لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری!

پیر 9 جون 2014

Muhammad Akram Awan

محمد اکرم اعوان

خوشحال ہونا انسان کی فطری خواہش ہے اور اس خواہش کی تکمیل کے لئے انسان کواپناپسندیدہ پیشہ، اہلیت کی بنیاد پر اختیارکرنے کی مکمل آزادی حاصل ہے۔ ہو ا کیا کہ ،ہم نے پہلے توضرورت کو خواہش میں بدلا ،یہاں تک تو ٹھیک تھا،پھر یہی خواہش جب لامحدود ہوکر انفرادی لالچ اورمادیت پرستی میں بدلی تواس نے ہمیں اخلاقی طور پر اس قدر گرا دیا کہ ہم سے انسانیت نام کی چیز ہی ختم ہوگئی ۔

آج ہمارا معاشرہ لالچ اور مادیت پرستی کی وجہ سے اخلاقی طورپر اس قدر زوال پذیر ہوچکا ہے کہ ہم اپنی جائز وناجائز خواہش کی تکمیل کے لئے کچھ بھی کر گزرنے کو تیارہیں کہ بعض اوقات تو عقل دنگ رہ جاتی ہے ۔
سرگودہا شہرکے چوک سیٹلائٹ ٹاؤن میں غوری میزائل کا ایک علامتی ماڈل نصب ہے، جووہاں سے ہر گزرنے والے کو پیغام دے رہا ہے۔

(جاری ہے)

کہ اے پاکستان کے ہر شہری اب تم محفوظ ہو،اب تم ہر خوف سے آزاد ہو، تمھیں فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں،کہ کوئی دشمن تمھارے ملک پر حملہ کرے گا، اب تم آرام سے شب وروز بسر کرو، بے خوف ہو کر اپنے امورسرانجام دو، اب تم سلامت ہو اور سلامت رہو گے۔

کیونکہ اس ملک کے سائنسدانوں نے دن رات محنت ، مشقت اور اپنا آرام سکون تم پر قربان کرکے کہ یہ صلاحیت حاصل کی ہے۔
بالکل اسی علامتی میزائل کے پاس سے گزرتے ہوئے ٹرک کو ایک موٹا تازہ نوجوان موٹرسائیکل سوارڈرائیورسائیڈ سے رُکنے کے لئے اشارہ کرتا ہے اوراس بات کی قطاََ پرواہ کئے بغیر کہ اس حرکت کی وجہ سے کوئی حادثہ نہ پیش آجائے، سڑک کے عین وسط میں ٹرک کے سامنے موٹرسائیکل روک کر نیچے اُترنے کی کوشش کرتا ہے کہ ڈرائیو ر کمال ہوشیاری سے ٹرک کو سپیڈسے چلاتا ہوا موٹرسائیکل کی سائیڈ سے گزر جاتا ہے۔

موٹرسائیکل سوار پھر تیزی سے ٹرک کے قریب پہنچ کر پہلے ڈرئیوانگ سائیڈ سے ڈرئیوار کو سخت الفاظ میں ڈانٹتا ہے اور پھر جلدی سے موٹر سائیکل ٹرک کے بالکل سامنے لے جا کر آہستہ کر دیتا ہے، جب دیکھتا کہ ٹکر لگنے والی ہے، تھوڑا آگے ہوکر پھر موٹرسائیکل کی بریک لگاتا اور ٹرک ڈرائیور کو رُکنے کا اشارہ کرتا ، ٹرک والا ایک لمحہ کے لئے رکتا ،مگر جیسے ہی موٹرسائیکل سوار اپنے موٹرسائیکل سے اُترتا، ڈرائیور ٹرک کوتیزی سے موٹرسائیکل کے قریب سے گزارتے ہوئے آگے نکل جاتا۔

اسی پکڑن پکڑائی کے دوران اوورہیڈ برج پر ٹریفک کم ہونے کی وجہ سے ٹرک بڑی تیزی سے زیادہ فاصلہ طے کرلیتا ہے۔ لیکن موٹرسائیکل سوار بھی اپنی دُھن میں مگن اُس کا پیچھا کر رہا ہے۔ اوورہیڈ برج کے اختتام پر زیادہ ٹریفک ، اس بار ٹرک کو آہستہ ہونے پر مجبور کردیتی ہے اور موٹر سائیکل سوار اپنی موٹرسائیکل روڈ پر کھڑی کر نے کے بعدبھاگ کربائیں جانب سے دروازے کے ساتھ لٹک جاتا ہے اور دروازہ کھول کرٹرک ڈرائیورکے ساتھ گفتگو یا یوں کہیں کہ مذاکرت کرتاہے، کچھ لمحات کے بعدمذاکرات کی کامیابی کے بعدنیچے اُترنے کی کوشش کے دوران اچانک ٹرک چلنے کی وجہ سے موٹا نوجوان دھڑام سے نیچے گرتا ہے، اس دوران ٹرک کا کلینر اُسے باآواز بلند بُرا بھلا کہتا اور لعنتیں بھیجتا ہے۔

مگریہ موٹا تازہ نوجوان کسی کی پرواہ کئے بغیر اُٹھتاہے آرام سے اپنے کپڑے جھاڑتا ہے اور اپنے ہاتھ میں پکڑے سو روپے کے ایک یا دو نوٹ اپنی جیب میں ڈال کراس دیدہ دلیر ی سے کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں واپس اپنے موٹر سائیکل کی طرف چلنا شروع کردیتا ہے۔اس دوران وہ جس دوکان کے سامنے سے گزرتا دکان پر کام کرنے والے بچے اور جوان بھی اُسے بُرا بھلا کہتے ، مگر وہ سنی ان سُنی کرتا ہوا موٹر سائیکل اسٹارٹ کرتا ہے اور مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے، نئے شکار، نئے ٹارگٹ کی تلاش میں دوبارہ محوسفرہوجاتا ہے۔


یہ موٹر سائیکل سوار کوئی چور، لٹیرا یا ڈاکو نہیں بلکہ ٹریفک پولیس کا حوالدارتھا، جسے روزانہ ایک مقررہ مقدار میں رقم اپنے سینئرزتک پہنچانی ہے اورباقی اپنی جیب میں۔ٹریفک پولیس کے بارے میں بہت سے لطیفے مشہور ہیں۔ ایک کہاوت یہ بھی ہے کہ ٹریفک پولیس پاکستان کا واحد ادارہ ہے جس میں تعینات ہراہلکار اپنے مقرر ہ وقت سے زیادہ ڈیوٹی بخوشی سرانجام دیتا ہے۔

اسی طرح ایک اور لطیفہ بھی مشہور ہے کہ لڑکی والے رشتہ کے لئے لڑکے کے گھر جاتے ہیں، گفتگوکے دوران لڑکے کی تنخواہ پر بات ہوتی ہے ، تو لڑکے کی ماں کہتی ہے ، میرا بیٹا ٹریفک پولیس میں ہے ۔میرے بیٹے کی تنخواہ توچارہزارہے مگر ماشاء اللہ اوپر کی کمائی چالیس ہزار ہے۔ ویسے توکوئی ادارہ ، محکمہ بھی رشوت کی لعنت سے پاک نہیں مگراس قدر ذلت اور رسوائی سے پیسے اکھٹے کرنے کا اعزازصرف ٹریفک پولیس کو حاصل ہے۔

آج سے کچھ عرصہ پہلے ایسا عموماََ چُھپ کرکیا جاتا تھا، مگریہ سب کچھ توشہر کے سب سے پررونق اور پرہجوم حصے میں ہورہا تھا۔ سب لوگ ٹریفک پولیس اہلکار کی "غربت مکاؤ"چندہ مہم اورفرض کی بجا آوری کا تماشادیکھ کر ہنس رہے تھے۔
یہ واقع شروع سے اختتام پزیر ہونے تک میں نے خوداپنی آنکھوں سے دیکھا اورمیری عقل دنگ رہ گئی ٹریفک پولیس کا کام تو ٹریفک قوانین پر عملدرآمدکرواناہے۔

یہ پولیس اہلکار دوسرے ضلع یا صوبہ کے ٹرک ڈرائیور سے زبردستی نذرانہ وصول کررہا تھا۔ ایسے حالات میں ٹریفک قوانین کی پاسداری کون اور کیوں کرے گا۔یہی حال ہمارے ہرمحکمہ کا ہے کہ جائز کام بھی رشوت اور نذرانہ دیئے بغیر ممکن نہیں۔آج ہمارے معاشرے میں لالچ اور مادیت پرستی کی وجہ سے جھوٹ، رشوت ،بے ایمانی، دھوکہ بازی، چوربازای اپنے عروج پر ہے۔

حتی کہ لامحدود خواہشات کی تکمیل کے لئے سودی کاروبار اور لین دین کو اپنا کر ہم نے خدا اور اُس کے رسول ﷺ کے خلاف کھلم کھلا اعلان جنگ کر رکھا ہے۔ اس پر تضاد یہ کہ ہم کہتے ہیں کہ ہمارے حالات ٹھیک نہیں ہورہے اورہماری دعائیں قبول نہیں ہوتیں !
ہرسال لاکھوں کی تعداد میں ہم پاکستانی عمرہ اور اسی طرح لاکھوں حج کی سعادت حاصل کرتے ہیں اس دوران خانہ کعبہ کالحاف اور دورازہ کو پکڑ کر جہاں اپنے لئے ، اپنے والدین ، بیوی بچوں اور دیگرعزیز واقارب کے لئے دعا کرتے ہیں، یقینا ہر پاکستانی اپنے ملک کی سلامتی، استحکام اور امن و امان کے لئے بھی دعا اور التجااپنے اللہ رب العزت کے سامنے پیش کرتا ہے۔


اسی طرح عالم،طالبعلم ،تاجر، سرمایہ کار، ملازم پیشہ، کھیتی باڑی، محنت مزدوری کرنے والے اور ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والوں کی اکثریت روزانہ پانچ وقت اپنے رب سے پاکستان کے حالات کی بہتری کے لئے دُعا کرتی ہے ۔ کشمیر ،گلگت سے کراچی اورخیبر پختونخواہ، بلوچستان کے سرحدی علاقوں سے لیکرلاہور، پاکستان کی آخری سرحد تک روزانہ صبح سویرے دعامانگی جا رہی ہے، اور دعا بھی فرشتے مانگ رہے ہیں کہ معصوم بچوں کو فرشتہ کہا جاتاہے، اور دعا بھی کیا کہ، لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری،زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری!آج ہمارے اعمال اور کرتوتوں کی بدولت ہماری دعائیں بے اثر ہوچکی ہیں اور ہم اپنی ناکامی کی انتہا کو پہنچ چکے ہیں، آج جس تباہی و بربادی سے یہ قوم گزر رہی ہے، یہ کسی دشمن کی فوجی پیش قدمی سے نہیں اور نہ ہی اس کی وجہ کوئی جنگ ہے ۔


مملکت ِپاکستان کے سائنسدانو!ہم ہرسال بڑے جوش و جذبہ سے یوم تکبیر مناتے ہیں کہ ہمیں آپ پر فخرہے کہ آپ نے ملک خداد ادپاکستان کو ناقابل ِ تسخیر بنا دیا ،مگر خدا کے لئے اب کوئی ایسی چیز یاکوئی ایجاد سامنے لاؤ، جس سے عوام کو بھی فائدہ پہنچے اور اس ملک سے غربت ختم ہوجائے ،جس سے مقتدر طبقہ عوام کے مال کو مال ِ غنیمت کی بجائے امانت سمجھے، جنہوں نے ملک کو لوٹ کر بیرون ملک بینک اکاؤنٹس بنا رکھے ہیں کہ سابقہ حکومت کی ایک بااثر شخصیت کی صرف برطانیہ میں جمع کی گئی دولت کا تخمینہ ملکہ برطانیہ کی دولت سے بھی زیادہ ہے ، اس جیسے تمام بھوکوں کی بھوک اور لالچ ختم ہوجائے ،جس سے بے گناہ عورتوں ، معصوم بچوں اوربوڑھوں کو بے رحمی سے قتل کرنے والے اپنے ناپاک ارادوں سے باز آجائیں، جس سے مدرسوں، امام بارگاہوں، مسجدوں میں نمازیوں پر خودکش حملے نہ ہوں،جس سے شیعہ ، سنی ، اہلحدیث ، بریلوی کی بجائے ہم صرف مسلمان ہو جائیں اور ہمارا ایمان فرقوں کی ملاوٹ سے پاک ہوجائے ۔

ہم سب آپس میں بھائی بن جائیں، ہمارے درمیان محبت اور بھائی چارہ قائم ہوجائے ۔کہ ہم سے کسی کی تکلیف نہ دیکھی جائے ، ہم ایک دوسرے کی مدد کرنے والے اور خیرخواہ بن جائیں۔جس سے فوج کے ادارہ ، جی ایچ کیو، مہران نیول بیس، کامرہ بیس اور دفاعی اداروں کے جوانوں، افسروں کو اپنے ہی ملک میں نشانہ ، نہ بنایا جا سکے،جس سے ہمارے ادارے ایک دوسرے کا احترام کرنا سیکھ لیں اوران اداروں میں کام کرنے والے ٹھیک ہوجائیں۔

ملک سے رشوت اوربدیانتی ختم ہوجائے، جس سے چیف سیکڑی سے لے کر پٹواری کی سطح تک کسی کے پاس بھی پاکستان کا معمولی شہری اپنے کسی جائز کا م کی غرض سے جائے، تو متعلقہ اہلکار اس سائل کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آئے اور کہے کہ آپ کی تشریف آوری کا شکریہ، ہم معذرت خواہ ہیں کہ آپ کو یہاں تشریف لانا پڑی، آپ کی شکایت ہمیں موصول گئی ، بس معمول کی کارراوائی اور معمولی تاخیر کے بعدآپ کی شکایت دور کردی جائے، آپ مطمئن ہو کر تشریف لے جائیں۔


اس ملک کے سیاسی ومذہبی راہنماؤں اور حکمرانوں سے تو،جو کچھ ہو سکتاتھاکردیاکہ اب کوئی گھر بھی محفوظ نہیں۔ اے اس ملک کے قابل ِفخرسائنسدانوں بے شک آپ نے پاکستان کومحفوظ بنا دیا مگریہ کیسا ناقابل تسخیراورمحفوظ ملک ہے کہ جس میں کوئی شخص ،کوئی گھر محفوظ نہیں۔اے رب العزت ہمارے گناہوں کو معاف فرما ، ہمارے حال ِ زار پر رحم فرمااور ہمارے ملک پاکستان سمیت پُورے عالمِ اسلام میں امن سکون عطاء فرما ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :