انجام !

جمعرات 26 جون 2014

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

ڈاکٹر صاحب بولے” آ ج میں تمہیں اپنی زندگی کا سب سے اہم واقعہ سنانے جا رہا ہوں لیکن شرط یہ ہے کہ تم درمیان میں بول کر مجھے ڈسٹرب نہیں کروگے “میں نے ہاں میں گردن ہلائی اور ہاتھ باندھ کر ان کے سامنے بیٹھ گیا وہ بولنا شروع ہوئے ”میں نے پہلی بار اسے دیکھا تووہ بیس سال کی خوبصورت دو شیزہ تھی ۔میں ایک پرائیویٹ کلینک چلا تا تھا اور وہ اپنی والدہ کے ساتھ میرے کلینک پر آئی تھی ۔

میں اس کا حسن ،خوبصورتی اور اس کے نین نقش دیکھ کر مبہوت ہو گیا تھا اور میں نے اس سے ذیادہ حسن پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔بلا شبہ وہ حسن کی دیوی تھی جو پرستان سے اٹھ کر ہم جیسے نکمے ،خود غرض اور بد صورت انسانوں میں آبسی تھی ۔وہ جب ہنستی تو دلوں پر بجلیاں گرا دیتی ۔وہ کھلتے گلا ب کی طرح ترو تازہ اور چنبیلی کے پھول کی طرح خوشبودار تھی ۔

(جاری ہے)

وہ جہاں سے گزرتی مشک و عنبر کے بگھولے چاروں طرف بکھیر دیتی ،اس کا حسن چودھویں کے چاند کی طرح روشن ،دلکش اور دلربا تھا ۔و ہ جب پانی پیتی تو پانی کے گھونٹ شیشے کی طرح اسکے حلق سے اترتے ہوئے صا ف دکھائی دیتے تھے ،اس کے نرم و نازک ہاتھ ،چوڑی ہتھیلیاں ،گداز انگلیاں اور میانہ قد کو ہ قاف کی کسی حسین پری کی یاد دلاتے تھے ،اس کی آنکھوں میں عجیب سا نشہ تھا اور جوایک بار اس کی آنکھوں میں دیکھ لیتا وہ اس نشے میں مبتلاء ہو جا تا تھا ۔

سرو نے لمبائی او ر رات نے سیاہی اس کی زلفوں سے مستعار لی تھی۔اس کے موتیوں جیسے دانت برف سے ذیادہ سفید اور لو ء لوء مرجان سے ذیادہ تابناک تھے ،میں نے صرف ایک بار اسے روتے ہوئے دیکھا تھا اور اس کے رونے کی کیفیت دیکھنے والوں پر قیامت ڈھا دیتی تھی ،وہ جب نرگسی آنکھوں سے آنسووٴں کے موتی برساتی تو اس کے گلاب جیسے رخسار ترو تازہ اور سر سبز وشاداب ہو جاتے تھے ۔

وہ ہجوم میں ہو تی تو اپنی اداوٴں سے سب کی توجہ کا مرکز بن جاتی اور اکیلی ہوتی تو مندر میں جلنے والے دیے کی طرح معصوم اور دامن کوہ میں بہنے والی خاموش ندی کی طرح پرسکون ہوتی تھی ۔وہ شاید جلد کی کسی بیماری میں مبتلاء تھی میں نے میڈیسن لکھی اور اس کی والدہ کے حوالے کر دی ۔میں نے اس کی والدہ سے گھر کا ایڈریس لیا اور انہیں رخصت کرنے کے لیئے کلینک کے با ہر تک آگیا ۔

وہ ماں بیٹی باہر نکلیں اور میں سیڑھیوں پر کھڑا چاند کے غروب ہونے کا منظر دیکھتا رہا ۔میں اس کی صرف ایک جھلک کا منتظر تھا ،کا ش وہ ایک بار پلٹ کر مجھے دیکھ لیتی ،میں نے کہیں پڑھا تھا کہ جانے والا اگر ایک بار واپس پلٹ کر دیکھ لے تواس کے دل کے کسی کو نے میں آپ کے لیئے جگہ موجو د ہے ۔میں بت بنا کھڑا اس اصول کی تکمیل کا منتظر تھا ۔پھر اچانک کائنات کی نبض تھم گئی ،وہ ایک لمحے کے لیئے رکی ،گردن گھمائی اور پیچھے پلٹ کر دیکھا ،اسی ہیر پھیر میں بہار اور خزاں کے کئی مو سم میری آنکھوں کے سامنے سے گزر گئے ۔

اس کی آنکھوں کے نشے نے مجھے مدہوش کر دیا تھا اور میں غش کھا کر گرپڑا تھا ۔
یہ میری اس سے پہلی اور آخری ملاقات تھی اور اس دن کے بعد میری زندگی میں زوال آنا شروع ہو گیاتھا ۔اب میرا کسی کام میں دل نہیں لگتا تھا ،میں کلینک میں بیٹھتا تھا لیکن نہیں بیٹھتا تھا ،میں ہفتے میں ایک بار کھانا کھاتا تھا اور میں اسٹڈی کرتا تھا لیکن ہر امتحان میں بدرجہ ء اعلیٰ فیل ہوتا تھا ۔

میں سارا سال کلینک کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر اس کا انتظار کرتا رہا لیکن کاتب تقدیر نے وہ دن میری زندگی میں صرف ایک بار لکھا تھا ۔زمانہ گزرتا گیا لیکن وہ ماں بیٹی واپس نہیں آئی ۔دس سال گزرنے کے باوجود زخم ابھی تازہ تھے اور میں نے ابھی ہار نہیں مانی تھی ۔میں بے بس ہو کر ان کے گھر کی طرف چل دیا ،مجھے معلوم ہوا وہ ماں بیٹی چار سال پہلے یہاں سے جا چکی ہیں،یہ انتہا تھی ۔

اب میرے پاس دو آپشن تھے ایک ،میں اپنی زندگی کو اسی طرح تباہ ہو نے دوں ،دو،میں خود کو سنبھالوں ،اس پاگل پن سے باہر آوٴں اور اپنی پہلے والی زندگی کی طرف لوٹ جاوٴں۔دوسرا فیصلہ مشکل تھا لیکن اس کے سوا کو ئی چارہ نہیں تھا ۔میں نے ایک بزرگ کا ہاتھ تھا م لیا اور میری زندگی معمول پر آنا شروع ہو گئی ،اگلے دس سال کے اندر اندرمیرا کلینک بھی چل پڑا ،میری شادی بھی ہو گئی اور اللہ نے مجھے اولاد سے بھی نواز دیا ۔

میں اپنے بچوں کی پڑھائی کے لیئے اسلام آباد شفٹ ہو گیا ۔ایک دن میں تھکا ہارا کلینک سے واپس آیا ،کھانا کھا کر ابھی لیٹا ہی تھا کہ دروازے پر دستک ہو ئی ،ایک ادھیڑ عمر خاتون دروازے پر موجود تھی ، مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا ،وہ لڑکی جس کی ایک جھلک دیکھنے کے لیئے میں تیس سا ل سے انتظار کر رہا تھا وہ ایک خوفناک شکل میں میرے سامنے کھڑی تھی ،اب وہ ایک ادھیڑ عمرکی بوڑھی خاتون تھی ،اس کے سارے جسم پر برص کے․ نشانات تھے اور اس کا سارا جسم گل سڑ چکا تھا ۔

اس کے وجود سے بدبو کے بھبھو کے اٹھ رہے تھے اور اس کے ہاتھ پاوٴں پر میل کی تہیں جمی تھیں۔اس کے چہرے پر چھائیاں پڑ چکی تھیں ،ا س کی گردن پر ماس لٹک رہا تھا ،اس کے بال مکمل طور پر جھڑ چکے تھے ،اس کی آنکھیں اندر کو دھنس چکی تھیں ،اس کے ہاتھوں میں رعشہ طاری تھا ،اس کے رخسار اندر کو دھنس چکے تھے ،اس کے سامنے کے سارے دانت غائب تھے ،اس کی چال میں لڑکھڑاہٹ آ گئی تھی ،اس کے ہاتھ میں لا ٹھی تھی اور وہ سیدھی کھڑی نہیں ہو سکتی تھی ۔

وہ ایک خوفناک شکل میں میرے سامنے کھڑی تھی اور مجھے اس کی شکل و صورت سے خوف آرہا تھا ۔میں کچھ بولنا چاہتا تھا لیکن میرے پاس الفاظ نہیں تھے ،مجھے صرف اتنا معلوم ہوا کہ وہ میرے ساتھ والے گھر میں رہتی تھی اور آج مجھے ملنے آئی تھی ۔میں اپنی تیس سالہ محبت کو اس خوفناک شکل میں دیکھ کر گھبرا گیا تھا ،میں وہاں سے بھاگ جانا چاہتا تھا لیکن وہ میرے سانے کھڑی تھی ،میں اس سے پیچھا چھڑاناچاہتا تھا لیکن اب وہ میرے پیچھے پڑ گئی تھی ،میں آنکھیں بند کرتا تھا لیکن وہ ایک خوفناک خواب بن کر میرے سامنے آ جاتی تھی ،میں نے اپنا ماضی بھلانا چاہا لیکن اس کے تیس سالہ انتظارنے مجھے ندامت اور شرمندگی کی قید میں جکڑ دیا تھا “ڈاکٹر صاحب کی کہانی ختم ہو گئی لیکن ان کی آنکھیں جاری ہو گئیں ۔

مجھے ایک لمحے کے لیئے احساس ہوا ہمارا آج کا نوجوان کس قدر احمق ،بیوقوف اور نادان ہے کہ وہ پیار،محبت اورحسن جیسی عارضی چیزوں کے پیچھے پڑ کراپنا مستقبل تباہ کر رہا ہے ۔ آپ دیکھ لیں ہماراا سی فیصد نوجون اس مرض میں مبتلاء ہے ۔لیکن اس کا انجام کیا ہے ؟اس کا احساس شاید انہیں اپنی زندگی تباہ کر نے کے بعد ہو گا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :