خود کشی!

جمعہ 20 جون 2014

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

اس کی عمر23سال تھی اور اس کا مشن ”خود کشی“ تھا۔وہ گھر سے پختہ عزم لے کر نکلا تھا کہ آج وہ ہر حال میں خود کشی کر لے گا ،وہ کسی دریا میں چھلانگ لگا دے گا ،کسی نہر میں کود جا ئے گا ،ٹرین سے ٹکرا جائے گا یا پھر کسی بس اور گاڑی کے سامنے لیٹ جائے گا ۔یہ شہر کی مرکزی سڑک تھی اور وہ سڑ ک کے عین درمیان میں لیٹا ہوا تھا ،ساری ٹریفک بلا ک تھی اور دور دور تک گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ گئیں ،لو گ اسے سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے لیکن وہ کچھ سمجھنا نہیں چاہتا تھا ۔

اللہ نے انسان کوعجیب فطرت عطا ء کی ہے یہ اگر کچھ نہ سمجھنا چاہے تو اسے چاروں آسمانی کتابیں پڑھ کر سنا دیں یا جبرائیل کو بلا لیں یہ نہیں سمجھے گا اور اگر یہ سمجھنے پر آئے تو آنکھو ں کے اشارے اور لبوں کی جنبش تک کو پڑھ لے چناچہ وہ نوجوان نہ سمجھنے کا فیصلہ کر چکا تھا ۔

(جاری ہے)

میں نے ایک عجیب حرکت کی،میں آگے بڑھا اور اس کے ساتھ سڑک پرجا کر لیٹ گیا ،میں نے اس سے گفتگو شروع کی تو وہ میرے ساتھ” فرینک “ہو گیا،میں نے باتو ں باتوں میں اسے آئینے میں اتار ااور اسے سڑک سے اٹھانے میں کامیاب ہو گیا ۔

سڑک کھلی ،ٹریفک رواں دواں ہو ئی اور زندگی دوبارہ معمول پر آ گئی ،میں اس کو ساتھ لے کر قریبی جو س کارنر پر چلا گیا ، مجھے اندازہ ہوا اس کی خود کشی کے پیچھے غربت کا ہاتھ ہے ، دنیا میں آج تک جتنی بھی خودکشیاں ہو ئیں ہیں اس کی تین بنیادی وجو ہات ہیں ،محبت ،غربت اور بیماری ۔میں نے اس سے پو چھا ”تم خودکشی کیوں کرنا چاہتے ہو “وہ پھٹ پڑا اور بولا ”میں نے فزکس میں ماسٹر کیا ہے اور میں گزشتہ دو سال سے جاب کی تلاش میں ہوں لیکن مجھے ابھی تک کوئی جاب نہیں ملی ،میں جہاں بھی انٹرویو کے لیئے جا تا ہوں مجھے اعتراضات لگ ا کر واپس کر دیا جاتا ہے ،گھر والے تنخواہ کا مطالبہ کرتے ہیں ،اہل محلہ مجھے عجیب نظروں سے گھورتے ہیں ،رشتہ داروں نے مجھے عیاش اور فضول ڈکلیئر کر دیا ہے ،میں دن میں پچاس مرتبہ خود کو کو ستا ہوں اور میری زندگی عذاب بن گئی ہے اس صورتحال میں میں مزید نہیں جی سکتا لہذٰمیں نے خودکشی کا فیصلہ کر لیا ہے“میں نے اس سے پو چھا ”تمہارے ہاتھ ،پاوٴں ،ٹانگیں اور بازو ٹھیک کا م کر تے ہیں “وہ بولا ”ہاں “میں نے پو چھا ”آپ کا دل ،دماغ ،ناک ،کان ،منہ اور بقیہ جسم بھی ٹھیک ہے “اس کا جوا ب پھر ہاں میں تھا ،میں نے عرض کیا ”جب تمہارے ہاتھ پاوٴں اور تمہار ا سار ا جسم ٹھیک ہے ،تم تئیس سال کے ایک گھبروجوان ہو پھر تم میں کس چیز کی کمی ہے ‘تم اپنا ایک نیا جہاں کیوں آباد نہیں کرتے ،تم اپنی ایک نئی دنیا کیوں تخلیق نہیں کرتے ،تم گیدڑ کی طرح زندگی سے ڈر کر کیوں بھا گنا چاہتے ہو اور تم شیر بن کر زندگی کے مسائل کا سامنا کیوں نہیں کرتے ؟تم کیا سمجھتے ہو کہ خود کشی کے بعد تم ایک خوبصورت زندگی گزارو گے،ہرگز نہیں بلکہ خودکشی کے بعد کی زندگی کا انجام بڑا خوفناک اور لرزہ خیز ہے “وہ میری باتوں پرگردن ہلا ئے جا رہاتھا ،میں نے اس سو پوچھا ”تم نے اسٹیفن ہاکنگ کا نام سنا ہے“اس کا جواب نہیں تھا چناچہ میں نے اسے بتانا شروع کیا ”وہ جنوری 1942میں پیدا ہوا ، اکیس سال کی عمر میں وہ برف پر اسکیٹنگ کر رہاتھا ،یہ برف سے پھسلااور ہمیشہ کے لیئے معذور ہو گیا،ڈاکٹر نے اسے بتایا تم MNDکے مریض ہو ۔

یہ دنیا کا لا علاج مرض تھااور آج تک اس خوفناک بیماری کا علاج دریافت نہیں ہوا ،اس بیماری میں انسان کے تمام اعضاء ایک ایک کر کے معطل ہو جاتے ہیں اور انسان کا جسم اس کا ساتھ چھوڑ دیتا ہے ۔یہ مرض مریض کو ذیادہ وقت نہیں دیتا چناچہ اسٹیفن کے پاس بھی ذیادہ وقت نہیں تھا ،ڈاکٹروں نے اسے بتایا تم ذیادہ سے ذیادہ دو برس تک جی سکتے ہو اور دو ماہ کے اندر اندر تمہارے اعضاء تمہارا ساتھ چھوڑ دیں گے لیکن اسٹیفن ابھی جینا چاہتا تھا ۔

وہ کہتا تھا اس خبر کا بعد سب سے پہلا خیال جو میرے ذہن میں آیا وہ یہ تھا کہ میں پی ایچ ڈی نہیں کر سکوں گااور میری زندگی کی سب سے بڑی خواہش ادھوری رہ جائے گی ۔مجھے شادی بھی کرنی تھی لیکن شادی کی لیئے نو کری ضروری تھی اور نو کری کے لیئے پی ایچ ڈی ۔چناچہ میں نے اپنے پڑھائی کے وقت میں اضافہ کر دیا بیماری سے پہلے اگر میں تین گھنٹے پڑھتا تھا تو بیماری کے بعد میں نے دس گھنٹے پڑھنا شروع کر دیا ،دو سال سے پہلے میری پی ایچ ڈی بھی ہو گئی ،شادی بھی اور اولاد بھی، یہ سب کامیابیاں میڈیکل سائنس اور خود میرے لیئے حیران کن تھیں ،اس دن میں نے سمجھ لیا کہ قدرت مجھ سے کو ئی تخلیقی کا م لینا چاہتی ہے چناچہ میں نے اپنی بقیہ زندگی ریسرچ کے لیئے وقف کر دی ،وہ کہا کرتا تھا ”آپ ہمیشہ آگے دیکھیں اور ماضی کو بھول جائیں ،آپ اپنے اندر تجسس پیدا کریں اور کسی بھی صورت میں ہمت نہ ہاریں “اخیر عمر میں اس کے ہاتھ ،منہ ،ناک ،کان ،پاوٴں ،ٹانگیں ،بازو اور سارا جسم مفلوج ہو گیا تھا ،اس کی گردن ایک طرف کو جھک گئی تھی اس کی زبان ہمیشہ کے لیئے خاموش ہو گئی تھی اور اس کے پو رے جسم میں صرف اس کی پلکیں متحرک تھیں اور وہ صرف ان پلکوں کے زریعے اپنی زندگی گزارتا تھا،وہ جو کچھ سوچتا تھا اسے پلکوں پر شفٹ کر دیتا تھا وہ پلکیں جھپکتا ،کمپیوٹر ان پلکوں کی حرکت کو ترتیب دیتا اور انہیں الفاظ کی شکل میں پرنٹر کی طرف بھیج دیتا اور یوں وہ پرنٹ سائنسی دنیا میں تہلکہ مچا دیتا ،وہ آئن اسٹائن کے بعد دنیا کا دوسرا بڑا دماغ تھا اور اس نے اس نے صرف اپنی پلکوں کے زریعے کائنات کے ہزاروں سر بستہ رازوں کا پر دہ چاک کیا “ میں نے اسے بتایا ”جب اسٹیفن ہاتھ پاوٴں ،بازو ،ٹانگیں ،سر ،گردن اور پورا جسم مفلوج ہو نے کے باوجود 70سال تک جی سکتا ہے اور سائنس کی دنیا میں تہلکہ مچا سکتا ہے تو تم تئیس سال کے گھبرونوجوان ہو نے کے باوجود کیوں اپنی زندگی سے تنگ ہو ،تم اپنے لیئے اک نیا میدان کیوں تخلیق نہیں کر تے ،تم ایک بزدل انسان کی طرح کیوں مرنا چاہتے ہو ،تم اپنے والدین اور بہن بھائیوں کو ہمیشہ کا دکھ اور غم کیوں دینا چاہتے ہو اور تم ایک گمنام ”خود کش “ کی بجائے وقت کا اسٹیفن کیوں نہیں بنتے “میں نے دیکھا نوجوان کی آنکھو ں میں محنت کی چمک اور امید و یقین کی روشنی تھی ،اس نے سر اوپر اٹھایااور میری طرف دیکھ کر بولا ”ہاں یار میں واقعی ایک بزدل،کم ہمت اور ڈرپوک انسان ہوں لیکن اب ایسا نہیں ہو گا اب میں جینا چاہتا ہوں،ایک بھرپور زندگی۔

وہ اٹھا ،ہاتھ آگے بڑھایااور ایک نئی زندگی کی تلاش میں پر رونق شہر کی رنگینیوں میں کھو گیا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :