ادارہ امراض مذہب کا قیام

منگل 17 جون 2014

Sabookh Syed

سبوخ سید

پاکستان میں کینسر کا اسپتال ہے ۔
امراض قلب کا ہے ۔
آنکھوں کا ہے ۔
دماغ کا ہے ۔
لیکن مذہبی مریضوں کا کوئی نہیں ۔
ہم فوری طور ملک بھر کے تمام اسپتالوں میں شعبہ امراض مذہب قائم کرنے کا مطالبہ کر تے ہیں کیونکہ یہ بیماری انسانی جسم میں بہت سے مسائل پیدا کر دیتی ہے ۔
آپ اگر کسی شخص میں اس طرح کے مسائل دیکھیں تو فورا اس سے دور ہو جائیں کیونکہ یہ متعدی بیماری ہے ۔


اکثر مذہبی قسم کے لوگوں میں اس بیماری کے ساتھ ہی اکڑ پیدا ہو جاتی ہے ۔
وہ دوسرے انسانوں کو تیسرے درجے کا انسان سمجھتے ہیں۔
اگر کسی نے درس نظامی نہ کیا ہو تو اسے کہیں گے کہ بس تھوڑا بہت مطالعہ ہے لیکن علم شلم کوئی نہیں ۔
گلی گلی چرسیوں کی تاریخ کی کتابیں اٹھائے پھر رہے ہوں گے اور بگڑی ہوئی شکلوں کے ساتھ صحابہ کرام  پر تنقید کرتے پھر یں گے۔

(جاری ہے)


دوسرے لوگوں پر طنز کریں گے ،انہیں نام نہاد دانشور یا نوخیز دانشور جیسے القابات دیں گے ۔
اس دوران اپنی علمیت کی دھاک بٹھانے کے لیے بڑی بڑی شخصیات کی کتابوں کے حوالے دیں گے ۔
اپنے دور کے انسان انہیں بہت برے لگتے ہیں لیکن قرون اولیٰ کے لوگوں کے ایسے نام لیں گے جیسے وہ ابھی ہی ان سے مل کر گئے ہوں۔
صدقہ ،زکوة ،خیرات ،خمس سب کھا لیتے ہیں ۔


دل کمزور ہو جاتا ہے ۔کسی کی بات نہیں سن سکتے ۔
خود کو دین دار اور جو انہیں چندے دے کر پال رہا ہوتا ہے اسے دنیا دار کہتے ہیں ۔
(پتا نہیں اگر جناب ابو بکر صدیق ،فاروق اعظم اور عثمان غنی اور سیدنا معاویہ اس دور میں ہوتے تو مذہبی مریض انہیں کیا کہتے )
حیاتی مماتی والی تقریریں کریں گے۔
نور و بشر
صلوة و سلام،
آمین بالجھر ،
فاتحہ خلف الامام ،
دعا بعد جنازہ ،
تراویح بیس ہیں یا آٹھ
تراویح ہے ہی نہیں ۔


جیسی بحثیں کر رہے ہوں گے۔
شدید گرمی میں بہت سے کپڑے کے ساتھ تعصب کا چشمہ پہنے ہوں گے۔
کثرت سے جھوٹ بولتے ہیں ۔
عزت صرف امیر آدمی کی کر تے ہیں۔
خود کو ابو حنیفہ  جبکہ سامنے والے تو نسیم چورن والا سمجھتے ہیں۔
مخصوص قسم کا لباس اور ٹوپیاں پہنے ہوں گے اور کوشش کریں گے پوری دنیا کو یہ ٹوپیاں پہنا کر شاہ دو لے کے چوہے بنا دیں ۔


ہر شخص انہیں مرتد مرتد سا نظر آتا ہے لیکن اس کے باوجود اس سے چندہ مانگتے ہیں ۔
بیٹا پیدا ہوتے ہی اس کے کان میں آزان بعد میں دیں گے لیکن اس کی جیب میں چندے کی رسید پہلے ڈال دیتے ہیں ۔
عام انسانوں سے ہٹ کر ابنارمل سا لباس اور وضع قطع اختیار کر لیتے ہیں ۔
اپنے ہی بیٹے کو تین چار تقریریں رٹوا کر مدرسے میں نائب مہتمم بنا دیتے ہیں ۔


لوگوں کے پلاٹوں پر مذہب کے نام پر قبضہ کر لیتے ہیں ۔
رہتے پاکستان میں ہیں لیکن دم بریلی شریف ،دیوبند شریف ،ایران شرہف اور سعودی عرب شریف کا بھرتے ہیں۔
فرقہ واریت کی آگ بھڑکا کر عمرہ ،حج اور زیارتوں کے لیے شام ،عراق ،ایران اور ہندوستان کا رخ کر لیتے ہیں ۔
اپنے مذہبی جلوس سڑکوں پر نکالیں گے اور ٹریفک جام کر کے خوش ہوں گے۔


مخالف فرقے کی عبادت گاہ کے سامنے خوب غل غپاڑا کریں گے ۔اگر کسی نے روک دیا تو گستاخ رسول کا پرچہ کٹوا دیں گے ۔
مسجد میں اونچی آواز میں لاؤڈ اسپیکر لگا کر نعتوں اور تقریروں کے نام پر چندہ نہ دینے والے لوگوں کو سونے نہیں دیں گے ۔
ایسے مریضوں کو جہاں کہیں دیکھیں ،ان سے دور رہیں ۔ ان کی کاروائیوں کے بارے میں قریبی پولیس اسٹیشن کو اطلاع کریں ۔


اراکین پارلیمان سے قانون سازی کرائیں لوگوں سے کہیں ان کی صحت کی بحالی تک تمام محلے والے باری باری مسجد میں خود ہی نماز پڑھا لیا کریں گے ۔
ان تمام حضرات کو بھی حق ہے وہ عام انسانوں کی طرح زندگی گزار سکیں ۔ اس لیے ان کے لیے بجٹ میں رقم مختص کی جائے اور فوری طور ضلعی سطح پر شعبہ امراض مذہب قائم کیا جائے،اگر اسپتالوں میں جگہ نہیں تو کوئی بات نہیں جیلوں میں ہی ایک دو بیرکس مختص کی جا سکتی ہیں ۔ ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہو گا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :