Heroes Never Die

ہفتہ 14 جون 2014

Farrukh Shahbaz Warraich

فرخ شہباز وڑائچ

یہ 6 جنوری 2014 کی صبح کا واقعہ ہے ،خیبر پختونخواہ کے ضلع ہنگو میں گورنمنٹ ہائی سکول ابراہیم زئی میں بچے معمول کے مطابق سکول جا رہے تھے۔انھی بچوں میں اعتزازحسن بھی اپنے دوستوں کے ہمراہ علم حاصل کرنے کی تمناء لیے سکول کی طرف رواں دواں تھا۔یہ علاقہ پسماندہ علاقوں میں شمار کیا جاتا ہے۔کسی بڑے شہر کے سکول کی طرح یہ سکول بھی آسائش و سہولیات سے لیس نہیں ہے۔

اس دوران اعتزاز نے ایک اجنبی شخص کو جس نے اسی کی سکول کی یونیفارم پہن رکھی تھی،سکول جانے والے بچوں سے قریب واقع سکول کاپتہ دریافت کر رہا تھا۔اعتزاز نے اس اجنبی نوجوان کو مخاطب کر کہ کہا آپ تو ہمارے سکول کے طالبعلم نہیں،جس پر اس مشکوک نوجوان نے جواب دیا وہ اسی سکول کا طالبعلم ہے۔اب وہ مشکوک نوجوان تیزی سے سکول کی طرف بڑھنے لگا تھا،اعتزاز کے دوستوں نے اسے خبردار کیا کہ یہ خود کش بمبار بھی ہو سکتا ہے تم پیچھے ہٹو،لیکن اس نے جواب دیا آپ لوگ پیچھے ہٹ جائیں میں اس کو قابو کرنے کی کوشش کرتا ہوں ورنہ یہ سکول کے اندر جاکر تباہی مچا دے گا۔

(جاری ہے)

اعتزاز نے آگے بڑھ کر اس نوجوان کو روکنے کی کوشش کی اس 15سالہ بہادر بچے کا شک صحیح نکلا مشکوک نوجوان خودکش بمبار تھا،اس نے جب محسوس کیاکہ یہ بہادر بچہ اس کے ناپاک عزائم کو کسی صورت کامیاب نہیں ہونے دے گا تو خودکش بمبارنے اپنے آپ کو دھماکے سے اڑا لیا۔ خود کش بمبار کا ٹارگٹ سکول اسمبلی تھا جس میں ہزار کے لگ بھگ بچے شریک تھے۔یہ بہادر بچہ اپنی ماں کو رلا کر سینکڑوں ماؤں کو رلانے سے بچا گیا۔

پندرہ سالہ اس بچے نے اپنی عمر سے بہت بڑا کام کر دکھایا،شجاعت کی ایسی لازوال مثال قائم کی کہ رہتی دنیا اس پر فخر کرے گی۔
25 مئی2013 کو گجرات کے گاؤں کوٹ کگھہ روڈ پر صبح جناح پرائیوٹ پبلک سکول منگووال کے 24 بچوں کو اور خاتون ٹیچر کوعرفان نامی ڈرائیور وین پرسکول لارہا تھا کہ اچانک وین سے آگ اور دھواں اٹھنے لگااور اس کے ساتھ ہی دل دہلا دینے والی چیخوں سے فضاء گونجنے لگی۔

پھر دیکھتے ہی دیکھتے آگ اتنی بڑھکی کہ 17ننھی کلیاں آگ میں جل گئیں۔شعلے برساتی آگ جن بچوں کو جلا کر راکھ کر رہی تھی تو وین ڈرائیور نے اپنی جان بچانے میں عافیت جانی جبکہ دوسری طرف خاتون ٹیچر سمیعہ نورین جو اپنی جان بچا سکتی تھی ۔آگ کے شعلوں میں سے بچوں کو نکالتی رہی۔ننھی جانوں کو بچاتے بچاتے اپنی جان بھی انھی ظالم شعلوں کے سپرد کر دی۔

استاد ہونے کا فریضہ کچھ اس طرح سے ادا کیا کہ بچوں کو زندگی دیتے دیتے سمیعہ نورین نے اپنی زندگی قربان کر دی۔یہ عظیم معلمہ جماعت اسلامی کی کارکن تھیں۔
2جون 2014 کو کراچی کے نجی سکول عثمان پبلک سکول کا ایک گروپ مطالعاتی دورے پر ناران کاغان جا رہا تھا کہ بالا کوٹ کے مقام پر پیر کی دوپہر میٹرک کا طالبعلم سفیان عاصم پاؤں پھسل جانے کے باعث دریائے کنہار میں جا گرا۔

نصراللہ شجیع جو سکول کے پرنسپل بھی تھے ،استاد اور طالبعلم کے رشتے کو اتنا مقدس جانا کہ بغیر یہ سوچے سمجھے کہ میری جان بھی جا سکتی ہے۔دریا میں ڈوبنے والے طالب علم کی جان بچانے کے لئے دریا میں چھلانگ لگا دی۔طالب علم کی جان بچاتے بچاتے خود کو سرکش لہروں کے حوالے کر دیا۔
نصراللہ شجیع 1970 میں کراچی کے علاقے حیدر آباد کالونی میں پیدا ہوئے۔

دور طالب علمی میں اسلامی جمیعت طلبہ سے منسلک رہے،جوشیلی طبیعت کے مالک،ہمت اور پختہ عزم سے بھرپور اس نوجوان نے طلبہ سیاست میں بھرپور کردار ادا کیا۔نصراللہ شجیع جماعت اسلامی کراچی کے نائب امیر تھے۔2002کے عام انتخابات میں ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے حصہ لیا صرف 30سال کی عمر مین سندھ اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔سندھ اسمبلی میں متحدہ مجلس عمل کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈرکی حیثیت سے پسے ہوئے طبقوں کی گرجدار آواز بنے۔

نصراللہ شجیع کی زندگی جدوجہد سے بھرپور تھی۔چاہے وہ طالب علمی کا زمانہ ہو یا سیاست کا دور ہر جگہ دوسروں کے حقوق کی آواز بلند کرتے نظر آئے۔اس حادثے کے دن سے آج کے دن تک میں یہی سوچتا رہا اس زوال پذیر معاشرے میں جہاں اساتذہ،ڈاکٹرز،وکلاء سیاستدان غرضیکہ ہر شعبے میں کرپٹ لوگوں کی بہتات نظر آتی ہے۔پستی کی طرف تیزی سے جاتے ہوئے اس معاشرے میں کوئی سیاستدان کسی کے لئے اپنی جان قربان کر سکتا ہے؟ایک لمحے کے لئے نصراللہ شجیع کو استاد کے روپ میں دیکھیے وہ بچے کتنے خوش قسمت ہوں گے جن کو ایسا نیک سیرت انسان پڑھاتا ہوگا۔

نصراللہ شجیع آپ کتنے بڑے انسان ہیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتے ہوئے اس ظالم سماج کو استاد لفظ کا تقدس اور اس کی شان بتاگئے۔نصراللہ شجیع آپ نے صحیح معنوں میں معلم کا فرض نبھایا۔بھیڑ یوں کے ہجوم میں آپ جیسے فرشتہ صفت انسانوں کی شدید کمی ہے۔آپ بارش کا پہلا قطرہ ہیں وہ قطرہ جس سے آغاز ہوتا ہے،وہ قطرہ جو خود مٹی میں مل جاتا ہے لیکن حبس زدہ معاشروں کی فضاء بدل دیتا ہے،وہ قطرہ جو اپنے آپ کو قربان کر کے تبدیلی کا محرک بنتا ہے۔

تھینک یو نصراللہ شجیع ہمیں پھر سے بتانے کے لئے آج بھی استاد کا رشتہ زندہ ہے،آج بھی انسانیت سانس لے رہی ہے۔اعتزاز حسن،سمیعہ نورین،نصراللہ شجیع ہمیں تم پر فخر ہے ۔پاکستان کو تم پر فخر ہے،
تم ہمارے ہیرو ہو۔پتا ہے ہیرو کبھی نہیں مرتے،جی ہاں کبھی نہیں۔۔۔۔۔!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :