بجٹ…عوام کو بہلانے کاجھنجٹ

بدھ 11 جون 2014

Zubair Ahmad Zaheer

زبیر احمد ظہیر

پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت نے بخیریت ایک سال پورا کر لیا ہے۔اور اس ایک سال میں نواز حکومت کو آیندہ مالی سال کا میزانیہ پیش کرنے کا بھی موقع مل گیا گزشتہ برس جو بجٹ تھا وہ سچ مچ پی پی حکومت کا تھا کیونکہ نواز حکومت کو برسراقتدار آئے ہوئے ابھی بہت کم عرصہ گزرا تھا۔موجودہ حکومت کی ایک سالہ کارکردگی کا غیر جانبداری سے تجزیہ کیا جائے تو حکومت کی کارکردگی اطمینان بخش ہے ۔

اطمینان بخش کا معنی یہ نہیں کہ حکومت نے دودھ اور شہد کی نہریں بہا دی ہیں بلکہ اطمینان بخش کا یہ حقیقی معنی مراد لیا جائے گا کہ کم از کم عوام نے ماضی کی عذاب حکومتوں سے نجات حاصل کر لی اور اب نوازشریف کے امن عمل نے بم دھماکوں کے خوفناک منظر نامے میں کچھ سانس بحال کرنے کا موقع فراہم کردیا ہے ۔

(جاری ہے)

جہاں تک حکومتی کارکردگی کے اثرات کا عوامی زندگی تک رسائی کا تعلق ہے یہ ہنوز دلی دور است کا مصداق بنے ہوئے ہیں ۔


ہمارے ہاں یہ غلط روش چل پڑی ہے کہ حکومتیں پانچ سال تک اپنی حقیقی کارکردگی دکھانے کے لیے مہلت مانگتی رہتی ہیں اور اندھے اعتمادکے دھوکے میں آنے والے عوام کو حقیقت اس وقت پتہ چلتی ہے جب حکومت اپنی آئینی مدت پوری کر لیتی ہے ۔اورارکان حکومتی بنچوں سے جا اپوزیشن نشستوں پر براجمان ہوجاتے ہیں ۔دور جانے کی ضرورت نہیں ۔مشرف نے 1999سے لے کر 2008تک نو سال تک ٹھونک بجا کر اور دھڑلے سے حکومت کی ۔

انہوں نے دعوے لاکھ کیے مگر جب گئے تو ان کی جانشین حکومت نے سب سے بڑے عوامی مسئلے کے حوالے سے یہ انکشاف کیا ہے توانائی بحران پر بجلی کی 4ہزار میگاواٹ تک کمی ہے اور حکومت نے نو سالوں میں کہیں بھی ایک میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی جسارت نہیں کی ۔اس تمہید کو بنیادبنا کر پی پی حکومت نے بھی عوام کو جلد از جلد اور بروقت سستی بجلی مہیا کرنے کواپنی پہلی ترجیح بنا لیا ۔

پاکستان اور عوام کی اس سب سے بڑی ضرورت کا حل راجہ رینٹل نے یہ ڈھونڈنکالا کہ کرایے کے مہنگے ترین بجلی گھر بھاری کمیشن پربیرون ملک سے خرید لیے ۔اور ان بجلی گھروں کے سہارے پی پی نے اپنا پنج سالہ دور پورا کر لیا اور جب پی پی کی حکومت اپنا بوریا بستر سمیٹ کر رخصت ہوئی تو نیشنل گرڈ میں ایک میگاواٹ پیداوار کا بھی اضافہ نہیں ہوا تھا ۔حکومتیں بڑھتی آبادی کی بنیادپر اگلے پانچ دس سالوں کی منصوبہ بندی اور اس ہدف کے حصول کی پیش بندی کرتی ہیں ۔

اور ہمارا باوا الٹا ہے کہ ہم پچھلے پندرہ سال سے بجلی کی شدید ضررورت کو بھی پورا کرنے سے قاصرہیں ۔اگلے برسوں کی منصوبہ بندی اور پیش بندی تو رہی ایک طرف ہم سب سے اہم ضرورت پوری کرنے سے قاصر ہیں ۔یعنی بجلی بحران میں ہمیں نوازشریف 1999میں جہاں چھوڑ کر گئے تھے اب صورت حال توانائی کے بحران پر اس سے زیادہ مختلف نہیں ۔15برس میں بحران کم نہیں ہوا مزید چوگنا ہوکر بڑھ گیا ہے ۔

حکومتیں آتی ہیں اور رخصت ہوکر پیا گھر سدھار جاتی ہیں ۔مگر مسائل جوں کے توں رہتے ہیں۔بجلی کی ایک مثال سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہماری حکومتوں کے بجٹ کی اصل صورت حال کیا ہے ۔جس طرح کسی سفیر کی سفارتی زبان صرف لفاظی کا چربہ ہوتی ہے اور اس میں معانی ومطالب ،ہزاروں ماہرین ،اورلاکھوں ڈکشنریوں کی مدد سے بھی تلاش نہیں کیے جاسکتے ۔

ویسے ہی حکومت کی بجٹ تقاریر الفاظ کا گورکھ دھندہ ہوتا ہے جسے عام آدمی سمجھ نہیں سکتا ۔عام آدمی صرف اتنا جانتا کہ ہر سال جون کے گرم موسم میں ایک دن ایسا آتا ہے جب حکومت کچھ اعلان کرتی ہے اور اس کے ساتھ ہی تمام اشیاء کی قیمتیں ایک دم آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں ۔جب دکاندار سے مہنگائی کا پوچھا جاتا ہے دکاندار ایک رٹا رٹایا جملہ بول دیتا ہے کہ بجٹ میں ٹیکس بڑھ گیا ہے ۔

عوام نے یہ سمجھ لیا ہے کہ جون کے گرم موسم میں حکومت کا دماغ بھی کھول جاتا ہے اور وہ اشیاء مہنگی کردیتی ہے ۔یہ ہے عوام کی نظر میں بجٹ کی حقیقی صورت حال ۔بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہر سال جوں میں حکومت کو عالمی بینک اس بات پر مجبور کردیتا ہے کہ وہ ملک میں مہنگائی عام کردے ۔معاشیات کے ماہرین بھی بجٹ پر واضح طور پر دو حصوں میں بٹ جاتے ہیں ۔

حکومت کی آنکھ سے دیکھنے والے ماہرین اقتصادیات کو بجٹ سارے عوامی دکھوں کا مداوا نظرآتا ہے ۔اور آزادقسم کے ماہرین شماریات کو بجٹ برائے نام اور عوام دشمن دکھائی دیتا ہے ۔ ان تمام دعووں کے باوجود ایک بات سب حکومتوں کے بجٹ میں مشترک نظر آتی ہے کہ حکمرانوں کے پیٹ بھر کر توندیں باہر نکل آتی ہیں ۔ایک حالت نہیں بدلتی تو بے چارے عوام کی نہیں بدلتی ہے ۔

بجٹ کے عام آدمی کی زندگی پر اثرات ہمیشہ منفی رہے ہیں ۔کبھی بھی حکومتی کاوشوں سے عام آدمی مستفید نہیں ہوسکے۔ موجودہ حکومت کی روپے کی قدر بڑھانے کی کامیاب پالیسی ہی کو دیکھ لیں ۔ڈالر گر کر 95روپے تک آگیا نہ پڑول کی قیمت کم ہوئی اور نہ بجلی کی قیمت میں کوئی افاقہ ہوا ۔
نواز شریف حکومت کا موجودہ بجٹ ملکی تاریخ کا سب سے بڑا بجٹ ہے ۔اور یہ بھی خسارے کا بجٹ ہے مجموعی آمدنی کم ہے اور اخراجات ومصارف کا شتر بے مہار کہیں رکنے کا نام نہیں لیتا۔

بھاری بھر رقم پچھلی حکومتوں کے دور میں لیے گئے قرضوں کی واپسی کے لیے مختص کی گئی ہے۔قرض اتارنے کا سلسلہ حوصلہ افزاء ہے ۔آج بھی ہمارا ہر نومولود بچہ 85ہزار کا مقروض ہے ۔اور ہمارے ماضی کے مطلق آمر حکمران پر اگر غداری کا الزام لگ جائے تو انہیں موٹی کالی گالی سے زیادہ یہ الزام سنگین لگتا ہے ۔دعوے تو پرویز مشرف نے بھی بہت کیے تھے مگر ہماری معاشی حالت پہلے سے بھی خراب ہے ۔

ٹیکسوں کا بوجھ ہے جو عوام کے ناتواں کاندھوں کو مزید بوجھل کیے جارہاہے ۔ہماری حکومت سادہ لفظوں میں عوام سے لوٹے گئے جبری چندے (ٹیکس )کی لاٹھی کے سہارے کھڑی ہے ۔اگر یہ ٹیکس لاٹھی ہٹا دی جائے تو حکومت کی عمارت دھڑام سے زمین بوس ہوجائے گی۔بجٹ نرا جھنجٹ ہے ،بس یہ ایک روایت ہے جو ہر سال گرمی کے موسم میں عوام کے مزاج کو مزید گرم کر جاتی ہے ۔اصل بجٹ تو ہرپندرہ دن بعد بجلی اور پٹرول کے نئے نرخوں کی شکل میں ہر ماہ دو بار عوام کے منہ پر مارا جاتا ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :