بیتے ہوئے دن یاد آتے ہیں

جمعہ 6 جون 2014

Khalid Irshad Soofi

خالد ارشاد صوفی

بیتے دنوں کی یادیں سفر زیست کا اصل”حاصل“ ہوتی ہیں، یہ کچھ لوگوں کے لیے تو” حاصل ہی حاصل “ہوتی ہیں اور کچھ کے لیے ”لا حاصل!ٴٴ“ زندگی کے ایک خاص مقام پر پہنچ کر ہرآدمی بیتے دنوں کو یادکرکے سو د و زیاں کی بیلنس شیٹ تیار کرتاہے۔
بیتے دنوں کی یادیں تلخ ہوں یا شریں، انہیں یاد کرنے سے جہاںآ دمی خوشی اورملال کے احساسات سے دوچار ہوتاہے ،وہاں اس پر قدرت کے کئی بھید بھی آشکار ہوتے ہیں۔

نامور اور کامیاب لوگوں کے بیتے دنوں کی یادوں میں عام آدمی کی دلچسپی کا بڑا ساماں ہوتا ہے۔ کچھ لوگ بڑے لوگوں کی یادداشتوں اور سوانح عمری سے محض لطف لیتے ہیں لیکن کچھ انہیں چراغ راہ بنا لیتے ہیں۔
آج کی دنیا میں نامور اور کامیاب لوگوں کے حالات زندگی کی روداد کو قومی امانت سمجھا جاتاہے۔

(جاری ہے)

ترقی یافتہ ممالک میں ہر سال سیکڑوںآ پ بیتیاں، یادداشتیں اور سوانح عمریاں شائع ہوتی ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں بکتی ہیں۔

ان میں سے کئی تو عالمی سطح پربیسٹ سیلرکا ریکارڈ قائم کرتی ہیں اور پھر ان پرفلمیں بھی بنتی ہیں۔یادداشتیں،آپ بیتی اور سوانح عمری لکھنے کا پہلا مقصد تو اپنے تجریات دوسروں تک پہنچانا ہوتاہے لیکن اس صنف کوادب میں دو حوالوں سے خاص اہمیت حاصل ہے ۔پہلا یاداشتوں میں ہڈ بیتی کے ساتھ ساتھ جگ بیتی بھی ہوتی ہے ،یہ ماضی کے حالات و واقعات اور اپنے عہد کی حقیقی تصویر ہوتی ہیں۔

دوسرا یہ کہ نامور لوگوں کے پرستار نہ صرف اپنی محبوب شخصیات کی زندگی کے اخلاقی،علمی اور فنی سفرکی روداد جاننا چاہتے ہیں بلکہ انہیں ان انسانی جبلتوں کی کارستانیوں،محبت،نفرت،رقابت اور شرارت بھری چھوٹی چھوٹی داستانوں اور روزمرہ پیش آنے والے معمولی اور غیر معمولی واقعات سے آگاہی میں بھی دلچسپی ہوتی ہے۔
ہندوستان میں فارسی زبان میں لکھی جانے والی پہلی سوانح عمری کا اعزاز خدائے سخن کا لقب پانے والے شاعر میر تقی میر کی آپ بیتی ”ذکر میر“کو حاصل ہوا ہے۔

جب کہ 1885میں منظر عام پر آنے والی نواب صدیق خان کی البقالمنن اور مولانا جعفر تھانسری کی”کالا پانی… تواریخ عجیب“اردو زبان کی اولین آپ بیتیاں ہیں، ان میں پہلی کون سی ہے اس حوالے سے محققین میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ کیونکہ دونوں کا سنہ اشاعت ایک ہی ہے۔ آج اردو ادب کا ذخیرہ سیکڑوں یادداشتوں اور سوانح عمریوں سے بھرا پڑا ہے ان میں شوخ بیان بھی ہے اور ذکرِ جمالِ یار بھی!کچھ اپنے عہد کا عکس ہیں اورکچھ اس عہد کے آدمی کے اندر کی تصویر۔


نامور لوگوں کی یادداشتیں پڑھنے کے مقابلے میں” ان کی کہانی ان کی زبانی“ سننے میں اور بھی لطف ہے اور اپنی یادیں سنانے میں اس سے بھی کہیں زیادہ۔اگر معاملہ یوں نہ ہو
یادِ ماضی عذاب ہے یا رب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
معروف شاعر ،دانش،کالم نگار اور ادیب،عطا ء الحق قاسمی نے یقینااسی حقیقت کا ادارک کرتے ہوتے 23سے25مئی الحمرا لاہورمیں پانچویں انٹرنیشنل کانفرنس کو” بیتے ہوئے دن یاد آتے ہیں “ کے عنوان سے منعقد کرنے کا فیصلہ کیا۔

اس اچھوتے خیال اور عظیم مقصد کے لیے منعقد ہ اس تقریب کے حوالے سے بہت کچھ لکھا جاسکتاہے۔ اس تین روزہ تقریب کی کئی جہتیں تھیں، ایک طرف یہ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے نامور لوگوں کا ایک دلکش اجتماع تھا جو مختلف رنگوں کے پھولوں کاایک مہکتا گلدستہ بن گیا تھا جس سے لاہور میں مئی کے تپتے دن بہار بن گئے تھے۔ہر سیشن میں مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے اپنے بیتے دنوں کی یادیں سنائیں۔

جہاں کمال اور جمال کے تذکروں سے رنگین اس محفل میں ملک اور بیرون ملک سے آئے ہوئے نامور لوگوں کو ایک دوسرے کی زندگی کی نشیب و فراز سے آگہی کا موقع ملا وہاں نئی نسل کو بھی عملی زندگی میں راہیں متعین کرنے اور منزل کو پانے کے لیے جہد مسلسل کی تحریک ملی۔
بیتے دنوں کی یادیں سنانے والوں میں ادیب،محققین،شاعر،صحافی،استاد،ڈراما نگار،مصور،بیوروکریٹ،کھلاڑی،سیاستدان،سماجی کارکن،بزنس مین،فنکار اور گلوکار شامل تھے۔

ان ساعتوں میں ایک طرف درجنوں شخصیات اپنے ماضی کے تلخ و شریں یادیں سنانے کے لیے موجود تھیں تودوسری طرف بے شمار لوگ سننے کے لیے ہمہ تن گوش تھے۔ یوں ان تین دنوں میں سننے اور سنانے،سمجھنے اور سمجھانے،ہنسنے اور ہنسانے کا اک جہاں تھا جو لاہور کے مال روڈ پرایستادہ الحمرا ہالز کے اندر اور باہر آباد رہا۔اس کانفرنس کا سب سے پرلطف پہلو نامور لوگوں کی زندگی کی دلچسپ بلکہ پوشیدہ اور پیچیدہ واقعات سے بھی لطف اندوز ہونے کا موقع ملناتھا۔

محترم عطاء الحق قاسمی کوشاید اپنے اس انوکھے خیال کے کرشمے کا اندازہ تھا یا نہیں۔اس کانفرس میں مقررین پرایسا فسوں طاری ہوا کہ حال دل سناتے سناتے وہ کچھ بھی سنا گئے جسے چھپاتے چھپاتے عمربیت گئی تھی کچھ پر تو جادو ایسا سر چڑ ھ کر بولا کہ انہوں نے کئی ہم عصروں کے ”بھید “بھی کھول دیے۔اس کانفرس کاایک خوبصورت پہلو ”محمود و ایازکا ایک ہوجانا تھا۔

تقریب میں کتنے ہی نامور لوگوں کو عام لوگوں کے ساتھ گھلتے ملتے دیکھااور یوں یہ تقریب وحشت اور گھٹن کے ماحول میں تازہ ہوا کا جھونکا بن کر شہر لاہور کی فضاؤں میں خوشی اور محبت کا پیغام لے کر اتری۔
یہ تقریب علمی و ادبی رنگ کے ساتھ ساتھ ترقی و کامیابی کی منزل کو پانے کی تربیت کا ذائقہ بھی لیے ہوئے تھی۔ تقریب کے دوسرے دن میں جناب مبین رشید کے ساتھ الحمراکے مین گیٹ سے داخل ہوا تو وفاقی وزیر اطلاعات جناب پرویز رشید کوبغیر کسی پروٹوکول کے گیٹ کی طرف پیدل آتے دیکھا۔

ہم سے سلام دعا لے کر وہ گیٹ کی طرف بڑھ گئے ۔میں نے مبین رشید سے حیرت میں ڈوبے ہوئے لہجے میں کہا کہ پرویز رشید صاحب وفاقی وزیر ہونے کے باوجود پولیس گارڈ اور مصاحبین کی فوج کے بغیر تقریب میں شرکت کے لیے آئے تھے۔ مبین رشید نے مجھے یہ بتاکر مزید حیران کردیا کہ وہ ہر تقریب میں اسی طرح اپنی گاڑی خود ڈرائیو کرکے شریک ہوتے ہیں۔
یہ واقعہ اس کانفرنس کا حاصل تھا جو میری یادوں کا حصہ بن گیا ہے اور کبھی مجھے بیتے دنوں کی یادیں سنانے کا موقع ملا تو میں جناب پرویز رشید کے عجزاور انکساری کی اس جھلک کا تذکرہ ضرور کروں گا۔


جناب عطاء الحق قاسمی کی شخصیت کے بھی اسی نوعیت کے کئی قابل ذکر اور قابل تقلید پہلو ہیں۔ عزت ،شہرت اور مالی آسودگی بڑے بڑے ”پارساؤں“ اور” نظریاتی خداؤں“ کے قدم اکھاڑ دیتی ہے لیکن عالمی شہرت اور خوش حال لوگوں کی بستی میں سکونت اختیار کرنے کے باوجودعطاء الحق قاسمی نے زمین سے تعلق نہیں توڑا ۔میں نے انہیں علم و ادب اور فن و ثقافت کے میدان میں نیا نیا قدم رکھنے والوں کو بھی اتنی عزت،احترام اور محبت دیتے دیکھا ہے جتنی وہ ہم عصر شخصیات کو دیتے ہیں۔

دراصل یہ انکساری اور شکر گزاری ہی عطا ء الحق قاسمی کو لوگوں کے دلوں میں زندہ رکھے ہوئے ہے۔اس کانفرس کے دوران ایک خیال میرے ذہن میں مسلسل چمکتا رہا کہ الحمرا کے چیئرمین کی حیثیت سے عطاء الحق قاسمی نے اس ادارے کوپھر سے علم و ادب اور فن و ثقافت کا گہوارہ بنا دیاہے۔ اگر انہیں گورنر پنجاب کی ذمہ داری تفویض کردی جاتی تو پھر پورا صوبہ رنگوں،قہقہوں،خوشیوں اور روشنیوں سے منور ہوجاتا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :