کراچی واقعہ۔۔۔کچھ حقائق

بدھ 11 جون 2014

Syed Shahid Abbas

سید شاہد عباس

کراچی کو ایک بار پھر دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا۔ حملے میں رینجرز، پولیس، اے ایس ایف کے جوانوں نے اپنی جانوں کانذرانہ پیش کر کے ملک کو بظاہر کسی بڑے نقصان سے بچا لیا ہے۔ لیکن یہ کہنا کہ بالکل نقصان نہیں ہوا بالکل غلط ہو گا۔ کیوں کہ غیر ملکی ہوائی کمپنیاں اب پاکستان میں اپنے آپریشنز پر بہر صورت نظر ثانی کریں گے۔ اور مستقبل قریب میں ہو سکتا ہے کچھ کمپنیاں اپنے آپریشنز عارضی طور پر معطل بھی کردیں۔

لیکن ہم بطور پاکستانی ایک بکھری قوم ہونے کے باوجود بہت مضبوط اعصاب کے مالک ہیں لہذا یہ کہنا کسی بھی صورت غلط نہیں ہے کہ ہم ہر طرح کے حالات سہنے کی ہمت رکھتے ہیں۔
دہشت گرد جب بھی اپنی دھاک بٹھانے کے لیے کوئی مقام چنتے ہیں تو ان کا انتخاب ایسی جگہ ہوتی ہے جس پہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ ناپاک مقاصد کی تکمیل ممکن ہو سکے۔

(جاری ہے)

لہذا انہوں نے کراچی ائیرپورٹ کا انتخاب کیا۔

چند دن پہلے دو اعلیٰ افسران کی شہادت کے بعد ملک میں پہلے ہی مکمل آپریشن کی بازگشت سنائی دے رہی تھی جو اس حملے کے بعد ایک پکار کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے۔ میرا ہمیشہ سے یہ نظریہ رہا ہے کہ جنگ سے کبھی بھی مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں کیے جا سکتے لیکن جب جنگ مسلط کر دی جائے تو پھر دفاع میں ہمت نہ دکھانا بھی بزدلی شمار ہونے لگتا ہے۔
کراچی ائیر پورٹ پر حملے کے فوراً بعد پہلی دفعہ ایک حیران کن صورت یہ دیکھی کہ الیکٹرانک میڈیا نے شاید ملکی تاریخ میں پہلی دفعہ کچھ ذمہ داری کا مظاہرہ کیا اور جو بھی خبر چلائی اس کا کوئی مضبوط حوالہ بھی ساتھ تھا۔

جو فوٹیج بھی دکھائی گئی اس میں بھی ذمہ داری کا عنصر نمایاں تھا۔ شاید پچھلے کچھ عرصے سے ایک مخصوص میڈیا گروپ کی "کان کچھائی " کے بعد میڈیا کے کرتا دھرتا لوگوں کی عقل میں یہ بات آ گئی ہے کہ سنسنی پھیلانا کسی بھی صورت ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔اس سلسلے میں ایک بہترین مثال پڑوسی ملک کا میڈیا بھی ہے جو کسی بھی صورت اپنے ملک کی خبر کو اپنی ریٹنگ بڑھانے کے لیے استعمال نہیں کرتا۔

کچھ یہی صورت حال مغربی میڈیا کی بھی ہے۔
کراچی ائیرپورٹ پر حملے کے دوران سب سے پہلے ASF کے جوانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور پھر تقریباً دس منٹ تک دہشت گردوں کو ایک ایسی جگہ پر گھیرے رکھا جہاں سے وہ کوئی مزید بڑی کاروئی نہ کر سکے، جب تک کہ پاک فوج کی کوئیک ریسپانس فورس اور SSGکی کمک نہ پہنچ گئی۔ اور پھر دنیا کی قابل ترین فوج نے دہشت گردوں کو ایک قدم آگے نہ بڑھنے دیا۔

ملیر چھاؤنی سے ائیرپورٹ تک کم و بیش 10 منٹ تک پاک فوج کے دستے ائیرپورٹ پہنچے تب تک اے اسی ایف کے جوانوں نے ہی ان دہشت گردوں کو قابو کیے رکھا۔ جو چار جوان ابتدائی حملے میں شہید ہوئے وہ بھی دہشت گردوں کے حکمت عملی کے مطابق سب سے پہلے ان کا نشانہ تھے کیوں کہ یہ ان کے ائیرپورٹ داخلے میں بڑی رکاوٹ تھے ان چار جوانوں کے ساتھ رینجرز کے اہلکار نے بھی جام شہادت نوش کیا۔

اس تمام صورت حال کو سامنے رکھیں تو اے ایس ایف کی کارکردگی قابل دید ہے۔
مجھے یہ سطریں لکھنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ ٹی وی پر کچھ حضرات کو یہ کہتے سنا کہ یہ بنیادی ناکامی اے ایس ایف کی ہے۔ میری ان حضرات سے صرف اتنی سی گذارش ہے کہ اس فورس کے جوانوں کو آپ کسی بھی طرح فوج، رینجرز، QRFیونٹ یا اینٹی ٹیرارسٹ اسکواڈ سے ہرگز تشبیع نہ دیں ۔

کیوں کے ان بے چاروں کی تربیت ہرگز اس معیار کی نہیں ہوتی ۔ اس بات میں بالکل حقیقت ہے کہ ائیر پورٹس کی حفاظت کی بنیادی ذمہ داری اسی فورس کی ہے لیکن ہمیں سوچنا ان خطوط پر ہو گا کہ کیا اتنے اہم کام کے لیے ہم نے اس فورس کو تیار بھی اسی طریقے سے کیا ہے؟
کراچی ائیرپورٹ پر حملہ کسی ایک فورس یا ادارے نہیں بلکہ ایک اجتماعی ناکامی ہے کیوں کہ 10لوگ ہاتھوں میں اسلحہ تھامے، راشن بیگ اٹھائے آسمان سے ہرگز نہیں اترے بلکہ وہ کراچی کی سڑکوں کے ذریعے ہی ائیرپورٹ پہنچے ۔

اب سڑکوں کی حفاظت کرنا ASF یا فوج کا کام نہیں اس کے لیے پولیس کا ادارہ ہے ۔ میرا مقصد اس وقت کسی پر تنقید کرنا نہیں اسی لیے پولیس کے محکمے پر بھی اس وقت بحث نہیں کی جا سکتی ۔
سب سے اہم مسلہ فورسز کی تربیت کا ہے۔ فوج کیوں ایک منظم ادارہ ہے؟ کیوں اس کے جوان ہمیں ہر مشکل سے نکالنے کے لیے آ موجود ہوتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی تربیت ہی ان خطوط پر کی جاتی ہے کہ وہ کسی بھی طرح کی ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

تو پھر کیوں ہمارے دیگر فورسز کے اداروں کی تربیت اسی انداز میں کی جا سکتی ؟ ہم ایک طویل عرصے سے حالت جنگ میں ہیں۔ لہو سے اس ملک کا ذرہ ذرہ رنگین ہے ایسی صورت حال میں ہمیں مشکل فیصلے کرنا ہوں گے۔ کم از کم پولیس اور سیکیورٹی کے دیگر اداروں کی تربیت کا نظام فوج کے ہاتھ میں دے دینا چاہیے ۔ کچھ عرصہ پہلے ایک خبر نظر سے گزری بھی تھی کہ پولیس کے ایلیٹ فورس کے اہلکاروں کی تربیت کے لیے فوج سے مدد مانگی گئی ہے۔

لیکن اس عمل کو مستقل بنیادوں پر اپنا لیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ جب یہی فوج ہمیں سیلاب میں مدد فراہم کرسکتی ہے تو پھر ہمارے ہی جوانوں کو تربیت کیوں نے دے سکتی ۔ اس کے لیے ہمیں اپنے اذہان کو وسعت دینی ہو گی اور ہر وقت فوج کی ٹانگ کھینچنے سے بھی گریز کرنا ہو گا۔ یہ فوج ہماری ہے ۔ یہ بات اپنی جگہ اہم ہے کہ فوج کا کام سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے ۔ لیکن جب جنگ بیرونی سرحدوں کے بجائے اندرونی سرحدوں پر ہے تو پھر ہمیں فوج کو بھی اندرونی سرحدوں پر صف آراء کرنا چاہیے۔ اس سے جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں بلکہ اگر ہم نے یہ قدم نہ اٹھایا تو ہماری ملکی سلامتی داؤ پر لگ جائے گی ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :