مسلمان ممالک کا معاشی اسلامی انڈکس میں برا حال

پیر 16 جون 2014

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

امریکہ کی جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے دو پروفیسروں ڈاکٹر شیرزادے رحمان اور حسین عسکری نے نہایت دلچسپ تحقیق کی ہے۔ انہوں نے ایک اسلامی انڈکس(Islamicity Index) ترتیب دیا ہے جس کے تحت ان ممالک کی فہرست مرتب کی گئی ہے جہاں معیشت، گورننس، انسانی و سیاسی حقوق اور امور خارجہ کے معاملات انسانی قوانین کے قریب تر ہیں۔ اس سلسلے میں معاشی اسلامی انڈکس اور عمومی اسلامی انڈکس ترتیب دیئے گئے ہیں۔

آپ کو یہ جان کر شدید حیرت ہو گی کہ مندرجہ بالا خیالات کو سامنے رکھتے ہوئے جو فہرستیں ترتیب دی گئی ہیں ان میں اسلامی ممالک کی کارکردگی بے حد خراب نظر آتی ہے۔ معاشی اسلامی انڈکس میں آئرلینڈ نے پہلا نمبر حاصل کیا ہے جبکہ اس کے بعد ڈنمارک، لکسم برگ,سویڈن، امریکہ، نیوزی لینڈ، سنگاپور، فن لینڈ اور بیلجئم کا نمبر آتا ہے۔

(جاری ہے)

مسلم ممالک میں سب سے اوپر ملائیشیا 33ویں نمبر پر جبکہ سعودی عرب 91 ویں اور قطر 111 ویں نمبر پر آئے ہیں۔

دوسری جانب عمومی اسلامی انڈکس میں بھی صورتحال کچھ زیادہ مختلف نہیں، اس میں نیوزی لینڈ پہلے نمبر پر اور اس کے بعد لکسم برگ، آئرلینڈ، آئس لینڈ، فن لینڈ، ڈنمارک، کینیڈا، برطانیہ اور پھر آسٹریلیا کو رکھا گیا ہے۔ مسلم ممالک میں ملائیشیا کا نمبر 38 جبکہ کویت کا 48 ہے اور ٹاپ 50 یں یہ دو اسلامی ممالک ہی جگہ بنانے میں کامیاب ہو سکے ہیں۔ تحقیق کاروں کا کہنا ہے کہ اگر کسی ملک میں کرپشن ہو، غیر منصف حکمران ہوں، قانون سب کیلئے برابر نہ ہو، انتخاب کی آزادی نہ ہوا ور مذاکرات کی بجائے طاقت کے استعمال سے مسائل حل کئے جائیں تو بادی النظر میں ایسے معاشرے کو غیر اسلامی کہا جائے گا۔

ان کے مطابق افسوسناک بات یہ ہے کہ آج کل کے دور میں جو ممالک مسلم کہلاتے ہیں ان کے ہاں رائج نظام بالکل بھی اسلامی تعلیمات کے مطابق نہیں ہے۔
صاحبو! یہ انڈکس بذات خود مسلمان ممالک کیلئے سوچ بچار کا باعث بھی ہے کیونکہ اسلامی ریاست کے ابتدائی تصورات میں جن امور پر توجہ دینے کی ہدایت کی گئی وہ اول تو اسلامی ممالک میں نظر نہیں آتے اگر نظربھی آتے ہیں توان کا معیار عام آدمی اور حاکم کیلئے مختلف ہے۔

سعودی عرب اسلامی ممالک کی فہرست میں اول نمبرپریوں بھی ہے کہ یہاں کعبة اللہ ‘ مدینہ منورہ موجود ہیں جنہیں رسول مکرم صلی اللہ علیہ والہ کے دور کا دارالخلافہ مانا گیا اور آج تک دونوں مرکز اسلام کی حیثیت کے حامل ہیں‘ جبکہ دیگر اسلامی ممالک کی صورتحال بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ ایران‘ عراق‘ شام ‘مصر ‘یمن‘ افغانستان‘ پاکستان ‘لیبیا‘ ملائیشیا‘ عرب امارات‘ انڈونیشیا ‘نائیجیریا سمیت تمام ممالک میں انسانی حقوق‘ عوام کیلئے حکومتی سہولیات پر مبنی ترجیحات کی صورتحال انتہائی خراب ہے۔


اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کیاجائے تو اسلام نے انسانوں کیلئے جن ترجیحات کو اہمیت دی ہے ‘عام شہری کیلئے روزگار‘ رہائش کی سہولیات کاتصور اسلامی ریاست میں ہوناچاہئے وہ کم ازکم موجودہ اسلامی دنیا میں نظرنہیں آتا ۔
دوسری جانب فلاحی ریاست کے تصور پر بھی کوئی ملک اس وقت پورا اترتا دکھائی نہیں دیتا کہ ان ملکوں میں عوامی رفاح کیلئے کام ہورہاہے تو انصاف کافقدان ہے‘ کیونکہ اسلامی تعلیمات میں انصاف کو بنیادی اہمیت دی گئی ہے تاہم یہ کمزوری بہت سے اسلامی ممالک میں پائی جاتی ہے۔


برطانوی سامراج نے شکست وریخت کے بعد جب اپنے ڈھانچے کی از سر نومرمت چاہی تو پھر عالی دماغ لوگوں پر مبنی کئی ”تھنک ٹینک“ مسلسل سوچ بچار کرتے رہے‘ سلطنت کی ترجیحات طے کرنے کیلئے کئی طرح کے مشورے سامنے آئے جن میں تعلیمی ترجیح کی بھی بات ہوئی تو کسی نے معاشی نظام کی ترویج کامشورہ دیا ‘ لیکن بالآخر ”عدل فاروقی “ کا بنیاد بناکر انصاف کی فراہمی کو ترجیح بنایاگیا اورآج دنیا گواہ ہے کہ برطانیہ نے اپنا راستہ نہیں چھوڑا۔


ماضی میں یہ بھی پڑھتے رہے کہ بھارت ماتا کے بانی گاندھی نے اپنی کابینہ کے اجلاس سے خطاب میں کہاتھا کہ میرے سامنے سادگی کے حوالے سے کئی دوسری مثالیں موجودہیں لیکن میں پھرمسلمانوں کے خلفاء حضرت ابوبکر صدیق‘ حضرت عمرفاروق  کا ہی حوالہ دونگا کہ دونوں نے اپنے ادوار میں سادگی کی ایسی مثالیں پیش کیں کہ اس کے بعد اورنہ اس سے پہلے کوئی پیش کرسکا ہے
صاحبو! یہ ایک طویل بحث ہے جس پر بات کرنے کیلئے کئی صفحات درکار ہونگے اس کے لئے علماء کرام کی خدمات بھی حاصل کی جاسکتی ہے اوراسلامی معیشت کی ترویج کے حوالے سے نامی گرامی معیشت دانوں سے رابطہ بھی کرنا پڑسکتا ہے کہ ایک حقیقی فلاحی ریاست ہے کیا؟ جس کاتصور اسلام نے پیش کیا؟؟ یقینا ہمارے سامنے اسلاف کی قربانیوں کاذکر ہے ‘ ان کی خدمات کیلئے بھی دور جانے کی ضرورت نہیں پڑیگی؟ پھر موجودہ دور میں ان کے دور کے اقدامات کا موازنہ کرنے کے بعد لائحہ عمل تیارکیاجاسکتا ہے کہ حقیقی معنوں میں فلاحی ریاست ہوتی کیا ہے؟؟ کیا محض عنان اقتدار سنبھال کر سابقہ روش پرچلتے ہوئے عوام کے جان ومال کے تحفظ ‘انہیں شہری آزاد ی کی سہولت دئیے بناکوئی ریاست فلاحی مملکت کا تصور پیش کرسکتی ہے ؟یقینا ایسا نہیں ہے‘اسلام نے مذہب کی بنیاد کو ایک طرف رکھتے ہوئے ہرشخص چاہے وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم‘ اس کے حقوق کاتعین کیا ہے‘ اس کیلئے آزادی کاایک فارمولہ طے کیا ہے ؟؟ سوچئے کہ آج کے مسلمان ممالک میں اس فارمولے پر کس حد تک عمل جاری ہے ؟ اگر جواب نفی میں ہوتو پھر اسلامی دنیا کے حاکمین کو مل بیٹھ کر سوچنا ہوگا کہ وہ کیسے اس تصورکو عملی شکل میں ڈھال سکتے ہیں؟؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :