جیفرسن،لیٹنر اور عامر باجوہ!

ہفتہ 14 جون 2014

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

تھا مس جیفر سن امریکا کا تیسرا صدر تھا ،وہ 1743میں پیدا ہوا اور 1826میں وفات پائی ۔ وہ 1801سے لے کر1809تک امریکا کا صدر رہا ۔جیفر سن کی زندگی بڑی دلچسپ تھی اور وہ ہمہ جہت شخصیت کا مالک تھا۔اس کا حافظہ بڑا شاندار تھا اور اسے اپنے ایک ایک وزیر اور مشیر کے نا م زبانی یاد تھے ،اسے مطالعے کا بھی بڑا شوق تھا اور اس نے دنیا بھر کا لٹریچر پڑھ ڈالا تھا ،اسے انگریزی ،لاطینی ،یونانی ،فرانسیسی ،اسپینی ،اطالوی اور اینگلو سیکسن زبانو ں پر یکساں عبور حاصل تھا اور وہ ان تمام زبانوں میں بلا تکلف گفتگو کرتا چلا جاتا تھا ۔وہ انتہا درجے کا علم دوست تھا اوراس نے علم اور مطالعے کو اپنی زندگی کا اوڑھنا اور بچھو نا بنا لیا تھا ۔جیفرسن کا جب آخری وقت قریب آیا اس نے اپنے پرسنل سیکرٹری کو بلوایا اور اسے وصیت لکھنے کا حکم دیا ،سیکرٹری نے قلم کا غذ سنبھالا اور دوزانوں ہو کر بیٹھ گیا ،جیفر سن نے اپنی پوری قوت گویائی کو جمع کیا اور بولا ”میرے مرنے کے بعد میری قبر پر جو کتبہ لگا یا جائے اس پر یہ مت لکھنا کہ وہ امریکا کا صدر تھا بلکہ لکھنا وہ ورجینیا یو نیورسٹی کا بانی تھا چناچہ اس کی وصیت کے مطابق اس کی قبر پر جو کتبہ نصب ہے اس پر یہ الفاظ درج ہیں ”here was buried thomes jefferson......father of the university of verginia“یعنی یہاں یونیورسٹی آف ورجینیا کا بانی مدفون ہے ۔

(جاری ہے)


تھامس جیفرسن کے بعد اگر آپ گوت لب لیٹنر کی کہانی بھی پڑھ لیں تو بات آسان ہو جائے گی ۔گوت لب لیٹنر 1840میں بوڈا پسٹ میں پیدا ہوا ۔وہ ایک جرمن نسل یہودی تھا اور اس میں مختلف زبانیں سیکھنے کی حیرت انگیز صلا حیت موجو د تھی ۔23برس کی عمر میں وہ اورنٹئل سیکشن کا پروفیسر ڈین ،ماسٹر آف آرٹس ،لسانیات کا ماہر اور قانون کا ڈاکٹر بن چکا تھا ۔لندن میں ایک واکنگ نام کا ہوسٹل تھا جس میں اکثر مسلمان طلباء رہائش پزیر تھے لیٹنر نے 4500پاؤنڈ میں یہ ہاسٹل خریدا اور اسے اورنٹئل درسگاہ بنا دیا ۔اس نے اس کے ساتھ ایک مسجد بھی بنوادی ۔گورنمنٹ کالج لا ہور کے لیے پرنسپل کا اشتہار دیا گیا تو لیٹنر تمام امیدواروں پر بازی لے گیا ۔شاید وہ گورنمنٹ کالج کا سب سے کم عمر پرنسپل تھا ۔وہ خدادا د صلاحیتوں کا مالک انسان تھا اور اسے لاہور میں کسی پبلک سیکٹر یونیورسٹی کے نہ ہونے کا بہت افسوس تھا۔ وہ چاہتا تھا اتنے بڑے شہر کے لیئے کو ئی پبلک سیکٹر یونیورسٹی ضرور ہو نی چاہیے ۔اس نے وقت کی گورنمنٹ سے اپیل کی لیکن اس کی شنوائی نہ ہو ئی ، اس نے لو گوں سے چندہ جمع کرنا شروع کردیا ۔لو گ لیٹنر کے علمی کا رناموں اور اس کی خدادا صلاحیتوں کے معترف تھے ۔بہت قلیل عرصے میں لیٹنر کے پاس 32000ہزار پاؤنڈ جمع ہو گئے اور اس چندے سے اس نے ایشیا کی عظیم یونیورسٹی پنجاب یو نیورسٹی کی بنیادرکھی۔پنجاب یونیورسٹی کا شمار جنوبی ایشیا کی بڑی یونیورسٹیوں میں ہو تا ہے اور راب تک ہزاروں لا کھوں طلباء وطالبات اس یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کر کے جا چکے ہیں اس وقت بھی تقریبا 32000ہزار طلبا ء و طالبات اس یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں ۔
جیفرسن اور لیٹنریہ وہ لو گ تھے جو تعلیم اوریو نیورسٹیوں کی اہمیت سے واقف تھے اور انہوں نے تاج محل اور مقبرے بنانے کی بجائے تعلیمی ادارے اور ہسپتال بنانے کو ترجیح دی تھی۔یونیورسٹیا ں ریاست کے وہ ادارے وہ تے ہیں جہاں سے کسی ملک کے لیئے نئی قیادت جنم لیتی ہے، آپ کسی ملک کی یونیورسٹیوں کی حالت کو دیکھ کر اس ملک کی ترقی کا انداز لگا سکتے ہیں ۔ یونیورسٹیاں ہمارے آج کے کالم کا موضوع نہیں اور اس موضوع پر گفتگو ہم کسی اور دن کے لئے اٹھا رکھتے ہیں ۔آج میں ہم پنجاب یو نیورسٹی کے ایف ایم ریڈیو104-6کے بارے میں بات کریں گے۔ہمارے موجودہ ایف ایم ریڈیو اسٹیشنزکی غیر معیاری اور غیر اخلاقی نشریات کے باوجود تعلیمی اداروں میں قائم ایف ایم ریڈیو اسٹیشنز کی اہمیت سے انکا ر نہیں کیا جا سکتا ۔ پنجا ب یونیورسٹی کا ایف ایم کسی بھی تعلیمی ادارے میں قائم ہو نے والا پہلا ایف ایم ریڈیو تھا جس کا سارا کریڈٹ ادارہ علو م ابلاغیات کے سابق ڈائریکٹر ڈاکٹرشفیق جالندھری کے سر جا تا ہے ۔ ڈاکٹر صاحب نے اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو کے تعاون سے تمام ضروری اور انتہائی مہنگے آلا ت فری حاصل کیئے اوربہت کم بجٹ میں ایف ایم ریڈیو قائم کر کے کمال کر دیا ۔بہت کم لو گ جانتے ہیں کہ اگر ڈاکٹر شفیق جالندھری کو اسسٹنٹ پروفیسر عامر محمود باجوہ کی خدمات حاصل نہ ہو تیں تو یہ شاید یہ ایف ایم اپنے قیا م سے پہلے ہی اپنا وجو د کھو بیٹھتا۔چرچل نے کہا تھا ایک مشنری انسان اپنے پورے ڈیپارٹمنٹ کے نمائندگی کرتا ہے اور وہ پورے ڈیپارٹمنٹ کی پہچان بن جاتا ہے ۔ فنڈز کی کمی پبلک سیکٹریو نیورسٹیوں کا ہمیشہ سے مسئلہ رہاہے ، ایف ایم کے آلات کی دستیابی کے بعد ان کی تنصیب اور باقاعدہ نشریات کا آغاز سب سے بڑا مسئلہ تھالیکن عامر محمود باجوہ نے انتہائی محدود وسائل کے باوجود ایف ایم کو آپریشنلائز کر کے واقعی کمال کر دیا ۔ایف ایم کے لیئے کو ئی علیحدہ سے بلڈنگ نہیں تھی لہذٰاایک پروفیسر کے کمرے کواسٹوڈیو اور باتھ روم کو کنٹرول روم میں تبدیل کر کے باقاعدہ نشریات کا آغاز کر دیا گیا ۔پھراسی عامر محمود باجوہ نے 2005کے زلزلے میں مظفر آباد کی پہاڑیوں میں انہی آلات کے ساتھ ”زندگی پھر سے مسکرائے گی “کے نام سے نشریات کا آغاز کیا اور مسلسل تین ماہ تک بے بس ،مجبور اور لاچار انسانوں کوپھر سے جینے کا درس دیا اور انہیں زندگی کی ایک نئی کرن دکھائی جس کے اعتراف میں اقوام متحدہ نے انہیں ”آوٴٹ اسٹینڈنگ پرفارمنس ایوارڈ“سے نوازا ۔پنجاب یونیورسٹی کے ٹی وی اسٹوڈیو کا قیام بھی عامر محمود باجوہ کی مشنری سوچ کا عکاس ہے۔ آڈیو وڈیو لیب کا قیام ،اس کی انسٹالیشن ،ملٹی میڈیا لیب کا قیام ،ماسٹر ان فلم اینڈ ٹی وی کو رس کی ترتیب اور ایڈوانس بورڈ آف اسٹڈیز سے اس کی منظوری ،پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ ان ملٹی میڈیا پروڈکشن کا اجراء یہ وہ سب کارنامے ہیں جو عامر محمود باجوہ کے کھاتے میں جاتے اور اس کا قد بڑھاتے ہیں ۔عامر محمود باجوہ کا قابل تحسین کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی ٹی وی کا الحاق ورچوئل یونیورسٹی سے کروایا جس کے نتیجے میں p.u tvکی تعلیمی نشریات دنیا کے ستر سے زائد ممالک میں دیکھی جا سکتی تھیں لیکن افسوس ان کی یہ کارنامہ بھی سیاست کی نذر ہو گیا ۔
میں کبھی کبھی سوچتا ہوں اگر ہمیں پاکستان کے ہر ڈیپارٹمنٹ میں تھامس جیفرسن ، لیٹنر اور عامر محمود باجوہ جیسے دوچار لوگ مل جائیں تو شاید اس ملک کی تقدیر بدلنے میں ذیادہ وقت نہ لگے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :