سچ بولنے والے پاگل

بدھ 11 جون 2014

A Waheed Murad

اے وحید مراد

”یونان کا ایک نامور فلسفی عوام کی ناقدری سے عاجز آگیا ، اس نے محسوس کیاکہ لوگ فکرو نظر اورعلم وحکمت پر توجہ نہیں دیتے ، ان سے علم کی بات کرو تو مذاق اڑاتے ہیں، کچھ تو گالیاں دیتے ہیں اور بعض پتھراؤ بھی کرتے ہیں۔ تنگ آئے فلسفی نے سب کچھ چھوڑ کر رقص وسرود کا ایک طائفہ بنایا، پھٹے پرانے کپڑے پہن کر ڈھول گلے میں ڈالا، چہرے پر بھبھوٹ مل لی، ہاتھوں میں کنگن ڈال لئے، گانے بجانے کا سوانگ رچایا اور گلیوں بازاروں میں پاگلوں کی طرح ناچنے لگا، وہ رقص وغنا کے ابجد سے بھی واقف نہ تھا لیکن رسمی دانش وروں نے سر پہ اٹھالیا۔

اس کے رقص پر ماہرانہ تبصرے اور تجزیے ہونے لگے کہ اس فن میں اس نے نئی راہیں نکال لی ہیں، نئے راستے تلاش کرلیے ہیں، تب وہ فلسفی پاگل تھا ، اب مجتہد ہے۔

(جاری ہے)


جب یونان میں اس کے اس نئے روپ کا شہرہ عام ہوگیاتو اس نے اعلان کیا کہ فلاں دن اور فلاں وقت وہ اوپن ائیر تھیٹر میں اپنے طائفے سمیت رقص وسرود کے نئے انداز پیش کرے گا، اس اعلان پر تمام ایتھنز( یونان کا شہر) ٹوٹ پڑا، اس نے رقص کا نیا انداز پیش کیا، سرتا پا دیوانہ ہوگیا، ناچ نہیں جانتا تھالیکن پاگلوں کی طرح ناچتا رہا،عوام و خواص اور امرا وشرفا لوٹ پوٹ ہوگئے، جب وہ تھک گیا اور محسوس کیا کہ جو لوگ اس کے سامنے بیٹھے ہیں اس کی مٹھی میں تو یکایک سنجیدہ ہوگیا، اس نے کہا:
یونان کے بیٹو، میں تمہارے سامنے علم ودانائی کی باتیں کرتا رہا، میں نے تمہاری برتری کیلئے فکرونظر کے موتی بکھیرے، تم نے میری باتیں سننے سے انکار کردیا، میرا مذاق اڑایا، مجھے گالیوں سے نوازا، پتھراؤ کیا اور خوش ہوتے رہے، تم نے حق وصداقت کی ہربات سننے سے انکار کیا، مجھے پاگل قراردے کرخود پاگلوں کی سی حرکتیں کرتے رہے، تم نے اپنے دماغ حکمرانوں کے پاس رہن رکھ دیے، تمہارے جسموں کی طرح تمہاری عقلیں بھی امرا و حکام کی جاگیر ہوگی ہیں۔


میں عاجز آگیا تویہ روپ اختیار کیا، میں فلسفی کی جگہ بھانڈ بن گیا، مجھے کچھ معلوم نہیں کہ ناچ کیا ہوتا ہے اور گانا کسے کہتے ہیں، لیکن تم نے میرے اس بھانڈ پن پر تحسین و ستائش کے ڈونگرے برسائے،پہلے تم میں سے چار آدمی بھی میرے گرد جمع نہیں ہوتے تھے، آ ج انسانوں کا ایک جم غفیر میرے سامنے بیٹھا ہے، گویا تم نے مٹ جانے والی قوم اور فنا ہہوجانے والے معاشرے کی تمام نشانیاں قبول کرلی ہیں۔

تم ایک انحطاط پذیر ملک اور علیل روحوں کا انبوہ ہو۔
تم پر خدا کی پھٹکار ہو، تم نے دانائی کو ٹھکرادیا اور رسوائی کو پسند کیا۔ تم خدا کے غضب سے کیوں کر بچ سکتے ہو کہ تمہارے نزدیک علم ذلیل ہوگیا اور عیش شرف و آبرو۔ جاؤ میں تم پر تھوکتا ہوں، میں پہلے بھی پاگل تھا آج بھی پاگل ہوں۔
جب علم ونظر اور فکر ومعروف کو یہ مرحلہ جانکنی پیش آجائے۔

خوشامد کا بول بالا ہو اور حکمت ودانائی احمقوں کے گھرانے میں چلی جائے اور وہ اپنے دماغ کی علالت کو صحت کانام دینے لگیں۔ علم کے مالک جاہل، ادب کے جارہ دار گاؤدی، سیاست کے متولی کاسہ لیس اور دین کے مسند نشین بکاؤ ہوجائیں تو اس فضا میں یونان کے فلسفی کی طرح پاگل ہوکر ناچنا بھی عین عبادت ہے اور نہیں تو اس سے خدا کا غضب ہی ٹھنڈا ہوتا ہے“۔


یہ تحریر میری نہیں، نہ یہ واقعہ کسی تاریخ کی کتاب سے اٹھاکر یہاں پیش کیاہے۔ یہ ایک اخبار کا اداریہ ہے، آغا عبدالکریم شورش کاشمیری کی کاوش ہے۔ ان کے ہفت روزہ اخبار ’چٹان‘ نے دس اپریل 1967کو یہ ایڈیٹوریل اس وقت چھاپا جب ملک پر جنرل ایوب خان کی آمریت کاراج تھا، اخبارات اسی طرح فوجی ڈکٹیٹر کی مرضی کے مطابق شائع ہوتے تھے جیسے انیس اپریل2014کو حامد میر قاتلانہ حملے کے بعدتین بڑے ٹی وی چینل خبریں ’نشر‘ کررہے ہیں۔

شورش کاشمیری نے سنسرشپ سے بچنے کیلئے ایسی ادبی تحریر کے ذریعے اپنی بات لوگوں تک پہنچائی۔ اس وقت تک کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھااداریہ ایسے بھی لکھا جاسکتا ہے۔
پاکستان میں پریس پر پابندیوں سے متعلق تاریخ بھری پڑی ہے، ایک وقت تھاکہ تمام اخبارات حکومت نے اپنے قبضے میں لے لیے تھے، صحافیوں نے وہ عہد بھی دیکھا کہ کسی اخبار میں کوئی ایک جملہ پہلے سے اجازت لے کر اور منظور کرائے بغیر شائع نہیں ہوسکتا تھا۔

ایساہوتا تو نہ صرف اخبار بند ہوتا بلکہ پرنٹنگ پریس بھی بحق سرکار ضبط کرلیا جاتا۔ ایوب خان اور ضیاء الحق کی فوجی حکومتیں ہی نہیں بھٹو سرکار اور نوازشریف کی پہلی اور دوسری حکومت بھی ذرائع ابلاغ میں آزادی اظہار پرحملے کرتی رہی۔ مگر اس وقت تک دیوتاؤں کا تصور عام نہیں ہوا تھا، اگر تھا بھی تو وہ براہ راست معاملات ہاتھ میں نہیں لیتے تھے۔

یہ عہد ہمیں دیکھنا نصیب ہوا ہے کہ وہ آسمانوں سے زمین پر اتر کربراہ راست مقابلے کیلئے آگئے ہیں۔
میں دیوتاؤں کے بارے میں زیادہ نہیں جانتا تھا، مگر پھر حامد میر پر حملہ ہوگیا، اور جیوز نیوز نے گستاخی کردی۔دیوتا غضب ناک ہوگئے، اخبارات سے بھری گاڑیاں نذر آتش کی جانے لگیں اور ٹی وی چینل بند کردیا گیا۔ دیوتاؤں کی طاقت کی کہانیاں حقیقت دکھائی دینے لگیں۔

ٹی وی چینل کو نشریات کی بندش اور اخبارات کو جلنے سے بچنے کیلئے شورش کاشمیری کے ’چٹان‘ کا اسلوب اختیار کرنا پڑے گا۔ اب ہمیں بھی ایسا ہی سچ بولنا پڑے گا جس طریقے سے ایک راہ چلتے حق پرست نے بغداد کے گورنر حجاج کے سامنے بولا تھا۔ آئیے ، سچائی کے راستے بھی نکلتے ہیں، یہ واقعہ بھی آمریت کے دور میں ’چٹان‘ کے ضمنی اداریے کے طور پر شائع ہوچکا ہے۔


’حجاج بن یوسف اپنے مصاحبوں کے ساتھ گھوم پھر رہا تھا، اس نے ایک راہ گیر سے پوچھا، تمہارا حجاج کے متعلق کیا خیال ہے؟۔
راہ گیر نے جواب دیا، صاحب کچھ نہ پوچھئے وہ پرلے درجے کا سفاک اور اسفل ترین انسان ہے۔ حجاج نے مصاحبوں سے کہا، اسے ساتھ لے لو۔
وہ اسے لے کر آگے بڑھنے لگے تو راہ گیر نے حجاج کی جانب اشارہ کرکے مصاحبوں سے پوچھا، یہ کون ہے؟۔
ایک نے جواب دیا ۔۔ ’حجاج بن یوسف‘۔
وہ بھونچکا رہ گیا، فورا آگے بڑھ کر حجاج سے کہا، امیر ۔۔ مہینے میں تین دن پاگل رہتاہوں، اور آج اس حوالے سے میرا پہلا دن ہے۔
حجاج مسکرایا، مصاحبوں سے کہنے لگا، اسے چھوڑ دو۔
اور وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا نو دو گیارہ ہوگیا‘۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :