چشمِ حیراں و پریشاں

جمعہ 20 جون 2014

Abdul Raheem Anjaan

عبدالرحیم انجان

چشم ِحیراں و پریشاں کا تقاضہ ہے کہ پاکستانی ٹی۔وی دیکھنا چھوڑ دو کہ اُس سے وطن عزیز کی ذلت و رسوسائی کے سوا کوئی خیر کی خبر کم کم ہی ملتی ہے۔ کیا ایسا تماشا کسی مہذب قوم کی پولیس کر سکتی ہے، جیسا تماشا ہماری پولیس نے ڈاکٹر طاہر القادری کے مداحین کے ساتھ کر دکھایا ہے۔ وزیر ریلوے جناب سعد رفیق فرماتے ہیں۔”گلو بٹ سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے۔

“یہ مسلم لیگ (ن) کے کسی عام ورکر کا بیان نہیں ، ایک وفاقی وزیر کا بیان ہے۔جب کہ کسی ایک نے نہیں، کئی ٹی وی کیمروں نے یہ شرمناک تماشا دکھایا ہے کہ گلوبٹ پولیس کی موجودگی میں کس بے رحمی سے سامنے آنے والی کاروں کے شیشے توڑ رہا ہے اور پولیس والے بھی تخت َ لاہور کے تخت نشینوں کے احکامات کی بجا آوری میں بڑی فرعونیت کے ساتھ نہتے عوام پر لاٹھیاں اور گولیاں برسا رہے ہیں۔

(جاری ہے)

بحالت ِ مجبوری پولیس کو اگر گولی چلانی ہی پڑ جائے تو وہ سب سے پہلے عوام کو منتشر کرنے کے لئے ہوئی فائر کرتی ہے۔اگر عوام پھر بھی منتشر نہ ہوں تو زیادہ سے زیادہ لوگوں کی ٹانگوں پر گولیاں چلانے کا حکم ہوتا ہے۔لیکن یہاں ڈاکٹر طاہر القادری کو سبق سکھانے کے لئے پولیس بھیجی گئی تھی۔ جو میاں صاحب کی حکومت کے لئے چیلنج بنے ہوئے تھے۔ظاہر ہے ٹی وی پر جب یہ شرمناک تماشا ساری دنیا نے دیکھا ہے تو جناب سعد رفیق نے بھی یقینا دیکھا ہو گا۔

لیکن وہ کہتے ہیں۔” گلو بٹ سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے“
تختِ لاہور کے جانشینوں کی اس فرعونیت کو دیکھتے ہوئے تحریک انصاف کے چیئرمین جناب عمران خان نے وزیر اعلیٰ پنجاب جناب شہباز شریف سے مستعفی ہو جانے کا مطالبہ کر دیا ہے۔جس کے جواب میں جناب شہباز شریف فرماتے ہیں۔”ہم نے اس معاملے کی چھان بین کے لئے ایک کمیشن بنا دیا ہے۔

اگر میرا قصور ثابت ہو جائے تو میں مستعفی ہو جاوٴں گا “جب کہ ڈاکٹر طاہر القادری نے اس کمیشن کو مسترد کر دیا ہے۔ ویسے بھی جس دن سے لاہور ہائی کورٹ پر مسلم لیگ (ن) کی گلو بٹ کے قبیلے کی فورس نے حملہ کیا ہے، عدلیہ کے منصف میاں برادران کے معاملے میں اپنے فرائض منصبی سے کم کم ہی انصاف کرتے ہیں ۔ ایاز میر صاحب کے ایک کالم کے مطابق میاں برادران کے خلاف سات آٹھ ارب روپے کی نا دھندگی کا ایک مقدمہ ہائی کورٹ لاہور میں گزشتہ دس سال سے ملک میں عدل و انصاف کی میّت پر آنسو بہا رہا ہے۔


کچھ درد مندان پاکستان کہتے ہیں کہ پاکستان میں آج سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی کا ہے۔جب کہ سچ یہ ہے کہ پاکستان میں ، پاکستان کی تباہی کاباعث ’عدل و انصاف‘ کی زبوں حالی بن رہی ہے کہ’ عدل و انصاف‘ ہی سلطنت کی طاقت اور وقار کی بنیاد ہوتا ہے۔ ظاہر ہے اب چھوٹے میاں صاحب کو بے قصور ثابت کرنے کے لئے کسی منصف کو اپنے ضمیر کی قربانی دینی ہو گی اور کئی پولیس افسروں کو چھوٹے میاں صاحب اور حمزہ شریف کی فرعونیت کا طوق اپنے گلوں میں ڈالنا ہو گا۔

وہ لوگ بھی تو انصاف ہی کرنے بیٹھے تھے، جنہوں نے ایک حلقے کی دھاندلی کویہ کہہ کر چھپا لیا ہے کہ بیلٹ پیپرز کو دیمک کھا گئی ہے۔اسے کہتے ہیں عدل و انصاف کی چھاتی پر مونگ دلنا۔ لیکن کب تک ؟
مذکورہ تماشے کا سب سے زیادہ منفی اثر طالبان کی طرف سے مسلسل جارحیت کے خلاف افواج پاکستان کے ”اپریشن ضرب عضب“ پر پڑا ہے۔ میڈیا کی توجہ” ضرب عضب“ سے ہٹ کر ڈاکٹر طاہر القادری کی جماعت کے خلاف ضرب پولیس پر لگ گئی ہے۔

جب کہ اس وقت ساری قوم کی تمام تر توجہ افواج ِ پاکستان کے ساتھ ہونی چاہیے تھیں۔حیران کن انکشاف یہ ہے کہ چیف آ ف آرمی سٹاف جناب راحیل شریف نے سری لنکا جانا تھا،لیکن انہوں نے اپنا سری لنکا کا دورہ ”ضرب عضب “ کی وجہ سے ملتوی کر دیا ہے۔ جب کہ وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف اور اُن کے وزیر دفاع خواجہ آ صف چے چینیا کے دورے پر چلے گئے تھے۔

مجھے ستمبر ۶۵ کا زمانہ یاد آ رہا ہے۔جب کہ اُس دور کے صدر پاکستان کی تقریر میں ایک جملے نے کہ ”ہمارے بد ترین دشمن نے ہماری پاک سرزمین پر قدم رکھا ہے اور ساری قوم لاالا لہ کا کلمہ پڑھ کر کھڑی ہو گئی ہے۔“خدا کی قسم میں نے یہ تماشا اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ ہماری فوج کے جوان گیارہ ساڑھے گیارہ بجے کے قریب شا؛لا مار باغ کے سامنے سے گزرے تھے اور اہلیان لاہور اپنے کندھوں پر لاٹھیاں اٹھائے فوجی ٹرکوں کے ساتھ ساتھ بھاگ رہے تھے اور افواج پاکستان کے شیر دل جوان اپنی دو انگلیاں کھڑی کر کے فتح کا نشان بناتے ہوئے اہلیان لاہور سے کہہ رہے تھے۔

دشمن کئے لئے ہم کافی ہیں ۔لاہور بھر میں جدھر نظر اٹھتی تھی۔”کرش اندیا “ کے سائین سبھی کاروں رکشوں اور ٹیکسیوں کے پیچھے لگے نظر آتے تھے۔قوم میں وہ جوش و خروش آج نظر نہیں آ رہا۔ جب کہ آج کی جنگ میں خطرہ زیادہ ہے کہ ہمارا دشمن ہمارے گھروں میں گھسا بیٹھا ہے۔شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ ہماری قیادت کی طرف سے کوئی ایسا بیان نہیں آیا جسے سن کر قوم جوش جہاد سے آراستہ ہو کر اپنی فوج کے شانہ بشانہ کھڑی ہو جاتی، قیادت نے تو خود عوام کے دباوٴ میں آ کر اپریشن کے لئے حامی بھری ہے۔

اور ہمارئے وزیر دفاع ؟ وہ تو ہیں ہی فوج کے خلاف، موصوف نے ۲۰۰۶ ء ء میں پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر افواج پاکستان کے بارے میں افواج پاکستان پر یہ بہتان باندھا تھا کہ انہوں نے کشمیر پر حملہ کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
ہماری بہادر افواج پر یہ شرمناک بہتان ہے اور حقیقت یہ ہے کہ قائد اعظم نے افواج ِ پاکستان کو کشمیر میں داخل ہو کر قبضہ کرنے کے لئے حکم دیا تھا۔

اُس وقت ہماری افواج کے چیف آف آرمی سٹاف ایک انگریز General Frank Messeruyتھے۔ جو قائد اعظم  کے حکم میں رکاوٹ بن گئے تھے۔اس انگریز نے قائد اعظم پر دباوٴ ڈالا کہ وہ اپنا حکم واپس لے لیں۔ لیکن قائد اعظم نہیں مانے تھے ۔ اُس وقت برطانوی افواج میں مسلمان فوجی، دوسری جنگ عظیم کے اختتام کے باوجود ابھی پاکستان کے حوالے نہیں کئے گئے تھے اور وہ برما ، سنگا پور اور کئی دوسرے دور دراز کے مقامات پر تھے اور اس وقت تک پاکستان کے پاس فوج نہ ہونے کے برابر تھی اور اسی مجبوری کے تحت لیاقت علی خان بھی انگریز جنرل کے ساتھ مل گئے تھے اور اُنہوں نے بھی قائد اعظم  پر فوج کے لئے کشمیر پر حملہ کرنے کا حکم واپس لے لینے کے لئے بھر پور دباوٴ ڈالا تھا اور قائد اعظم اپنا حکم واپس لینے پر مجبور ہو گئے تھے۔

الغرض فوج کے پاس تو قائد اعظم کا حکم پہنچا ہی نہیں تھا۔
،اس کے علاوہ ایک مجبوری یہ بھی تھی کہ اُدھر انڈین آرمی میں بھی ۱۴ جنوری ۱۹۵۳ ء ء تک تین اگریز ہی چیف آف آرمی سٹاف رہے ہیں ، اور ہمارے ہاں بھی ۴ اگست ۱۹۴۷ ء ء سے لے کر ۱۶ جنوری ۱۹۵۱ ء ء تک دو انگریز جنرل ہی رہے ہیں۔پہلے کا ذکر کر چکا ہوں ۔دوسرے General Gracey تھے، ظاہر ہے، پاکستان اور انڈیا ، دونوں ملکوں کے چیف آف آرمی سٹاف کا تعلق تو انگریزی فوج ہی سے تھا اور اُدھر ہندوستان کا پہلا گونر جنرل بھی وہی لارڈ مونٹ بیٹن تھا۔

جس نے اپنی بیوی کو خو ش کرنے کے لئے تقسیم میں جی بھر کر بے ایمانی کی تھی۔خواجہ آ صف اگر اپنی پارٹی کے خیر خواہ ہیں تو انہیں وزارت دفاع سے سبکدوش ہو جانا چاہیے۔ اس لئے نہیں کہ انہوں نے اُفواج پاکستان کے دفاعی بجٹ اور دوسری مراعات پر جارحانہ تنقید کی ہے اور نہ ہی اس لئے کہ انہیں افواج پاکستان کی مراعات پر تنقید کرتے ہوئے اپنے لیڈر کی اربوں کھربوں روپیوں کی کرپشن کیوں نظر نہیں آئی ؟ صرف اس لئے کہ انہوں نے افواج پاکستان کی شجاعت کے بارے میں بڑے شرمناک جھوٹ بولے ہیں۔

خواجہ آ صف کے اس شرمناک بہتان پر عوام الناس کو بہت دکھ ہوا ہے۔سیالکوٹ میں خواجہ آ صف کے حلقے کے لوگ خوش نصیب ہیں کہ جنہوں نے افواج ِ پاکستان کے بارے میں زہر افشانی کرنے کے جرم میں خواجہ آ صف کی گاڑی پر جوتے پھینک کر اپنے دل کی بھڑاس نکال لی ہے۔خواجہ صاحب کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ افواج پاکستان نہ صرف دنیا کی بہادر ترین افواج میں سے نمبر ۱ ہیں۔اپنے ملک میں ہر دلعزیز بھی ہیں۔جب بھی ملک پر کوئی برا وقت آئے گا ۔اس برے وقت کے سامنے افواج پاکستان ہی سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑی ہوں گی۔ہمارے لیڈر تو بیرون ملک اپنے اپنے ٹھکانوں پر چلے جائیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :