اصول،قانون ،قاعدے اور ضابطے

ہفتہ 7 جون 2014

Musharraf Hazarvi

مشرف ہزاروی

وہ کہہ رہے تھے کہ ڈی پی او ہری پور اعجازاحمدڈسٹرکٹ سیشن جج کے ہمراہ بار روم میں آئے جہاں وکلاء کے بھرے مجمعے سے خطاب کے دوران ڈسٹرکٹ بار ہری پور کے صدر اور ڈسٹرکٹ پولیس افسر دونوں نے ایک دوسرے کے بارے میں جذبہ خیر سگالی کے کلمات ادا کیے اور جج صاحب کا بھی شکریہ ادا کیا جن کے مصالحانہ کردار کے باعث ایس ایچ او سٹی کی مبینہ پولیس گردی کے رد عمل میں شروع ہونے والی وکلاء احتجاجی تحریک پورے خیبرپختونخوا میں پھیلنے کے بعد بالآخر اپنا مقصد حاصل کیے بغیر ہی اختتام پذیر ہو گئی ۔

ہوا یہ تھا کہ ڈسٹرکٹ بار ہری پور کے ممبر اویس سرور ایڈووکیٹ کے خلاف قریبا تین ہفتے قبل ماڈل تھانہ سٹی میں ایک مقدمہ قائم کیا گیا جب کہ دوسری طرف ڈسٹرکٹ بار ہری پور کے جنرل باڈی اجلاس میں ایک متفقہ قرارداد پیش اور منظور کر کے اس کی کاپیاں ضلع،ڈویژن اور صوبہ کے ہر ذمہ دار اعلیٰ متعلقہ افسر کو بھجوا کر صوبہ بھر میں احتجاجی تحریک شروع کی گئی اور بار کی مذکورہ متفقہ قراداد میں مطالبہ یہ کیا گیا تھا کہ اویس سرور ایڈووکیٹ کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنانے اور مبینہ پولیس گردی کرنے والے ماڈل تھانہ سٹی کے ایس ایچ او ساجد فاروق کو معطل،ضلع بدر یا برطرف کیا جائے بصورت دیگر وکلاء احتجاجی تحریک جاری رہے گی اور پھر زبردست احتجاجی تحریک شروع بھی کر دی گئی جس میں ڈویژن اور صوبہ بھر کے وکلاء بھی ہری پور بار کی قرارداد کے ہمنوا بن کر ان کے شانہ بہ شانہ ہو چلے ،عدالتی بائیکاٹ ،روڈ بلاک اور احتجاجی مظاہرے کے علاوہ تن وس لگا کے عین ڈی پی او دفتر کے سامنے نعرہ بازی بھی کی گئی مگر پھر ہوا یوں کہ ایس ایچ او موصوف معطل ہوئے،نہ ضلع بدر اور نہ ہی برطرف کہ وکلاء اپنے دو سینئیر راہنماء انکوائری کمیٹی میں شامل کر کے اسی کمیٹی میں شامل ہونے پر راضی ہو گئے جس کے بارے میں ان کا موقف پیش کردہ متفقہ قراداد کے مطابق یہ تھا کہ ایس ایچ او وکیل تشدد واقعے کی انکوائری کسی غیر جانبدار ایجنسی کے ذریعے کروائے جائے لیکن بدقسمتی سے غیرجانبدار ایجنسی والی بات بھی پوری تو نہ ہو سکی البتہ انکوائری کمیٹی میں وکلاء کے نمائندے شامل کر دیے گئے ۔

(جاری ہے)

انکوائری جاری اور یہ بات ابھی واضح ہونا باقی تھی کہ مذکورہ واقعہ میں ایس ایچ او سٹی یا وکیل صاحب میں سے کون کہاں کھڑا ہے کہ 4جون بروز بدھ ضلعی پولیس افسر ہری پور اعجاز احمد ڈسٹرکٹ سیشن جج ہری پور عظیم خان آفریدی کے ہمراہ داخل بار ہو گئے جہاں وکلاء کی کثیر تعداد کی موجودگی میں تقریریں بھی ہوئیں اور ایک دوسرے کے لیے خیر سگالی کے جذبات کے اظہار کے ساتھ ساتھ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج موصوف کے لیے تحسین کے کلمات ادا اور ان کا خصوصی شکریہ ادا کیا گیا کہ جن کی مصالحانہ کاوشوں سے وکلاء پولیس تنازعہ باہم افہام و تفہیم سے بالآخر اختتام پذیر ہو ہی گیا ۔

۔۔ لیکن ہوتے ہوتے بھی اپنے پیچھے بعض فکر انگیز سوالات بھی چھوڑ گیا جو یقینا دیگر مکاتب کے اصحاب کی طرح شاید کچھ وکلاء صاحبان کو بھی سوچنے پر مجبور کر گئے ہوں کہ ڈسٹرکٹ بار کے معزز ممبر کو ایس ایچ او نے پولیس گردی کا نشانہ بنایا اور پورے صوبے کے وکیل مل کر بھی اپنے وکیل بھائی اور بار کے معزز ممبر کو انصاف نہ دلوا سکے؟کیوں؟اگر وکلاء کا موقف پہلے دن سے درست اور مبنی بر حق تھا تو پھر اس حق پر کمپرومائز کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟اگر ایس ایچ او مذکور نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا تو کیا اب اس کو اس کے کیے یا مبینہ قانون شکنی کی قانون کے مطابق سزا مل گئی ہے؟کہ اب کسی اور کے ساتھ ایسی پولیس گردی نہیں ہو گی؟اگر ایس ایچ او پر عائد کردہ مبینہ الزام درست نہیں تھا تو پھر پورے کے پی کے وکلاء کا احتجاج کس مقصد کے لیے تھا؟کیا وہ مقصد حاصل کر لیا گیا؟ سوال یہ بھی اٹھایا گیا کہ قریبا تین ہفتوں پر محیط وکلاء احتجاجی تحریک جس میں وکلاء،سائلین،عوام،پولیس فورس اور سول سوسائٹی کے ساتھ ساتھ وکلاء کی ساکھ بھی متاثر ہوئی اگر اس کو اسی طرح فریقین کے بڑوں نے افہام و تفہیم اور جذبہ خیر سگالی کے ساتھ باہم مل بیٹھ کر ہی پر امن طور پر نمٹاناتھا توپہلے پیروں میں ہی یہ مستحسن قدم کیوں نہ اٹھایا گیا؟کیا کسی کو کسی کا امتحان مقصود تھا؟ ایک طرف وکلاء راہنماء اور دوسری طرف پولیس افسران اپنی ضد پر کیوں اڑے رہے اور اگر فریقین میں سے ہر ایک اپنے موقف کو اصولی خیال کر کے اس پر ڈٹا رہا تو پھر اسی اصولی موقف سے پسپائی کاہے کی اور کیوں؟ڈی پی اوموصوف اتنے دن بیٹھے وکلاء احتجاجی تحریک کا تماشا دیکھتے ،ضلع ڈویژن اور صوبے کی امن کو ترستی فضاکو ممکنہ بد امنی کی فضا میں جھونکنے کی کوشش کیوں کی گئی؟اوراگر ڈی پی او اپنے ماتحت ایس ایچ او جس کو وہ حق پر سمجھتے تھے تحفظ دیتے رہے اور اپنے خلاف نعرے بھی سنتے رہے مگر ان کے قدم متزلزل نہ ہوئے تو پھر آخرانھیں یکدم ہوا کیا کہ وہ بار روم میں جا کر خیر سگالی کا اظہار کرنے لگے؟کیا پھر انھوں نے اپنا اصولی موقف وکلاء احتجاجی تحریک پر نچھاور کر دیا؟یہ ہی سب کچھ تو ڈی پی او موصوف واقعے یا وکلاء احتجاجی تحریک کے ابتدائی دنوں میں بھی کر سکتے تھے پھر کیوں نہ کیا گیا اور متعدد طبقات اور عوام و سائلین کو امتحان میں ڈال کر سخت مشکلات سے دوچار کیوں کیاگیا؟افسوس ناک امر تو یہ ہے کہ ایک عام آدمی روڈ بلاک کرنے کے ہجوم میں شامل ہو تو اس پر ایک چوکی کا انچارج بھی روڈ بلاک کرنے کا مقدمہ قائم کر دے مگر جہاں قانون کی عملداری اور بالادستی پر یقین رکھنے اور اسے فروغ دینے کے داعی خود ہی قانون کے بڑے محافظ کے دفتر کے سامنے روڈ بلاک اور احتجاجی مظاہرے میں شامل ہوں تو کسی پر روڈ بلاک کا مقدمہ نہ بنے کیا یہ کھلا تضاد اور دوہرا قانون نہیں جس کی حوصلہ شکنی اور بلاامتیاز اقدامات کی ضرورت ہے؟صاحبو!من حیث المجموع ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ وطن عزیز میں نفسا نفسی پر مبنی کلچرتیزی سے فروغ پا رہا ہے جس میں اصول،قانون،ضابطے اور اخلاقیات سب بری طرح پامال ہو رہے ہیں مگر ہم ہیں کہ ہمیں اپنے گریبانوں میں جھانکنے کی بھی فرصت نہیں کہ ہم کم از کم شکوہ ظلمت شب کے بجائے اپنے حصے کے چراغ تو روشن کرنے کی مخلصانہ کوشش کر سکیں۔

ہماری اولین کوشش تو یہ ہی ہونی چاہیے کہ حق دار کو اس کا جائز حق ملے اور منفی رویوں کی حوصلہ شکنی ہو تا کہ ہم بحیثیت قوم ہر گذرتے دن کے ساتھ بہتری کے سفر کی جانب بڑھ سکیں کیونکہ پہلے ہی ہم اقوام عالم میں کسی ممتاز مقام کے حامل نہیں بلکہ ہمیں ایک قوم بننے اور پھر اقوام عالم میں ممتاز مقام حاصل کرنے کے لیے بہت کٹھن اور جاں گسل مراحل ابھی طے کرنے باقی ہیں لیکن جب تک ہم اپنے آفاقی نظریات،زریں اصولوں،قاعدوں اور ضابطوں پر عمل نہیں کریں گے تب تک ہماری زندگیوں میں کسی مثبت تبدیلی کا امکان نہیں چہ جائیکہ ہم ناچیز پھر معاشرے اور ملک میں کوئی موثر تبدیلی لا سکیں ۔

۔۔۔سو !اے عزیز ہموطنو ،اپنی نظریاتی اساس،اصول ،قاعدے اور ضابطے اپنائیے کہ ملک و ملت کو آپ کی اور آپ کی خداداد صلاحیتوں کی اشد ضرورت ہے ۔۔۔اسلامی تعلیمات کو حرز جان بنائیے کہ قرآن و سنت کی آفاقی تعلیمات پر صدق دل سے عمل کر کے ہی ہم دنیا و آخرت میں سرخروئی حاصل کر سکتے ہیں۔۔۔جس پر امت مسلمہ کی قابل فخر تاریخ کے اجلے صفحات تا ابد گواہ رہیں گے ۔۔۔۔۔۔۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو اور ہمیں اپنی رضا کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔۔(آمین)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :