غیرت ہے کیا

ہفتہ 31 مئی 2014

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

دو ہی دن قبل لاہور ہائی کورٹ کے باہر خاتون کو والد اور بھائی سمیت دو درجن سے زائد حملہ آوروں نے اینٹیں مار کر ہلاک کردیا تھا۔دن دہاڑے ملک کے دوسرے سب سے بڑے شہر اور صوبائی دارالحکومت میں اس وحشیانہ قتل کی پاکستان سمیت دنیا بھر میں شدید مذمت کی گئی ۔اور اب فرزانہ کے 45 سالہ شوہر محمد اقبال نے اپنی پہلی بیوی کو قتل کرنے کا انکشاف کیا ہے۔

'میں فرزانہ کی محبت میں مبتلا ہو گیا تھا اور اسی محبت کی وجہ سے میں نے اپنی پہلی بیوی کو گلا گھنونٹ کر ہلاک کر دیا تھا'۔اقبال نے مزید بتایا کہ میرے بیٹے نے اس حوالے سے پولیس کو اطلاع دی لیکن بعد میں اس کی جانب سے خون بہا کے قانون کے تحت معافی ملنے کے بعد وہ قید کی سزا سے بچ نکلے تھے۔قتل کی واردات کا اقرار کرنے کے بعد انہوں نے اپنا موبائل فون بند کردیا اور مزید کسی کال کا جواب نہیں دیا۔

(جاری ہے)

انسانی حقوق کی تنظیموں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اسی خون بہا کے قانون کے باعث پروین کے قاتلوں کو بھی معافی مل سکتی ہے۔فرزانہ کے قتل کی تحقیقات کرنے والے ایک سینئر پولیس افسر ذوالفقار حمید نے بتایا کہ کہ اقبال ایک بدنام شخص ہے جس نے چھ سال پہلے اپنی پہلی بیوی کا قتل کیا۔ ان کے خلاف مقدمہ بھی درج کیا گیا تھا اور وہ کئی ہفتوں تک مفرور رہے تھے۔

'حمید کو گرفتار کیا گیا تھا لیکن بعد میں اہل خانہ سے ان کے معاملات طے ہو گئے تھے جس کے بعد انہیں چھوڑ دیا گیا'۔صوبہ پنجاب کے ضلع جڑانوالہ سے تعلق رکھنے والے اقبال کے مطابق پروین کے اہلخانہ انے ابتدائی طور پر شادی کی حامی بھر لی تھی لیکن بعد میں وہ اپنی بات مکر گئے کیونکہ وہ جہیز میں بڑی رقم پانا چاہتے تھے۔پاکستان کے آزاد انسانی حقوق کمیشن کے مطابق گزشتہ سال غیرت کے نام ملک بھر میں 869 خواتین کو قتل کیا گیا۔


اس خاتون کا قتل گوکہ غیرت کے نام پر کیاگیا اور آمدہ اطلاعات کے مطابق پروین کی دوسری شادی پر اس کاوالد اور بھائی ناخوش تھے
صاحبو! یہ نہ تو پہلاواقعہ ہے اورنہ ہی اسے آخری سمجھاجانا چاہئے۔ کیونکہ یہ واقعات پہلے بھی جاری تھے اورآئند ہ بھی رہیں گے ۔بنیادی طورپر اسے شعور کی کمی گرداناجاتا ہے تاہم حقیقت یہ ہے کہ ان واقعات میں صرف ان پڑھ ہی نہیں بلکہ بڑے بڑے پڑھے لکھے افراد بھی شامل ہیں ۔

ہوسکتا ہے کہ لاہور میں ہونیوالا یہ واقعہ واقعی غیرت کے قتل کے زمرے میں آتا ہو لیکن اگر بادی النظر میں دیکھا جائے تو پاکستان میں ایسے واقعات کی بہتات ہے اور ان میں شاذ و نادر ہی کوئی واقعہ درست ہو۔
یہ بھی تسلیم کہ موجودہ دور میں عشق ‘محبت کے نام پرجس انداز میں جسموں کاکاروبار جاری ہے وہ قابل مذمت ہی نہیں کریہہ آمیز بھی ہے تاہم ایسے واقعات بھی پاکستان کے ماتھے پر شرمناک دھبہ ہیں۔

اب آتے ہیں دوسری جانب ‘ یہ غیرت ہے کیا؟؟ کوئی انجان شخص کسی کی بہن بیٹی کو چھیڑے‘ یا حالت غیر میں پایاجائے تو پھر لازمی امر یہ ہے کہ والد بھائی والدہ کاخون کھول اٹھتا ہے اوروہ بھی انتہا تک پہنچ جاتے ہیں یعنی مارا ماری کی حد تک بات جاپہنچتی ہے ۔ اسی طرح سے اگرکوئی خاتون یا لڑکی جانے انجانے میں کسی مرد کے چنگل میں پھنس کر عزت گنوا بیٹھتی ہے اورپھرمجبورا ًیا اپنی خواہش کے مطابق اسی راہ پر چلتی رہے تو پھر اہل خانہ جن میں والد‘ بھائی والدہ یا پھر چچا کزن وغیرہ شامل ہیں اس لڑکی سمیت ذمہ دار مرد کو بھی ٹھکانے لگادیتے ہیں۔

یہ سوچے بنا کہ ایک جرم کے بدلے کتنا نقصان اٹھاناپڑیگا۔ہم یہ بھی نہیں کہتے کہ آنکھوں سے دیکھتے ہوئے کچھ نہ کیاجائے تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ بعض اوقات لڑکیاں بہکاوے میں آکر یا خوشنما مستقبل کے خواب دیکھتے ہوئے گھر اور گھر کی عزت تک فراموش کردیتی ہیں۔ یہ فعل صرف کنواری لڑکیوں کے ساتھ نہیں بلکہ شادی شدہ اوربال بچے دار خواتین کے ساتھ بھی ایسا ہوتا ہے۔

اگر اسی تناظر میں دیکھاجائے تو لاہور ہائیکورٹ کے سامنے قتل ہونیوالی فرزانہ نے بھی یہی کچھ کیا۔تاہم اس نے شادی کے وقت یہ تک نہیں سوچا کہ اس کا انجام کیا ہوگا۔ ظاہر ہے کہ اب قانون کے مطابق کاروائی ہوگی‘ فرزانہ کے والد‘ بھائی اورمبینہ طور سابقہ شوہر بھی شکنجے میں جکڑاجائیگا اور رسوائی الگ ‘ یعنی غیرت کے نام پر کئے گئے قتل کے کتنے مضمرات سامنے آتے ہیں
چند سال قبل ہی کا واقعہ ہے کہ ایک لڑکی نے اپنے والد کو شکایت کی کہ کالج سے واپس آتے ہوئے فلاں فلاں لڑکا اسے چھیڑتاہے‘ باپ نے دو دفعہ سمجھانے کاوعدہ کیا لیکن جب بات ہاتھ پکڑنے تک پہنچی تو پھر باپ طیش میں آگیا اوراسی حالت میں اس نے نوجوان کو قتل کرڈالا۔

بدقسمتی سے اس لڑکی کا کوئی بھائی نہیں تھا ۔ والدہ بیمار تھیں‘ جونہی وہ باپ سے ملاقات کیلئے جیل جاتی تو ایک عجیب سی اذیت کاسامنا ہوتا ‘جیل عملہ کی نگاہیں اورپھر محلہ ‘آس پاس کے آوارہ نوجوانوں کی بدتمیزیاں‘ گستاخیاں بھی بڑھ گئیں بات یہاں تک پہنچ گئی کہ اس لڑکی کی عزت لوٹنے کی کوشش کی جاتی رہی‘ باپ جیل کی سلاخیں پکڑپکڑکرچیختا روتا رہا کہ ”کاش ا سوقت میں جوش میں آکر یہ جرم نہ کیاہوتا اورقانون کاراستہ اختیار کرتاتوآ ج میری بچی یو ں بے آسرا نہ ہوتی“
بعد کے حالات کاپتہ نہیں کیا ہوا تاہم اس امر سے انکار ممکن نہیں ہے کہ ایسے واقعات کے بعد پھر کئی گھرانے بھی تباہی سے دوچارہوجاتے ہیں۔

ایک علاقہ میں غیرت کے نام پرقتل وغارت بہت زیادہ ہوتی ہے وہاں ایک لڑکی لڑکے کو پسند کی شادی کے جرم میں غیرت کے نام پرقتل کردیاجاتا ہے پھر کیاہوتاہے جب دو بھائیوں کو سزائے موت کے عدالتی احکامات موصول ہوتے ہیں توپھر اہل خانہ کو
پریشانی لاحق ہوتی ہے۔ مقتول گھرانے سے صلح صفائی کی بات ہوتی ہے اورپھر ”ساک “ (بدل میں بچیوں کارشتہ )کی بات ہوتی ہے ۔

اب مقتول کے خاندان پر منحصر ہوتاہے کہ وہ ایک رشتہ قبول کرلے یا دو پر راضی ہوجائے۔ گویا ایک محبت کی شادی کے بدلے زبردستی دو بچیوں کارشتہ‘پھر یہ بھی دیکھئے اس جرم کے بدلے ”ساک“ میں دی گئی بچیوں کے ساتھ عمر بھر سسرال میں کیاہوتاہے ؟ یہ کہانی الگ ہے۔
ہمارا نقطہ نظر محض اتنا ہے کہ اسلامی احکامات کی روشنی میں اگر بچیوں کی پسند کو بھی مدنظررکھاجائے تو زیادہ بہترہوگا نیز ایسے معاملات کا تعلق براہ راست والدین ‘ معاشرہ میں اس لڑکی یا لڑکے سے منسلک لوگوں سے ہوتا ہے ۔

ضروری ہے کہ بچوں ‘بچیوں کی محافل‘ دوستانوں پر نظر رکھی جائے نیز اگر کبھی کوئی واقعہ سامنے آئے تو اس کو ملکی قوانین کی روشنی میں طے کیاجائے یقینا جوش میں اٹھایا گیا کوئی بھی قدم زندگی بھر کیلئے پچھتاوا بن جاتاہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :