سپاہی کبھی مرتا نہیں

منگل 27 مئی 2014

Israr Ahmad Raja

اسرار احمد راجہ

”Soldier Never Dies“مشہور امریکی جرنیل جنرل میکارتھر کی تصنیف ہے۔میکارتھر امیر کبیر امریکی گھرانے کا چشم و چراغ تھا مگر جوانی میں دولت اور امارت کی خواہش کی جگہ سپاہیانہ زندگی نے لے لی میکارتھر پیدائشی سپاہی تھا جس نے کوریا کی جنگ میں اہم کردار ادا کیا۔میکارتھر کی کتاب”سپاہی کبھی مرتا نہیں“ایک سپاہی کی ظاہری اور باطنی زندگی کا بہترین عکاس ہے۔

میکارتھر کا سپاہی پر وہ شخص ہے جو جوانی میں سپاہ گری کا پیشہ اختیار کرتا ہے تربیت حاصل کرتا ہے،یونیفارم پہنتا ہے ،ایک ریگولر ڈسپلنڈ زندگی گزارتا ہے،اس کے کھانے پینے،سونے جاگنے،عبادات کرنے،مختلف مواقع پر مختلف لباس پہننے،جمالی اور فوجی مشقیں کرنے،ہتھیاروں کی سیکھلائی اور مہارت حاصل کرنے سے لیکر تفریحات اور زندگی کے دیگر اوقات مقرر ہوتے ہیں ایک مدت تک اس ماحول سے جڑے رہنے کی وجہ سے وہ ایک مخصوص طرز زندگی کا عادی ہوجاتا ہے اور پھر کبھی بھی اس زندگی سے جدائی کا تصور نہیں کرتا۔

(جاری ہے)

کامریڈ شپ اسکی زندگی کا اہم حصہ بن جاتا ہے جسے سپاہیانہ طرز معاشرت بھی کہا جاتا ہے۔جو بھی شخص اس طرز معاشرت کا خوگر ہوتا ہے وہ چاہیئے ایک عام سپاہی ہو یاجرنیل وہ سپاہی ہی کہلاتا ہے۔سپاہی کبھی مرتا نہیں چونکہ وہ جس زندگی سے منسلک ہوتا ہے وہ ہمیشہ قائم رہتی ہے یہ زندگی ازلی و ابدی چیز ہے جسے موت نہیں آتی۔سپاہی ایک زندہ یا مردہ شخص کا نام نہیں۔

یہ ایک پیشے ایک طرز زندگی،ایک فن اور ایک ہنر کا نام ہے۔کرہ ارض پر جب انسانی معاشرہ اور ریاست قائم ہوئی تو اس کی حفاظت کا ذمہ ایک سپاہی نے لیا۔وہ غاروں کے دھانوں،گاس کی جھونپڑیوں،پتھر وں کی دیواروں،چمڑے کے خیموں اور مٹی کے گروندوں،جانوروں کے باڑوں اور کھیتوں کے کناروں پر کبھی لاٹھی،کبھی کلہاڑی،کبھی تلوار،کبھی ترکش و تیر اور کبھی کنکریاں اور غلیل لیکر کھڑا ہوگیا تاکہ کھیت،گھر،غاریں اور خیمیں حملہ آور درندوں اور مخالف قبائلیوں سے محفوظ رہیں۔

قبائلی معاشرہ قائم ہوا تو قبیلے کے سارے مردوں کہ ہتھیاربند ہونا پڑا تاکہ مخالف قبیلوں کے حملوں کا مقابلہ کیا جائے۔قبائلی معاشرے کی اگلی شکل قبائلی ریاست تھی جس کی حدود متعین کی گئی اور بہت سے قبیلوں نے باہمی اشتراک سے ایک ریاست کے قیام پر اتفاق کیا۔ریاست کے قیام اور قبائل کے باہم اتفاق اور مل جل کر رہنے کے اتحاد کو سوشل کنٹریکٹ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

سوشل کنٹریکٹ اور ریاست کے قیام نے ایک حکومت،حکمران،عدلیہ،قانون سازادارے کے قیام کے علاوہ ایک ایسے ادارے کے قیام کی ضرورت کو بھی اجاگر کیا جو ریاست کے افراد ،ان کی جان و مال اور جغرافیائی حدود کی حفاظت کرے۔ریاست کے ابتدائی قیام سے لیکر جدید معاشرے کی ابتداء تک فوجی ادارہ مختلف شکلوں میں رہا اور ضرورت کے مطابق اسکی شکل بدلتی رہی۔

ریاست کے قیام کے بعد بادشاہ اپنی ذاتی جائیداد،قلعے کی حفاظت کیلئے اپنے قبیلے کے صحت مند نوجوانوں پر مشتمل ایک باقاعدہ فوج تیار کرتا اور اسے ہرلمحے تیاری کی حالت میں رکھتا۔قلعے کی فصیلوں،برجوں اور اندرون شہر فوجی پہرہ دیتے اور گشت کرتے تاکہ شہر پناہ میں امن قائم رہے۔قلعے کے اندر شاہی محلات کی حفاظت کیلئے الگ دستے متعین کیے جاتے اور اکثر اوقات ایک خفیہ راستے یا سرنگ کے ذریعے محل سے فرار کا راستہ بھی بنایا جاتا تاکہ ہنگامی حالت میں شاہی خاندان اور خزانے کو کسی دوسری جگہ منتقل کیا جائے۔

باقاعدہ فوج جو مختصر دستوں پر مشتمل ہوتی کا سپہ سالار بادشاہ کا ولی عہد یا کوئی شہزادہ ہوتا جبکہ چھوٹے کمانڈروں اور سپاہیوں کا چناؤ بڑی احتیاط سے کیا جاتا۔یہ فوج ایک طرح سے خاندانی فوج ہوتی جس کے کمانڈروں اور سپاہیوں کی موت،بیماری یا عمر کی زیادتی کے بعد اس کا بھائی یا بیٹا باپ کی جگہ لیا۔ریاست پر حملے یاکسی دوسری ریاست کے خلاف جنگ کی صورت میں ہر قبیلہ مال غنیمت اور لوٹ مار کے لالچ میں اپنے قبیلے کے جوانوں پر مشتمل دستے بادشاہ کے حکم پر میدان جنگ میں لاتا۔

فتح کی صورت میں دشمن ریاست کا مال اور اسباب لوٹ لیا جاتا،عورتوں اور بچوں کو غلام بنایا جاتا اور مردوں کو تہہ تیغ کر دیا جاتا۔مال و دولت اور عورتوں کی ہوس میں بڑے بڑے لشکر جمع ہوتے اور جن علاقوں سے گزرتے وہاں کھیت کھلیان سے لیکر مال مویشی تک تباہ کر دیتے۔ان لشکروں کے کھانے پینے کا کوئی انتظام نہ ہوتا اور نہ ہی انھیں تنخواہ یا پنشن ملتی۔

اکثر لشکر بھوک اور بیماری کا شکار بھی ہوجاتے اور لمبی مسافت کی وجہ سے کم لوگ ہی واپس لوٹتے۔شاہی دستے جنھیں شہر پناہ،قلعے،خزانے اور شاہی محلات کیلئے متعین کیا جاتا انھیں تنخواہ،راشن،رہائش،لباس اور دیگر مراعات بھی ملتیں اور یہ دستے باقاعدہ جنگ میں شریک نہ ہوتے۔سکندر اعظم ، ہنی بال،ہلاکو سے لیکر مغلیہ عہد تک فوج کی ترتیب و تنظیم انھیں خطوط پر استوار رہی۔


باقاعدہ فوج،اس کی تربیت،جوانوں کا چناؤ اور دیگر مراحات کا سلسلہ یونانی ریاستوں کے قیام سے شروع ہوا جب سپارٹر میں ایک ملٹری اکیڈمی کا قیام وجود میں آیا جہاں کم عمر بچوں کو عسکری تربیت دی جاتی۔یونانی ریاستیں شہری ریاستیں تھیں جن کی آبادی کم اور رقبہ مختصر تھا۔مقدونیہ کا سکندر جب عالمی فتوحات کیلئے نکلا تو اسے مروجہ عسکری نظام سے ہٹ کر لام بندی کا ہی سہارا لینا پڑا۔

سکندر نے افریقہ اور ایشیائے کو چک کی فتوحات کے بعد مفتوعہ ریاستوں کے قبائل کو بھی ساتھ ملایا اور ان ہی کے قبیلوں کے کمانڈر بھی مقرر کیئے تاکہ قبائلی عصبیت برقرار رہے اور مختلف ممالک کے قبیلے ایک دوسرے پر برتری کا رعب جمانے اور جرأت،بہادری کی نئی تاریخ رقم کرنے کے لالچ میں بڑھ چڑھ کر دشمن کا مقابلہ کریں۔یہی وجہ تھی کہ اربیلہ کی جنگ میں تین لاکھ ایرانی دارا کی دلیرانہ قیادت کے باوجود پچاس ہزار یونانیوں کا مقابلہ نہ کرسکے ۔


جنگوں میں لوٹ مار کا عنصر ہمیشہ سے غالت رہا اور قبائل اسی ہوس و لالچ کے تحت خوانخوار جنگجوؤں کو میدان کا رزار میں جھونکتے رہے وحشی قبائل کی جنگیں ہوں یا ہوس ملک گیری کے تمنائی بادشاہوں کی یلغاریں۔دفاعی جنگیں ہوں یا پڑوسی ریاستوں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر انھیں مغلوب کرنے کا بہانہ جنگ کی جو بھی شکل رہی ہو اس میں قبائلی عصبیت کا عنصر ہمیشہ سے ہی غالب رہا ہے۔

قبائل اپنے جری بہادروں اور میدان جنگ کے ہیروز کو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھتے جبکہ قبائلی نوجوان ان فاتحین یا پھر میدان جنگ میں بہادری کے جوہر دکھاتے ہوئے جان دینے والوں کو اپناآئیڈیل تصور کرتے اور ان کی تقلید میں میدان جنگ میں جانے کے خواہش مند رہتے۔شاعر ان کی بہادری کو اپنے اشعار کے ذریعے اور قلمکار قصے کہانیوں کی صورت میں انھیں خراج عقیدت پیش کرتے۔

میدان جنگ میں اترنے سے پہلے ان بہادروں کے کارنامے دھرائے جاتے اور سپاہی ان کے نام کی قسمیں کھا کر میدان میں آتے یہی نہیں بلکہ ان کی تلواروں۔نیزوں اور گھوڑوں کی تعریف بھی کی جاتی اور انھیں مختلف ناموں سے یاد کیاجاتا۔لوک داستانوں کے ہیرو مرزا کی ”بکی“اور 1857ءء کی جنگ آزادی کے ہیرو رائے احمد خان کھرل کی ”نیلی“پنجاب کی لوک داستانوں کا اہم حصہ ہیں۔

حضرت علی کی ذوالفقار،حضرت خالد بن ولید کی سیف اسلامی تاریخ میں اہم مقام رکھتی ہیں۔
باقاعدہ فوج اور رجمنٹیشن کی ایک جھلک ریاست مدینہ کے قیام کے فوراً بعد سامنے اآئی جب حضورﷺ نے مدینہ میں مردم شماری کا حکم دیا۔حضورﷺ نے مدینہ کے مسلمانوں کے نام لکھنے کا حکم دیا تو ابتدائی دور میں مدینہ کے مسلمانوں کی کل تعداد پندرہ سو تھی جس میں مرد،عورتیں ،بچے اور بوڑھے شامل تھے۔

آپﷺ کے حکم کے مطابق ہر کٹیگری کے الگ نام رکھے گئے تاکہ آئندہ کی منصوبہ بندی میں ان سے کام لیاجائے۔حضورﷺ کا یہ فیصلہ اپنی نوعیت کا انوکھا اور منفرد فیصلہ ہے۔تاریخ میں اس سے پہلے مردم شماری کرانے کا کوئی واقع نظر نہیں آتاآپﷺ نے اس امر کی کوئی تشریح نہیں فرمائی مگر بظاہر اس چھوٹے سے واقع سے بہت سبق اخذ ہوتے ہیں۔اول ایک حکمران کو اس کی مملکت کے افراد کا علم ہونا چاہیئے کہ ریاست میں بسنے والے افراد کی عمریں کیا ہیں عورتیں،مرد،بچے،بوڑھے اور جوان کتنے ہیں۔

ان کی معاشی حالت کیا ہے کتنے لوگ ملکی دفاع کیلئے موزوں اور میسر ہیں اور کہاں کہاں رہائش پذیر ہیں ان کی صحت کیسی ہے کتنے لوگ بیروزگار ہیں کتنے ہنر مند ہیں اور تعلیم یافتہ ہیں۔اس کے علاوہ مردم شماری سے ایک حکومت اور حکمران کو بیشمار معلومات حاصل ہوتی ہیں۔حکومت اور حکمران کو جب یہ ساری معلومات حاصل ہوں تو وہ عوام پر ان کی آمدنی کے مطابق ٹیکس لگاتا ہے ۔

زکوٰة وعشر وصول کرتا ہے اور پھر اس سے حاصل ہونے والی آمدنی سے عوام کی فلاح و بہبود اورملکی دفاع کیلئے مخصوص رقم قومی خزانے میں جمع رکھتا ہے۔موجودہ دور میں ہم اسے ٹیکس اور بجٹ کا نظام کہتے ہیں جسکی بنیاد مردم شماری سے ہی رکھی جاسکتی ہے۔
مردم شماری کے بعد اسلامی فوج سپہ سالار کا عہدہ بھی آپﷺ اپنے پاس ہی رکھا۔غزوات اور سریات کے مواقع پر آپﷺ خود جوانوں کا چناؤ کرتے اور اس بات کا بھی فیصلہ کرتے کہ کسے میمنہ میں رہنا ہے اور کون میسرہ میں خدمات سرانجام دیگا۔

مختلف قبیلوں کے دستوں کی کمان آپﷺ ان ہی قبائل کے سرداروں یا نامور بہادروں کے سپرد کرتے۔آپﷺ فوج کی تیاری کے سلسلے میں مدینہ میں فوجی مشقوں کا بھی انتظام کرتے جس میں گھڑ دوڑ،تیر اندازی،تلوار زنی،نیزہ بازی،کشتی اور دوڑوں کے مقابلے ہوتے۔آپﷺان مقابلوں کی صدارت فرماتے اور اول،دوئم اور سوئم آنیوالوں کو کھجوریں،دنبے،گھوڑے یاپھر نقد انعامات دیتے۔

آپﷺ کے اس عمل کا مفصل ذکر جناب ڈاکر حمیداللہ مرحوم نے خطابات بھاولپور میں کیا ہے جسے پڑھ کر پتہ چلتا ہے کہ آپﷺ نے کچھ نوجوانوں کا باقائدہ وظیفہ مقرر کر رکھا تھا اور انھیں ہر وقت جنگ کیلئے تیار رہنے اور تربیت حاصل کرنے کا حکم تھا۔
خلیفہ دوئم حضرت عمر کے دور میں افریقہ سے ایران،مکران اور دوسری جانب خراسان سے چینی سرحدوں تک اسلامی ریاست پھیل چکی تھی۔

اتنی بڑی ریاست کے دفاع کیلئے ضروری تھا کہ ایک باقائدہ فوج رکھی جائے جسکے اخراجات سرکاری خزانے سے اداہوں۔حضرت عمر نے سوشل ریفارمز کی نئی اصلاحات متعارف کروائیں اور ٹیکس کا ایسا نظام وضع کیا جو آج بھی مغربی ممالک میں کسی نہ کسی صورت میں نافذ العمل ہے۔آپ کے ٹیکسیشن اور ویلفیئر سسٹم کے بنیادی اصول یہ تھے کہ صوبے کے گورنر کو ہر شخص کے مالی حالات کا علم ہو اور ہر شخص کو روزگار کے مواقع میسر ہوں۔

نظام عدل کی بنیاد خود حضورﷺ نے رکھی اور مختلف علاقوں میں قاضی مقرر کیئے۔حضرت ابوبکر صدیق کے زمانے تک کوفہ میں جوڈیشل اکیڈمی کا قیام بھی ہوچکا تھا جہاں فقہ و اصول فقہ کی تعلیم دی جاتی تھی۔حضرت عمر نے اس جگہ کو مزید ترقی دی اور وہاں اسلامی قوانین کی تعلیم کو پہلی درسگاہ کے علاوہ ایک مسجد اور چھاؤنی بھی قائم کی۔حضرت عبداللہ بن مسعود اس درسگاہ کے پہلے پرنسپل مقرر ہوئے۔

حضرت عبداللہ بن مسعود کے بعد ان کے شاگرد حضرت علقمة النخصی جو عرب النسل تھے اور ان کے بعد حضرت عماد بن ابی سلیمان اور حضرت امام ابو حنیفہ جو دونوں ایرانی النسل تھے اس اکیڈیمی کے انچارج یا ہیڈ مقرر ہوئے۔
اسلامی فوج کے قیام کے ساتھ قوانین کی ترویج کا ذکر اسلئے ضروری ہے کہ اسلام کی آمد کیساتھ جس پر پہلے کوئی قانونی گرفت نہ تھی کو تحت ضابطہ لایا گیا تاکہ ریاست کا کوئی عنصر اور حکومت کا کوئی ادارہ من مانی نہ کرے۔

اسلام سے پہلے یا بعد میں غیر اسلامی فوجوں پر قانون کی گرفت نہ تھی۔ریاست یا حکومت اعلان جنگ کرتی تو سرکاری افواج جن کی تعداد کم ہوتی کی مدد کیلئے قبائلی لشکر لوٹ مار کے لالچ میں اپنے اپنے قبائلی سرداروں کی کمان میں جنگ کیلئے آتے اور بستیاں اور شہر تباہ کرکے سب کچھ برباد کردیتے۔حضرت عمر کے زمانے میں فوجی چھاؤنیاں قائم ہوئیں فوجیوں کے عہدے مقرر ہوئے اور انھیں سرکاری خزانے سے تنخواہیں اور دیگر مراعات ملنے لگیں۔

حضورﷺ کے زمانے سے ہی فوجی قوانین وضع ہوئے اور ہر دستے کا کمانڈر مقرر کیا جانے لگا فوج کوچ سے پہلے اپنا سامان رسد ساتھ لے جاتی اور جن آبادیوں سے گزرتی وہاں کے مکینوں سے بغیر معاوضے کے کچھ نہ لیتی۔فوج کوچ کے دوران آبادیوں سے دور پانی کے چشموں یا پھر کنوؤں کے قریب قیام کرتی تاکہ فوج کی اپنی سکیورٹی اور مشن کی سکریسی برقرار رہے۔فتح کے بعد شہروں اور بستیوں کو آگ لگانے،لوگوں کا مال و اسباب چھیننے اور قتل عام کی ممانعت تھی۔

شاہی خزانے اور سرکاری املاک کو بیت المال میں جمع کیا جاتا اور شاہی محلات کی کنیزوں اور غلاموں سمیت میدان جنگ میں ہاتھ آنیوالے دشمنوں کی بیویوں اور بچوں کو فوجی تحویل میں لیا جاتا۔غلاموں اور کنیزوں کے حقوق کا تعین ہوا تو یہ رسم بھی دم توڑ گئی۔باقائدہ فوج اور قوانین کے اطلاق کیساتھ ساتھ فوجی روایات بھی پروان چڑھیں جس نے فوج کو ایک قبیلے یا برادری کی شکل دے دی۔

قبائلی دور سے ہی ایک گھرانے کے متعدد افراد فوجی خدمات کیلےء آتے اور میدان جنگ میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر جنگی جوہر دکھلاتے۔حالات کے ساتھ جنگ کا اعلان ہوا حضرت داؤد کے والد اپنے نو بیٹوں سمیت جنگ کیلئے آئے۔میدان بدر میں دو کم سن بھائیوں نے ابوجہل کو قتل کیا۔غزوة رسولﷺ کی تاریح لکھی جائے تو آپ ﷺ کے سب سے قریبی اور خونی رشتے سے منسلک سبھی مرد میدان جنگ میں اترتے۔

حضرت علی  بیماری کی وجہ سے خیبر کے معرکے میں تاخیر سے پہنچے خیبر کے علاوہ آپ ہر معرکے میں پیش پیش رہے مگر قربت رسولﷺ کے باوجود آپ ہمیشہ ایک سپائی کی حیثیت سے لڑے۔اسی طرح آپﷺ کے چچا حضرت عباس اور حضرت حمزہ  سمیت حضرت ابوبکر صدیق،حضرت عمر اور حضرت عثمان آپﷺ کے مقرر کردہ کمانڈروں اور سپہ سالاروں کی ماتحتی میں لڑتے رہے۔

در حقیقت میرا مضمون افواج پاکستان کی وطن سے محبت اور قربانیاں تھا مگر سپاہی کی ابتدا ء کا تذکرہ اس لیے ضروری سمجھا کہ قارئین کو اپنے ناقص علم کے مطابق یہ بتا سکوں کہ اس معتبر پیشے کی ابتدا بھی دین اسلام اور میرے اور آپ کے پیارے نبی آخرالزماں ﷺنے کی۔ لہٰذا ہمیں اپنی سرحدوں کے محافظوں کی عزت و ناموس کو ہر حال میں ملحوظ خاطررکھنا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :