آسمان گر بھی سکتا ہے

بدھ 11 جون 2014

Hussain Jan

حُسین جان

ہمارے بہت سے دانشور اساتذہ پوری دُنیا کے لٹریچر،سیاست اوردیگر معاملات کو مواتر اپنے مطالعہ میں اہم جگہ دیتے ہیں ۔ مگر افسوس یہ کہ ان کے پاس پاکستان اور دوسرے اسلامی ممالک کے بارے میں پڑھنے کا وقت نہیں ۔ ایک عرصہ سے پاکستان میں نئے صوبوں کو لے کر شور برپا ہے۔ کسی کا کہنا ہے کہ زبان و کلچر کے نام پر الگ صوبے بننے سے کوئی آسمان نہیں گرتا اس پر بہت سے دوسرے ممالک کی مثالیں دے کر بات سمجھانے کی کوشش بھی کی جاتی ہے۔

اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ اگر رقبہ و آباد ی بڑھی ہو تو اُس کو مختلف صوبوں میں بانٹ دینا چاہیے ۔ اور دوسر ی طرف زبان اور کلچر کے نام پر بھی نئے صوبے بنانے میں کوئی مسئلہ نہیں۔ مگر نئے صوبے بنانے کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے ملکی حالات کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے اور مختلف پہلوؤں سے اُس کا جائزہ بھی لینا چاہیے۔

(جاری ہے)

ویسے تو کچھ لوگ ارسطو کے نظریا ریاست کوبھی مانتے ہیں کہ چند ہزار افراد پر ایک ملک کھڑا کر دیا جائے۔


سب سے پہلے تو یہ سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ ہمارا بنیادی مسئلہ ہے کیا۔ ابھی ہمارے پاس گنتی کے چار صوبے ہیں اگر گلگت بلتستان کو بھی شامل کر لیا جائے تو یہ پانچ بنتے ہیں۔ آپ اگر پنجابی ہیں تو آپ بلوچستان میں نہیں جاسکتے ،کراچی کا سفر آپ پر حرام ہے ،قبائلی علاقوں میں آپ نہیں جاسکتے ،KPKمیں پنجابیوں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

اور تو اور اب کچھ لوگ پنجاب کے لوگوں کو بھی آپس میں لڑانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم بچپن سے ایک لطیفہ سنتے چلے آرہے ہیں کہ کراچی جائیں گے جہاز پر اور آئیں گے اخبار میں۔ بلوچستان میں شناختی کارڈ دیکھ کر لوگوں کا قتل عام کیا جاتا ہے۔ کراچی میں نسل پرستی عروج پر ہے۔ اردو بولنے والے اسے اپنیمیراث سمجھتے ہیں اور اندرون سند ھ والے اس کو اپنی ملکیت گردانتے ہیں۔

کہنے کا مطلب ہے ہر بندہ اپنی اپنی بین بجا رہا ہے۔ اگر ان صوبوں کو مزید توڑا گیا تو حالات یہ ہو جائے گے کہ چند سو کلو میٹر کا سفر کرناناممکن ہو جائے گا۔
یہ مسئلہ صر ف پاکستان کے ساتھ نہیں بلکہ تمام اسلامی ممالک کے ساتھ ہے شام،عراق،افغانستان،لیباء،سعودی عرب،ترکی ایران سمیت تمام ممالک میں فرقوں کو لے کر ایک جنگ چھڑی ہوئی ہے قتل و غارت کا نا ختم ہونے والاسلسلہ چل رہا ہے۔

دوسری طرف غیر اسلامی ممالک ہیں جہاں امن و مان قائم ہے لہذا اگر وہاں زیادہ صوبے بنائے جاتے ہیں تو کوئی مسئلہ کھڑا نہیں ہوتا۔ ہمارے سامنے مشرقی پاکستان کی مثال بھی موجود ہے کہ لوگوں میں مغربی پاکستان کے خلاف اس قدر نفرت پھیلا دی گئی تھی کہ اس کا انجام ملک ٹوٹنے پر ہوا۔ بھارت میں بھی زبان و نسلی بنیاد پر صوبے بنائے گئے ہیں مگر وہاں یہ عالم نہیں تھا کہ دوسرئے صوبے سے آئے لوگوں کا شناختی کارڈ دیکھ کر گولی مار دی جائے ۔

دوسری طرف ہم دہشت گردی سے بری طرح گھِرئے ہوئے ہیں نئے صوبے بنانے سے مزید دہشت گردی بڑھنے کا اندیشہ رہے گا۔ ہمیں سب سے پہلے اپنے ملک سے دہشت گردی ختم کرنی ہو گی پھر نئے صوبوں پر بات ہوسکتی ہے۔ ہمارے ملک کا کوئی شہر ایسا نہیں جہاں دہشت گردوں کاراج نہ ہو یہ لوگ جب چاہتے ہیں حملہ کردیتے ہیں جس میں بے گناہ لوگ اپنی جانوں سے جاتے ہیں۔ اس وقت سب سے زیادہ شور جنوبی پنجا ب کو صوبہ بنانے کا ہے اور اخباری اطلاعات کے مطابق پنجابی طالبان کا سب سے زیادہ زور بھی جنوبی پنجاب میں ہے اگر ایسی صورتحال میں صوبہ بنا دیا جاتا ہے تو کیا طالبان کی جڑیں مزید مظبوط نہ ہوں گیں؟
ہم لوگ دو کشتیوں کے سوار ہیں ایک پاؤں لیفٹ ونگ میں تو دوسرا پاؤں رائٹ ونگ میں ہوتا ہے۔

اگر کوئی لبر ل بات کرئے تو اسلام مخالف قرار دے دیا جاتا ہے اگر کوئی مذہبی بات کرئے تو شخصی آزادی کا دشمن قرار دے دیا جاتا ہے۔ مختلف گروں میں بٹی ہوئی پاکستانی قوم کو اگر مزید صوبے مل جائیں تو پھر ہر طرف انتشار پھیلنے کا خدشہ بھی موجود ہے۔ جنوبی پنجاب نے بہت سے لیڈر پیدا کئے ہیں الیکشنز میں وہاں کے نمائندے بھی اسمبلی میں پہنچتے ہیں ہمارے ایک استاد صاحب کا کہنا ہے کہ یہ سیاستدان اپنی مرضی کا پٹواری اور تھانیدا لگوانے کے لیے اپنے لوگوں کو بڑئے شہروں میں گروی رکھ چھوڑتے ہیں ،تو کیا نئے صوبوں میں ایسے سیاستدانوں کا کردار ختم ہو جائے گا ،بالکل بھی نہیں بلکہ یہ مزید طاقتور ہو جائیں گے اور لوگوں کی زندگیاں مزید برباد کرئیں گے۔

جنوبی پنجاب کے لوگوں میں شرح خواندگی سب سے کم ہے اور یہ لوگ بار بار ایسے سیاستدانوں کو ہی ووٹ دیتے ہیں جن کا تعلق یا تو کسی پیر گھرانے سے ہو یا کوئی جاگیر دار۔ اگر ہم نیاء صوبہ بنانا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے ہمیں جنوبی پنجاب کے لوگوں کو تعلیم یافتہ بنانا پڑئے گا تاکہ وہ اپنا ووٹ سمجھ داری سے ڈالیں نہ کے کسی گدی نشین اور جاگیر دار کو۔


کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ نئے صوبے بننے سے آسمان نہیں گر جائے گا مگر یہ پاکستان ہے بھائی جسے 65سالوں میں نوچ نوچ کر کھایا گیا ہے یہاں اگر حالات کو بہتر کرنے سے پہلے صوبے بنائے گے تو آسمان گر سکتا ہے۔ جس ملک میں صاحب اقتداران کو سڑکوں پر نکلنے کے لیے پوری پوری فوج کی ضرورت ہو وہاں عام آدمی کا کیا حال ہو گا۔ پہلے ہمیں پاکستانی بننے کی ضرورت ہے جب تک ہم سندھی بلوچی پنجابی کے سحر سے نہیں نکلتے ہماری ترقی کی رفتار آگے جانے کی بجا ئے پیچھے ہی آئے گی۔

ہم موروثی سیاست کو تو ختم کر نہیں سکتے باقی کیا کریں گے۔ نئے صوبے بننے سے یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بیٹا ایک صوبے کا وزیر اور باپ دوسرئے صوبے کا وزیر اور تایا ملک کا وزیر آعظم ۔ لہذا جب تک ہم اپنے دوسرئے مسائل ختم نہ کرلیں تب تک صوبوں کی طر ف نہیں آنا چاہیے،اپنے اپنے علاقے کے مسائل کو اجاگر کرنا بری بات نہیں مگر اپنے علاقے کے لوگوں میں دوسرے علاقے کے لوگوں کے خلاف نفرت کے بیج بونا یہ کہاں کا انصاف ہے۔

یہاں 50فیصد لوگ غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں ،صحت کی سہولیات میسر نہیں، تعلیم کے دروازے صرف اخبارات میں اشہتارات کی حد تک کھلیں ہیں۔ عزت کے نام پر قتل عام کا سلسلہ چل رہا ہے۔ لوگوں کے پاس ضروریات زندگی پوری کرنے کے لیے پیسہ نہیں۔ بے روزگاری اپنی آخری حدوں کو چھو رہی ہے۔ مہنگائی کا جن روز کئی کئی لوگوں کو نگل رہا ہے۔ غیر ملکی سفروں پر رہتے ہوئے اپنے ملک پر تنقید کرنا بہت آسان ہے مگر ملک میں راہ کر عملی طور پر کچھ کرنااور بات ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :