میں پرانے اختلافات ہیں ،ان خوشامدیوں نے مہناج سکریٹرٹ پر چڑھائی کروائی ،منہاج کے کچھ لوگوں نے بھی اشتعال دلایا ،پولیس بھی حالات کنڑول نہ کرسکی اور اس دوطرفہ جنگ میں 8قیمتی جانیں چلی گئیں ،زخمیوں کی تعداد بھی سو سے متجاوز ہوگئی ،نواز شریف اور شہباز شریف کی حکومتوں کی ایک سالہ ساری محنت پر پانی پھر گیا ،ساری کارکردگی کو ایک اشتعال انگیزی کھا گئی ۔

اس سارے واقعے میں ڈاکٹر طاہر القادری مفت میں اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑ گئے ۔ان کی اس تحریک کے موجود حالات میں کامیابی کے کوئی مواقع نہ تھے ،تحریک کو پرتشدد بنائے بنا چارہ نہ تھا ۔جوں ہی تحریک پرتشدد بنی ،طاہر القادر ی کا سیاسی پلہ بھاری ہوگیا ،ان کے مطالبات پڑھتے چلے گئے ،رائے عامہ ان کے حق میں ہوتی گئی ،میڈیا نے بھی تصویر کاایک رخ دکھلایا ،تحریک منہاج کا پرامن ماضی ان کے کام آگیا ،تحریک کے کارکنوں کی جانب سے اشتعال انگیزی کی جانب کسی کی نظر ہی نہ گئی ۔

اور سارے کاسارا نقصان شریف برادران کا ہوا ،بالخصوص پنجاب میں حکومت کو بہت بڑی تبدیلیاں کرنی پڑیں ،رانا ثنا اللہ کو وزیر قانون کے عہدے سے فارغ کرنا پڑا ،ڈاکٹر توقیر کو بھی ہٹایا گیا اورکئی دیگر سرکاری حکام ادھر سے ادھر ہوئے ،یہ سارا کچھ فوری ردعمل کے باعث پیش آیا ،مانا کہ کارروائی کاحکم شہباز شریف نے نہیں دیا مگر لوگ جانتے ہیں کہ شہبازشریف فوری فیصلوں کے عادی ہیں ان کی اس شہرت نے سانحہ لاہور پر رائے عامہ ان کے خلاف ہموار کردی ،اسے کہتے ہیں کہ کبھی اچھائی ہی برائی بن جاتی ہے کچھ ایسی ہی صورت سانحہ لاہور میں وقوع پزیر ہوئی ۔


جہاں تک ڈاکٹر طاہر القادری کی تحریک کا تعلق ہے ۔انہوں نے پاکستان میں قاضی حسین احمد کی جگہ لے لی ہے ،اور انہی کی طرح احتجاج اور دھرنے شروع کریے ہیں اب تو ہر سال یہ دھرنوں پراتر آئے ہیں ۔دھرنوں کی سیاست موجودہ حالات میں حادثاتی اور وقتی طور پر کامیاب ہے مگر مستقل حل نہیں ،احتجاجی سیاست میں ماضی میں قاضی حسین احمد نیپہلے اپنا سیاسی قدکاٹھ بنایا اور جب ان کا سیاسی قد کاٹھ بن گیا تو پھر انہوں نے دھرنوں کی سیاست ترک کردی اوراور انقلابی سیاست کی طرف متوجہ ہوگئے ۔

قاضی حسین احمد روز اول ہی سے انقلابی اور سحر انگیز شخصیت تھے ،ان کی شخصی کشش نے بھی جماعت اسلامی کو افرادی قوت کی دولت سے مالامال کردیا ۔انقلاب اچانک عمر کے آخری حصہ میں انسانی مزاج میں سرایت نہیں کرتا ۔یہ بچپن سے ہی رگ وپے میں ہوتا ہے اور عمر کے ساتھ ساتھ بڑھتا رہتا ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈاکٹر طاہرالقادری انقلابی شخصیتہیں۔

ان کی علمی ،عملی ،تبلیغی خدمات کا کوئی اندھا بھی انکار نہیں کرسکتا ۔منبر ومحراب کی شکل میں اسلام کا سب سے بڑا میڈیا ان کے ہاتھ اور زبان پر رہا ہے ۔ قاضی حسین احمد کے کارکنوں اور ڈاکٹر طاہرا لقادری کے کارکنوں میں فرق ہے ۔قاضی صاحب کے کارکن انقلابی سرگرمیوں کے عادی تھے اورمنہاج کے کارکن پرامن اور احتجاجی سیاست کے عادی نہیں ۔اس لیے ڈاکٹر صاحب کی توقعات کارکنوں سے پوری ہوتی دیکھائی نہیں دیتیں ۔

پاکستان میں پہلے بھی ایسے وقتی انقلابوں کے ذریعے حکومتوں کو گرانے کی منصوبہ بندیا ں کی جاتی رہیں ہیں۔پاکستان کی سیاسی تاریخ میں نوابزادہ نصراللہ خان بھی اپوزیشن کی سیاست کرتے رہے ہیں مگر ا نہوں نے اپنی یہ طاقت کبھی منفی طور پر استعمال نہیں کی ۔اپوزیشن کو ہمیشہ جوڑنا انکا خاصہ رہا ہے۔ وہ کبھی جمہوری سیاست سے باہر کسی انقلاب کیمنتظر نہیں رہے ۔

اصل معاملہ یہ ہے کہ حکومتیں بدلنے کا دنیا میں سب سے آسان اور مختصر راستہ انقلاب کو سمجھا جاتاہے ۔جمہوری ممالک میں جہاں اپنی مرضی کا فیصلہ ووٹ کے ذریعے نہ کروایا جاسکے وہاں مختصر راستہ کے طور پر انقلاب کا سہارا لیا جاتا ہے ۔پاکستان کا خطہ قیام پاکستان کے بعد مزید کسی انقلاب کا متحمل نہیں ۔یہاں انقلاب ووٹ کے ذریعے ہی آسکے گا ۔طالبان بھی شارٹ کٹ انقلاب لانے چاہتے ہیں ان میں اور طاہرالقادری کے انقلاب میں کیا فرق رہے گا ۔


ڈاکٹر طاہر القادر ی دوسری بارکینیڈا سے واپسی سے پہلے انقلاب کا ساماں پیدا کرتے ہیں ۔انہیں ایران جیسے انقلاب کی بھی غلط فہمی ہے ۔ایران کے مذہبی پیشوا خمینی بھی جلاوطنی کے بعد جب ایران آئے تھے تب ایران میں انقلاب آگیا ۔بادشاہت کے بت پاش پاش ہوگئے ۔پاکستان اور ایران کے زمینی حالات میں آسمان زمین کا فرق ہے ۔یہاں مطلق العنان بادشاہت نہیں ۔نہ برسوں کے مظالم ہیں ۔
ہر خطہ ایک انقلاب کو خیر آباد کہتا ہے ۔اور یہ ایک انقلاب 1947میں آچکا ہے ۔مزید انقلاب کی گنجائش نہیں رہی ۔یہ مملکت خداداد ہے ۔اس کا محافظ بھی خدا ہے ۔تاریخی لحاظ سے پاکستان میں انقلابی سیاست کا کوئی مستقبل نہیں۔سانحہ ماڈل ٹاون کے پہلے قصور وارڈاکٹر صاحب خود ہیں اور اس کے بعد مزید شخصیات ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :