کیمپس کی آواز کا دسواں جنم دِن

پیر 9 جون 2014

Farhan Ahmed Fani

فرحان احمد فانی

یہ پانچ جون دوہزار چودہ کا روشن دِن تھا۔ادارہ علومِ ابلاغیات اُس دِن دُلہن کی طرح سجایا گیا تھا ۔ہر چہرے پر مسرّت کے آثار نمایاں تھے۔ماس کمیونیکیشن کے درو دیوار پر رنگوں کی ایک دھنک سی بکھر ی ہوئی تھی ۔انتظامیہ،عملہ اور طلباء سب کے سب تقریب کی تیاریوں میں جُتے ہوئے تھے۔یہ سب اہتمام پنجاب یونیورسٹی ایف۔ایم 104.6کی دسویں سالگرہ کو منانے کے لئے کیا گیا تھا۔

آڈیو ایڈیٹرمسعود ملہی اورپروگرام منیجر ارشاد احمد چودھری بھاگ دوڑ میں مصروف تھے ۔وہ ایک طرف تو آنے والے معزز مہمانوں کو خوش آمدید کہہ رہے تھے دوسری جانب تقریب کا نظم برقرار رکھنے کی فکر بھی انہیں دامن گیر تھی۔ریڈیو میں کام کرنے والے طلباء وطالبات بھی اپنی اپنی ذمہ داریوں کی انجام دہی میں مگن تھے۔

(جاری ہے)

لوگ نوٹس بورڈ پر لگے چھوٹے چھوٹے رنگ برنگے اسٹیکرز پر مبارک باد کے پیغامات لکھ رہے تھے۔


ایف ایم 104.,6کی دسویں سالگرہ کا ذکر تو آگے چل کر ہو گاہی، ابھی چند لمحے ماضی کے جھروکوں میں جھانکتے ہیں۔پنجاب یونیورسٹی کے اِدارہ علومِ ابلاغیات میں ایف ۔ایم ریڈیو کے قیام کی کوششیں تو ڈاکٹر مسکین علی حجازی کے دَور میں شروع ہو گئیں تھیں۔پھر ڈاکٹر شفیق جالندھری کے نے بطورِ چیئرمین ادارہ علوم ابلاغیات کئی مثبت قدم اٹھائے۔ان کے دور میں UNESCO کے ساتھ شعبہٴ ابلاغیات کے لئے ریڈیو اسٹیشن قائم کرنے کے حوالے سے بات چیت آگے بڑھی۔

ان کاوشوں کے نتیجے میں1998میں ایک معائدے کے تحت یونیسکو نے ریڈیو کے لئے فنی آلات اور ابتدائی تعاون فراہم کرنے کا وعدہ کر لیا۔یہ ان دنوں کی بات ہے جب پیمرا نام کا ادار ہ نہیں بنا تھا۔وزارت اطلاعات سے رابطے پر انتظامیہ کو بتایا گیا کہ حکومت اس قسم کا ایک ادارہ بنانے پرغور کر رہی ہے جو چینلز کو قواعد وضوابط کے تحت لائسنسز جاری کرے گا۔

2001ء میں شعبہٴ ابلاغیات میں الیکٹرانک میڈیا میں سپیشلائزیشن شروع کروائی گئی ۔اسی دوران پیمراکا قیام بھی عمل میں آگیا تھا۔سوپیمرانے18 اکتوبر 2002ء کوپنجاب یونیورسٹی کو طلباء کی عملی تعلیم تربیت کے لئے ایک ایجوکیشنل ریڈیو چینل کا لائسنس جاری کر دیا۔یونیسکو کے مسلسل تعاون سے ایف ۔ایم ریڈیو کا یونٹ ماس کمیونیکیشن ڈیپارٹمنٹ کے داخلی دروازے کے بائیں جانب عمارت میں نصب کیا گیا اور پہلے سے موجود کمروں میں تبدیلیاں کروا کے ایک ماسٹر کنٹرول روم،ایک میں اسٹوڈیو،ایک لائیو اسٹوڈیو،ایک ڈیوٹی روم اور ایک ٹی وی اسٹوڈیو کی شکل میں ڈھالا گیا۔

سٹوڈیو کی چھت پر 70فٹ اُونچا ایک مضبوط ٹاور بھی لگایا گیا۔ تاہم نشریات کے باقاعدہ آغاز میں ابھی کچھ مراحل طے کرنے باقی تھے۔
یکم جولائی2003ء پروفیسر ڈاکٹر مغیث الدین نے ادارہ علومِ ابلاغیات کا چارج سنبھالا تو عمارت کا صرف خاکہ موجود تھا۔پیمرا سے چینل کی فریکوئنسی کا معاملہ،آلات کی تنصیب سب کام التواء کا شکار تھے ۔ڈاکٹر مغیث الدین کی مسلسل کوششوں کے نتیجے میں نومبر 2003ء کو پیجاب یونیورسٹی ریڈیو کو FM 104.6کی فریکوئینسی الاٹ کر دی گئی اور ساتھ ہی 50واٹ کا ٹرانسمیٹر نصب کرنے کی اجازت بھی دی گئی ۔

جس کے ذریعے پنجاب یونیورسٹی کے ِارد گرد 15 کلو میٹر تک نشریات سنی جاسکتی تھیں۔ڈاکٹر مغیث الدین ‘ عامر محمود باجوہ اور اس وقت کے وائس چانسلر لیفٹینٹ جنرل (ر) ارشد محمود کی محنت اور لگن کے نتیجے میں ایف ایم 104.6 کی تشکیل کا عمل خوابوں سے نکل کر حقیقت کا روپ دھار گیا اور یوں پنجاب یونیورسٹی کی تاریخ میں تعلیمی و فنی ترقی کے ایک اور باب کا اضافہ ہوا۔


ا سی عرصے میں معروف براڈ کاسٹر ارشاد حسین کو سٹیشن پروگرام مینیجر مقرر کیا گیا۔ وہ ادیب و شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ریڈیو پاکستان کے سینئیر پروڈیوسر بھی رہ چکے تھے اور امریکہ اور کینیڈا جیسے ممالک میں براڈ کاسٹنگ کا وسیع تجربہ بھی رکھتے تھے۔ ارشاد حسین نے چند ہی ماہ میں انتھک محنت اور حد درجہ خلوص سے طلباء وطالبات کی مخفی صلاحیتوں کو اجاگر کیا اور بہت سی خوبصورت آوازیں متعارف کروائیں۔

ایف ایم 104.6 جو کہ اب اپنی زندگی کے 10 کامیاب سال پورے کرنے کے بعد ایک تناور درخت بن چکا ہے، اس کی دسویں سالگرہ پر پروگرام مینیجر ارشاد حسین کی کمی بہت محسوس کی گئی ۔ وہ اب اس دنیا میں نہیں رہے مگر ان کے ہاتھ سے سینچے ہوئے اس چمن زار میں بہار اپنے جوبن پر ہے۔ ُان کی تربیت یافتہ آوازیں آج ملک بھر کے براڈ کاسٹنگ ہاوٴسز سے گونج رہی ہیں۔


پنجاب یونیورسٹی ریڈیو نے 2005 ء کے تباہ کن زلزلے میں جو خدمات سرانجام دیں وہ بھی تاریخ کا ایک سنہرا باب ہے۔ ایف ایم 104.6 نے ملبے کا ڈھیر بنے شہر مظفر آباد کے دل شکستہ اور درماندہ باسیوں کے دلوں میں ” زندگی پھر مسکرائے گی“ کی امیدجگائی۔اپنے پروگراموں کے ذریعے ان کے چہروں پر مسکراہٹیں لانے کاسامان کیا ۔ ان کے درمیان ایک رابطہ پل کا کام کیا۔

پہاڑوں کے دامن میں ایک چھوٹے سے خیمے میں قائم ریڈیو کے ذریعے محمد زاہد بلال ، اشتیاق احمد، غلام مصطفیٰ ، محمد یاسر ، فرخ جاوید، عامر محمود باجوہ، خالد سلطان ، رمضان حسین، اور محمد علی کیمرہ مین نے وہ خدمات سر انجام دیں جو ایف ایم 104.6 کے لیے ہمیشہ احساس فخر کا باعث بنیں گی۔
اب کی بار5 جون کوادارہ علومِ ابلاغیات کاحمید نظامی ہال بقعہٴ نور بنا ہوا تھا۔

خوبصورت انداز میں ترتیب دی گئی نشستوں پرسامعین کی کثیر تعداد دیکھ کر میراحوصلہ بڑھا کہ آج بھی ریڈیو کے سننے اور چاہنے والوں کی کمی نہیں ۔معزز مہمانوں میں ریڈیو پاکستان کی ڈائریکٹر جنرل ثمینہ خاور ، پارلیمانی سیکریٹری اطلاعات وثقافت حکومت پنجاب رانا ارشد ، وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی ڈاکٹر مجاہد کامران اور اسی ریڈیو چینل کے تربیت یافتہ مختلف قومی سطح کے چینلز میں کام کرنے والے براڈ کاسٹرز بھی شامل تھے۔

ڈاکٹر مجاہد کامران نے اپنے خطاب میں ریڈیوا سٹیشن کی خدمات کو سراہااور طلباء کو اس سہولت سے فائدہ اٹھانے کی ترغیب دی۔ کالم نگارڈاکٹر اجمل نیازی نے بھی خطاب کیا۔ڈی جی ریڈیو پاکستان ثمینہ خاور نے ریڈیو اینکرز کو فنی امور کے بارے میں آگاہ کیا اور شعبہ ابلاغ عامہ کو ریڈیوا سٹیشن کی دسویں سالگرہ پر مبارکباد پیش کی ۔پروفیسر زاہد بلال نے اپنی تقریر میں ان کاوِشوں کا ذکر کیا جو اس ریڈیو کے قیام کے سلسلے میں انہوں نے اپنی ٹیم کے ساتھ بروئے کار لائیں۔

انہوں نے ریڈیو سے جُڑی اپنی خوبصورت یادیں سامعین کے ساتھ شیئر کیں۔وہ آج کل گجرات یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات میں تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں۔تقریب کے بعد ان کے ساتھ راقم کی ملاقات ہوئی ۔سراپا انکسار زاہد بلا ل سے مل کر خوشی ہوئی۔رانا ارشد نے اپنی تقریر میں ریڈیو سٹیشن کو ہرقسم کا حکومتی تعاون فراہم کرنے کا وعدہ کیا ۔ریڈیو کے انتہائی متحرک آڈیو ایڈیٹر مسعود ملہی تکنیکی اُمور کی نگرانی کر رہے تھے۔

مسعود ملہی ریڈیو پاکستان میں ہوسٹنگ کے علاوہ مختلف انٹرنیشنل ریڈیوز چینلز کے پنجابی سیکشنز کے نمائندہ بھی ہیں۔شعبہ ٴ ابلاغیات کے طالبعلم علی حسن کی نظامت تقریب کو چار چاند لگا رہی تھی۔ تقریب کے آخر میں معزز مہمانوں اور ریڈیوکے جملہ کارکنان کو خصوصی اعزازی شیلڈز اور سرٹیفیکیٹس بھی پیش کیے گئے۔ شعبہ ابلاغیا ت کی ڈائریکٹر ڈاکٹر نوشینہ سلیم نے تمام معزز مہمانوں کا شکریہ ادا کیا ۔

ایف ایم104.6سے دسویں سالگرہ کے حوالے سے خصوصی پروگرام نشر کیے گئے۔ جن میں ریڈیو سے وابستہ سینئیر براڈ کاسٹرز کے انٹرویوز بھی شامل تھے۔ڈاکٹر نوشینہ سلیم کا خصوصی انٹرویو بھی نشر کیا گیا۔
ایف ایم104.6کی دسویں سالگرہ کی تقریب میں موجود سب مہمان اپنے اپنے میدان کے شہسوار تھے۔مجھے اس موقع ڈاکٹر مغیث الدین کی کمی شدّت محسوس ہوتی رہی ۔

اس ریڈیو اسٹیشن کے قیام میں ان کی انتھک محنت بھی شامل ہے ۔ان کی غیر موجودگی سے مجھ جیسے ابلاغیات کے طالبعلم ایک اہم خطاب سے محروم رہ گئے۔اچھا ہوتا کہ وہ بھی خوشی کے ان لمحات میں ہمارے درمیان موجود ہوتے۔آخر میں وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران کا کچھ ذکر ۔شعبہٴ ابلاغیات کو اُن کی خصوصی شفقت اور سرپرستی حاصل ہے ۔وہ اپنی بے شمار مصروفیات کے علی الرغم شعبہٴ ابلاغیات کے زیرِ اہتمام منعقد ہونے والے سیمینارز،تقریبات اور کانفرنسز میں شریک ہوتے ہیں ۔

وہ چونکہ خود ایک صحافی والد کی اولاد اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں ۔عالمی اُمور پر گہری نگاہ رکھتے ہیں ۔اُن کے زرّیں خیالات سے صحافت کے طلباء بہت کچھ سیکھتے ہیں۔
ایف ایم 104.6کی دسویں سالگرہ کے حوالے سے شعبہٴ کی ڈائریکٹر ڈاکٹر نوشینہ سلیم اور کوآرڈینیٹرریڈیوپروفیسر سیماب بخاری کی سرپرستی میں پروگرام منیجر ارشاد احمدچودھری،آڈیو ایڈیٹرمسعود ملہی،اسسٹنٹ پروڈیوسراَزکیٰ شاہداورڈیوٹی آفیسر وقاص شبّیراور یہاں کام کرنے والے تمام طلباء طالبات نے بے پناہ محنت کی ۔

اس قسم کی شاندار اور کامیاب تقریب کا انعقاد ان سب افراد کی مخلصانہ کوششوں کا نتیجہ ہے۔سو ان سب کارکنان کو دِل کی اتھاہ گہرائیوں سے مبارک باد ۔خدائے لم یزل سے دُعا ہے کی ”کیمپس کی آواز “آنے والے دنوں میں مزید توانا ہو۔ پی یوایف ایم104.6 کی صدا ترقی کی جگمگ جگمگ کرتی شاہراہوں میں گونجتی رہے۔رہے نام اللہ کا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :