سپریم کورٹ میں پوٹھوہاری شعر والا وکیل

جمعرات 5 جون 2014

A Waheed Murad

اے وحید مراد

ایک صحافی دن میں بہت سی ایسی چیزیں دیکھتا، سنتا اور نظرانداز کردیتا ہے جو عام لوگوں کیلئے بڑے واقعات یا خبریں سمجھی جاتی ہوں اور شاید غیرمعمولی باتیں تصور کی جاسکتی ہوں۔چلیں، آج ایسی ہی کچھ یادیں تازہ کرتے ہیں۔
یہ دوبرس قبل چار جنوری 2012کی ایک خوشگوار صبح تھی جب ایک وکیل جن کا نام بابراعوان ہے سپریم کورٹ میں معمول کے مطابق پیش ہوئے۔

عدالت میں وکیل عموما دوسروں کے مقدمات لڑنے کیلئے پیش ہوتے ہیں مگر بابراعوان جو پیپلزپارٹی کے رہنما بھی ہیں، اس وقت اپنے خلاف توہین عدالت کے ا یک نوٹس پر حاضرہوئے تھے۔(توہین عدالت کا نوٹس ان کو اس لیے ملا تھاکہ یکم دسمبر 2011کو اپنی پارٹی کے دیگر رہنماؤں کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس کی تھی جس میں سپریم کورٹ اور ایک جج پر سنگین نوعیت کے الزامات لگائے تھے)۔

(جاری ہے)


سپریم کورٹ میں جب سے بڑے بڑے مقدمات آئے ہیں اور آزاد عدلیہ بحال ہوئی ہے تب سے ٹی وی کیمرے اور ان کے پیچھے وہ گاڑیاں( ڈی ایس این جی) جو تصویر کو براہ راست اسکرین تک پہنچاتی ہیں،ہروقت پارکنگ میں کھڑی ہوتی ہیں، درمیان میں لوہے کی ایک چھوٹی سی دیوار(گرل) ہے اور دوسری جانب عدالت کا احاطہ،جہاں کوئی بھی مائیک کے سامنے آکراپنی بات عام لوگوں تک پہنچاسکتاہے۔


خیر، بات ہورہی تھی بابراعوان کی جو توہین عدالت کے ایک نوٹس میں سپریم کورٹ کے بنچ کے سامنے پیش ہونے کے بعد خوشی خوشی باہر نکلے تو وہاں موجود رپورٹرز ان کی جانب لپکے (یہ معمول کی بات ہے) کہ جناب کچھ’ٹاک شاک‘ ہوجائے۔ بابراعون نے کہاکہ چلیں بسم اللہ کرتے ہیں، کیمروں کے سامنے کھڑے ہوئے تو سوال کیا گیاکہ آپ کو توہین عدالت کا نوٹس ملا ہے اور آج عدالت نے ایک اور تاریخ دیدی ہے تو بتائیں کیا کہیں گے؟۔

بابر اعوان نے کہاکہ ایسے نوٹس کے جواب میں پوٹھوہاری کا ایک شعر سناؤں گا،اور پھر ان کی زبان سے نکلا کہ،
نوٹس ملیا، ککھ نہ ہلیا، کی سوہنڑیاں دا گلاکراں
اومیں لکھ واری بسم اللہ کراں
یعنی کہ نوٹس ملا، کچھ فرق نہ پڑا، میں کیوں پیاروں کا گلہ کروں، اور لاکھ بار بسم اللہ کروں۔
یہ شعر اور یہ ایونٹ اب پاکستان کی تاریخ میں شامل ہوچکا ہے، جب کبھی، جہاں کہیں بابراعوا ن کا ذکرہوگا ، سپریم کورٹ کے توہین عدالت کے نوٹس کا معاملہ سامنے آئے گا تو یہ بات سب کے چہروں پر مسکراہٹ لے آئے گی۔


بابراعوان کا یہ طنزیہ شعر ٹی وی چینل نے براہ ر است نشر کرنے کے بعدسارا دن اور پوری رات بار بار چلایا اور اگلے دن اخبارات میں بھی نمایاں طور پر شائع ہوا۔چنانچہ اس طنز اور تضحیک پر عدالت عظمی کو ایک بار پھر ایکشن لینا پڑا۔ پہلا مقدمہ ابھی جاری تھاکہ سپریم کورٹ نے بابراعوان کو اس شعر پر ایک بار پھر اظہار وجوہ کا نوٹس بھیج دیا۔ پانچ جنوری 2012کو بھیجے گئے نوٹس پر سترہ جنوری کو سماعت ہوئی تو بابر اعوان کی ویڈیو اور ان کی طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ شاعری کو ججوں سمیت کمرہ عدالت میں موجود ہرشخص نے پروجیکٹر پر ملاحظہ کیا۔

بابراعوان وضاحت پیش کرنے میں ناکام ہوئے تو ان کا سپریم کورٹ میں وکالت کرنے کا لائسنس منسوخ کردیاگیا۔
اس وقت بابر اعوان وفاقی وزیر قانون کے عہدے سے سبکدوش ہوچکے تھے، سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو سے ’حق وفاداری‘ ادا کرنے اور ان کو بعد ازموت انصاف دلانے کیلئے ظہیرالدین بابر اعوان نے صدارتی ریفرنس میں سپریم کورٹ کا رخ کیا تھا۔

اور یہ اتنا بڑا کام تھاکہ صدرمملکت آصف علی زرداری کو ان کا استعفی قبول کرنا پڑا، سندھ دھرتی کے ایک بیٹے مولا بخش چانڈیو کو کٹھ پتلی وزیر قانون بنایا گیا ، عملی طور پر بابر اعوان اور ان کے بھائی ہی قانون کی وفاقی وزارت کے کرتا دھرتا تھے۔ بابر اعوان ، بھٹو کو تو انصاف کیا دلاتے خود ان کو لینے کے دینے پڑ گئے، جب پہلے دن صدارتی ریفرنس میں عدالت عظمی آئے تو کیمروں کے سامنے بہت پرجوش تھے، ہر وہ بات کی فجو وہ اس موقع پر کہہ سکتے تھے، خطیب تو وہ بلا کے ہیں( وطن عزیزمیں ہر دوسرا بندہ باتوں کا بادشاہ ہے)۔

مگر ہمارے دوست عبدالشکور نے اس میڈیا ٹاک کا سارا مزا یہ پوچھ کر خراب کردیا کہ ’آپ نے ذوالفقار بھٹو کی پھانسی پر مٹھائی بانٹی تھی، کیا پہلے اس پر آپ خود معافی مانگیں گے؟ کیونکہ آپ سپریم کورٹ کے ججوں سے بھٹو کے خلاف فیصلے پر معافی منگوانے آئے ہیں‘۔(اس سوال کی ویڈیو کئی روز تک ٹی وی چینل کی اسکرینوں پر چلتی رہی، اور ابھی تک ریکارڈ میں محفوظ ہے)۔


سپریم کورٹ کا احاطہ میڈیا ٹاک کے شوقین سیاست دانوں اور وکیلوں کا مرکز رہا ہے، اعتزاز احسن ہوں یا رحمان ملک، جو بھی اعلی عدالت آیا، براہ راست ٹی وی اسکرین پر چلا گیا،ہر وقت کیمرے، سیٹلائیٹ وین اور صحافی موجود۔ اور پھر اس وقت سپریم کورٹ نے بھی کس کو بخشا، ہر کسی کا مقدمہ یہاں تک ہی تو آیا۔ چھوٹے کرپٹ سے لے کر وزرائے اعظم تک سب کو حاضری دینا پڑی۔

مشہور ٹھیکیدار ملک ریاض کی حاضری بھی تاریخی واقعہ تھی، کئی سوالوں کے جواب سے بچنے کیلئے انہوں نے سپریم کورٹ سے واپسی کے بعد مہنگے ہوٹل میں پریس کانفرنس کی۔
کسی بھی میڈیا ٹاک یا پریس کانفرنس میں سوالات ہوتے ہیں، یہ ایک ضروری جزو ہے، ایک صحافی کے پاس سب سے اہم ہتھیار ہی اس کا سوال ہوتا ہے مگر بہت سے مقامات پر سوالات ’مفادات اور سمجھوتے‘ کی دھند اور دھول میں گم ہوجاتے ہیں۔

چونکہ سپریم کورٹ کے رپورٹر کو کسی مفاد یا سمجھوتے سے اس کے فرائض کی ادائیگی کا مقام ہی دور کردیتا ہے اس لیے وہ عموما ایسے ’شکار‘ کا منتظر رہتا ہے جس سے اس کے اپنے علاقے میں کوئی سخت سوال نہیں کرتا۔مثلا کوئی سپورٹس رپورٹر مشکل سے ہی کرکٹ بورڈ کے چیئرمین سے ایسا سوال کرے گا کہ وہ ناگواری کااظہار کرے کیونکہ ٹیم کے ساتھ غیر ملکی دوروں پر انہی میں سے صحافیوں کو جانا ہوتا ہے۔

اس کے علاوہ بھی عام طور پر اپنی ’بیٹ‘ میں تعلقات اچھے رکھنے کا چال چلن ہے۔مگر لوگوں نے دیکھا کہ ٹی وی پروگراموں کے تجزیہ کار اور اپنے سامنے کسی کو ’کھانسنے‘ نہ دینے والے نجم سیٹھی کو سپریم کورٹ میں صرف چھ سوالوں کا سامنا کرنا پڑا تو روٹھ کر چلے گئے، کیمروں نے وہ مناظر محفوظ کرلیے اور یہ رہتی دنیا تک یاد رکھے جائیں گے۔

(کیونکہ سیٹھی صاحب بھی اپنے پرانے تجزیہ بار بار چلاتے ہیں کہ سچ ثابت ہوجاتے ہیں)۔
خیر، اس کالم کا اختتام کرتے ہیں، جہاں سے بات چلی تھی وہیں ختم کرتے ہیں۔ بابر اعوان دو برس اور چار ماہ تک اپنے پوٹھو ہاری شعر کے بعد سپریم کورٹ میں وکالت نہ کرسکے۔معافی تو انہوں نے مانگ لی تھی اور وہ بھی غیر مشروط مگر تکنیکی طور پر عدالت کو قبول نہ تھی۔

توہین عدالت کا مقدمہ ان کے خلاف ابھی تک زیر سماعت ہے، صرف ہوا یہ کہ 20مئی 2014کو ان کی جانب سے پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر عدالت میں پیش ہوئے، عدالت سے استدعا کی گئی کہ بہت عرصہ ہوگیا اب ان کا لائسنس بحال کردیا جائے۔ جج صاحبان نے معروضات سنیں اور عبوری طور جاری کیے گئے وکالت کے لائسنس کی معطلی کے احکامات واپس لے لیے۔
بابر اعوان خوشی خوشی عدالت سے باہر نکلے، کیمروں کے سامنے سے گزرنے لگے تو صحافیوں نے کہاکہ جناب، آئیں، بسم اللہ کریں، مطلب کہ کچھ ’ٹاک شاک‘ ہو جائے۔ مگر وہ اپنے مخصوص انداز کی مسکراہٹ کے ساتھ ہاتھ ہلاتے ہوئے آگے بڑھ گئے، ایک رپورٹر نے آواز دی، سر، آئیں نا، ایک پوٹھو ہاری شعر ہی ہو جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :