نواز، مودی ملاقات ․․․․․․․نئے امن عمل کی شروعات

منگل 3 جون 2014

Zubair Ahmad Zaheer

زبیر احمد ظہیر

نواز شریف نے دورہ بھارت سے نئی نویلی حکومت کاقد کاٹھ بڑھا دیا ہے ۔اور یوں مودی کی نومولودحکومت پاکستان کی پہلے دن کی مخالفت سے بچ گئی ۔بھارت کے نو منتخب وزیر اعظم نریندر مودی کی حلف برداری تقریب میں نواز شریف نے شرکت کر کے پاکستان کی جانب سے پہل کردی ہے ۔وزیر اعظم پاکستان نینئی بھارتی حکومت کو عالمی تنہائی اور پاکستان کی مخالفت کے خطرے سے بھی بچا لیا ہے ۔پاکستان جنوبی ایشیاء میں انتہائی اہم ملک ہے ۔دونوں ممالک کی حکومتوں کے ایک دوسرے پر گہرے اثرات ہوتے ہیں ۔پاکستان اور بھارت کا کردار عالمی سیاست میں حکومت اور اپوزیشن کاسا ہے ۔دوطرفہ معاملات میں کہیں حکومت بھارت کے ہاتھ میں ہوتی ہے اورپاکستان کا کردار اپوزیشن کا ہوتا ہے اور کہیں حکومت پاکستان کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور انڈیا کا کردار اپوزیشن کا سا ہوتا ہے ۔

(جاری ہے)

یوں سمجھ لیجئے نواز شریف نے نئی حکومت کے آغاز میں دورہ کرکے اپوزیشن کا ووٹ بھی مودی کے پلڑے میں ڈال دیا ہے ۔عالمی سطح پر دونوں ممالک میں ازلی دشمنی اور دونوں ایٹمی ممالک ہونے کے ناطے دونوں کی ایک دوسرے کے خلاف باتوں پر عالمی برادری بڑی سنجیدیگی سے توجہ دیتی ہے ۔وزیراعظم نوازشریف نے تمام خطرات خدشات کو بالائیطاق رکھتے ہوئے امن عمل کی شروعات میں پہل کردی ہے ۔اب اس قرض کو چکانا ،اس فرض کو نبھانا مودی کی ذمہ داری ہے ۔نوازشریف بھی مذہب پسند سمجھے جاتے ہیں اور مودی کے ہندوازم پر کوئی شک نہیں ۔اس لحاظ سے دونوں کا قریب آنا معمولی امر نہیں ۔اس لیے نواز شریف کی پہلی پیش رفت کو عالمی اور علاقائی سطح پر رشک بھری نگاہوں سے دیکھا جارہا ہے ۔
نوازشریف کے دورے بھارت کو سفارتی تناظر میں بڑا معنی خیز سمجھا جارہا ہے ۔ریاستوں کے تعلقات میں ابتدائی شروعات کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے ۔نواز شریف نے حلف تقریب میں شرکت کی دعوت قبول کرکے پاک بھارت تعلقات کے لیے نئی سفارتی راہیں کھول دی ہیں ۔ نوازشریف کا اچانک دعوت قبول کرنا بظاہر حیران کن ہے مگر یہ گزشتہ چھ ماہ سے جاری پاک بھارت پس پردہ سفارتی کاری کا نتیجہ ہے ۔پس پردہ سفارت کاری میں نریندر مودی نے پاکستان کو مثبت تعلقات کی ٹھوس یقین دہانی کروائی ہے ۔اس خفیہ سفارت کاری میں1999 اٹل بہاری واجپائی اور نواز شریف کے مابین اعلان لاہور نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے ۔نریندر مودی نے پاکستان کو یقین دلایا ہے کہ وہ اٹل بہاری واجپائی کی پالیسی کو آگے بڑھائیں گے ۔اعلان لاہور بی جے پی اور نواز شریف کی ن لیگ کے مابین مشترکہ دستاویزی نکتہ ہے ۔
نواز شریف نے مذہبی جماعتوں اور نظریاتی طاقتوں کی مخالفت کے باوجود بھارت کا دورہ کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ پاکستان کی قیادت عملاان کے ہاتھ میں ہے اور برقت فیصلہ کرنا بھی نواز شریف بخوبی جانتے ہیں ۔عوامی رائے کی مخالفت کا خطرہ مول کر بھارت جانا بڑے دل گردے کا کام ہے اور نوازشریف نے بھارت پر ثابت کردیا ہے کہ پاکستان میں ان دنوں حکومت فیصلہ ساز سیاستدان کے ہاتھ میں ہے ۔
من موہن سنگھ میں یہ ہی کمی تھی وہ بیوروکریسی کی آنکھ سے دیکھتے تھے اور خود فیصلہ کرنے کی سکت سے عاری تھے ۔بھارت کے نئے وزیراعظم نریندر مودی میں یہ خامی نہیں بلکہ وہ فیصلہ کرنے کی قوت سے مالا مال ہیں ۔ایک طویل سیاسی سفر نے انہیں فیصلہ سازی کی دولت وافر دے رکھی ہے ۔ممالک کے تعلقات میں دنوں ملکی شخصیات کا فیصلہ ساز ہونا نہایت ضروری ہے ۔ماضی کے مذاکرات کی ناکامی میں یہ عنصر بہت اہم کارفرما رہا ہے ۔ہم امید کرتے ہیں کہ مودی حکومت سے جو بھی پاکستان کی بات چیت ہوگی ،فیصلہ کن ہوگی ۔اس لیے پاک بھارت تعلقات اور تنازعات کے خاتمے میں پیش رفت کی غالب توقعات ہیں ۔مودی اور نواز شریف کی پہلی باقاعدہ ملاقات میں زیادہ توقعات نہیں کی جاسکتی ۔مودی ابھی نئی حکومت کے بکھیڑوں میں مصروف ہونگے ،رسمی سی تعارفی ملاقات ہوگی ۔باقاعدہ مذاکرات کے عہدہ وپیمان ہونگے ۔
وزیراعظم پاکستان نے دورہ بھارت سے قبل میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو مودی سے متعلق کوئی خدشات نہیں ۔بھارتیہ جنتا پارٹی نے بھارتی انتخابات میں 543 کے ایوان میں 282نشستیں حاصل کرکے بھاری اکثریت حاصل کی ہے ۔پاکستان میں نوازشریفکو بھی اکثریتی ووٹ ملے ،یوں دونوں جماعتوں کو عوام کی اکثریتی حمایت حاصل ہے ۔یوں ان دونوں کا مل بیٹھنا جنوبی ایشیائی عوام کے لیے کسی فائدے سے خالی نہیں ۔
جہاں تک نرنیدر مودی کے ماضی کا تعلق ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ۔وہ ہمیشہ ہی انتہاپسند ہندو جماعت کے کارکن رہے ہیں ۔حالیہ الیکشن میں بھی آر ایس ایس نے ایڑی چوٹی کو زور لگا کر بی جے پی کو کامیابی دلوائی ہے ۔270انتخابی حلقوں میں باقاعدہ مذہبی مہم چلائی گئی۔اور ہندو توا کو بچانے کی آخری کوشش اور امید کا نام دیا گیا ۔1977میں ایمرجنسی کے بعداندار گاندھی کو شکست دینے کے لیے بھی آرایس ایس نے باقاعدہ مہم چلائی تھی ۔حالیہ الیکشن اور 1977میں جب بھی آرا یس ایس نے بڑھ چڑھ کر کوشش کی تو بھارتی انتخابات پر بی جے پی کا پلہ بھاری رہا ۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بی جے پی کی اصل طاقت آرا یس ایس کی گھر گھر مہم میں پوشیدہ ہے ۔یوں جیت کا سہر ہندوانتہا پسند تنظیموں کے سر سجے گا ،لہذٰا بی جے پی اور ہندو انتہا پسندی کو الگ نہیں کیا جاسکتا ۔تاہم نریندر مودی نے انتخابات کے دوران بیانات اور اپنے اقدامات کے ذریعے خود کوبدلنے کا تاثر ضرور دیا اور وہ کسی حد تک اس ہندو انتہا پسندی کی شناخت کو کم کرنے میں کامیاب ہوگے ہیں ۔پاکستان کے ساتھ بھی انہوں نے پہلے ہی خفیہ راہ رسم بڑھا لی تھی ۔اور پاکستان کے خدشات کو دور کرکے قربت پیداکر لی ۔مودی کی طاقت ہندو انتہا پسندی ہے ۔اور اقتدار میں آنے کے لییہندو انتہا پسندی کی سیڑھی بے حد ضروری تھی ۔اقتدار میں آکر مودی نے پوری دنیا سے تعلقات استوار کرنے ہیں ۔دنیا سے تعلقات ہندو تنگ نظری کی بنیادپر استوار نہیں کیے جاسکتے ۔اس لیے انتخابات کے دوران اور بعد میں حکومت سازی کے لیے مودی نے اپنے اقدامات میں خندہ پیشانی اور وسعت ظرفی کو نمایا ں جگہ دی تاکہ ماضی کی بدنامیوں سے بچا جاسکے ۔اپوزیشن کی سیاست کچھ اور ہوتی ہے اور اقتدار کی سیاست کچھ اور ہوتی ہے ۔ہم سمجھتے ہیں کہ مودی اقتدار کی سیاست کی نزاکتوں کا خیال رکھتے ہوئے پاکستان سے تنازعات کے خاتمے کو ترجیح دینگے ۔مودی نے دنیا میں خود کو بدلا ہواسیاستدان باور کرانے میں کامیابی حاصل کر لی ہے ۔مودی کی عالمی سیاست میں سب سے بڑی اور پہلی کامیابی نوازشریف کا دورہ بھارت ہے ۔اب نوازشریف کی پہل قدمی اور پیش رفت کی لاج رکھنا مودی کی ذمہ داری ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :