صحافتی روایات سے بغاوت․․․․ نری حماقت

منگل 27 مئی 2014

Zubair Ahmad Zaheer

زبیر احمد ظہیر

غلط فہمیاں بہت سارے مسائل کوجنم دیتی ہیں ۔اور انہیں مزید بڑھاوا دینا ہی نری حماقت ہے۔ اس طرز عمل سے مسائل حل نہیں ہوتے ۔درمیانی راہ نکالنی چاہیے ۔اور مسائل کو افہام تفہیم سے حل کرنا چاہیے ۔حامد میر پر حملہ ہوا ،اور وہ اشتعال میں تھے، اشتعال میں اپنے تحفظ کا سوچنا ہر فرد کا فطری ردعمل ہوتا ہے ۔حامدمیر کا دکھ بھی اپنی جگہ اہم ہے اور پاک فوج کا گلہ بھی اپنی جگہ درست ہے ۔

الزامات ماضی میں بھی لگتے رہے ہیں ۔الزامات اور جرائم میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔یہ فرق برقرار رہنا چاہیے ۔
مسائل جنگ اور دفاع سے حل نہیں ہوتے ۔فوج اور بڑے میڈیا گروپ میں غلط فہمیوں کے ازالے کے لیے حکومت اپنا کردار ادا کرے اور اس معاملے کو جلد از جلد حل کرے تاکہ دنیا بھر میں لگا تماشا ختم ہوسکے ۔

(جاری ہے)

دیگر میڈیا گروپ اپنا پرانا بدلا چکانے پر تلے بیٹھے ہیں ۔

اشتہارات کی کمی کا دکھ اور صدمہ معمولی نہیں کہ اسے ٹھنڈے پیٹوں سہہ لیا جائے ۔معاملے کی نزاکت کو بھانپا جائے ۔جنگ اور جیو کے ساتھ لاکھوں کی تعداد میں صحافی وابستہ ہیں ۔یہ پاکستان کا سب سے بڑا میڈیا گروپ ہے ۔ان لاکھوں صحافیوں کو بے روزگار کیا جانا دانش مندی ہے ۔اور نہ ہی فوج کا مورال کم کرنا ہوش مندی ہے ۔پوری قوم نے الزامات کی سختی سے تردید کرکے فوج کو عوامی عدالت میں بری کردیا ہے ۔

کچھ دنوں کی بات ہے۔ عدالتی تحقیقاتی کمیشن اور ایجنسیوں کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بھی تب تک حامد میر حملے کا سراغ لگا لے گی ۔اس وقت کا انتظار کیا جائے ۔اور غلط فہمیوں کو مزید بڑھاوا نہ دیا جائے ۔مشاہیر صحافت کے توسط سے اس معاملے کی درمیانی راہ نکالی جائے ۔پاکستان محاذآرائی کا مزید متحمل نہیں ۔
پاکستان کے دو پڑوسی ممالک میں انتخابات کے بعد نئی حکومتیں قائم ہونے کو ہیں ۔

ان دونئی حکومتوں سے خطے کا سیاسی منظر نامہ تبدیل ہوگا اور پاکستان کو بھی نئی صورت حال کے لیے منصوبہ بندی اور پیش بندی کرنی ہے۔ایسے نازک موقع پر اداروں کی محاذآرائی قومی مفاد کے خلاف ہے ۔صحافیوں اور ایجنسیوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے ۔غلط فہمیاں بھی اپنوں کے درمیان ہوتی ہیں ۔پاکستان میں میڈیا بالخصوص الیکٹرانک میڈیا ابھی ابتدائی تربیتی مراحل سے گزر رہا ہے۔

اسے وقت کے ساتھ ساتھ بہت ساری تبدیلیاں کرنی ہوگی ۔اور نئے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونا ہوگا ۔صحافی کسی بھی قوم کا سب سے باخبر طبقہ ہوتے ہیں ۔ان کی اور فوج کی ملک کے درپیش مسائل پر گہری نظر ہوتی ہے ۔فوج ملک کی جغرافیائی سرحدوں کی محافظ قوت کا نام ہے اور صحافی نظریاتی طاقتوں کے ترجمان ہوتے ہیں ۔پاکستان ایک نظریاتی مملکت ہے اور نظریاتی ممالک میں نظریاتی قوتوں کا ایک صفحے پر ہونا لازمی امر ہے ۔

کل تک ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانے کا الزام مذہبی قوتوں پر دھرا جاتا رہا ہے اور آج میڈیا بھی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ کرنے میں جت گیا ہے ۔فوج کا مورال سب سے اہم ہے ۔فوج عوام سے الگ نہیں اور عوام فوج سے الگ نہیں ۔فوج میں بھی ہمارے بھائی ،رشتہ داربھرتی ہوتے ہیں ۔کوئی باہر کا نہیں ۔سب محب وطن ہیں ۔
حامد میر پر حملے کے معاملے کو زیادہ سے زیادہ غلط رنگ دیا گیا ہے ۔

صحافیوں پر جب بھی حملے ہوئے ہیں ان حملوں کو صرف اس ادارے پر حملہ تصور کیا گیا ہے جس ادارے سے وابستہ صحافی متاثر ہوئے ۔ماضی میں تنہا وہ ادارہ جنگ لڑتا رہا ہے ۔بہت ساری چھوٹی اور معمولی باتیں بگڑ کر بتنگڑ بنی ہیں ۔ان تمام گلے شکووں کا آیندہ دنوں میں ازالہ کیا جانا چاہیے ۔
میڈیا کی باہمی چپقلش کی آگ کو بجھانے کے بجائے اسے مزید تیل ڈال کے الاؤ میں تبدیل کیا گیا ہے ۔

اس معاملے میں قیادت کا پوری طرح فقدان دیکھائی دیا ۔افہام وتفہیم سے یہ مسئلہ حل کیا جاسکتا تھا ۔بدقسمتی یہ ہے کہ جنگ پر آمادہ لوگ بنی بنائی بات کو بھی بگاڑ ددیتے ہیں ۔فاختاؤں کے شہر میں عقابوں کی حکومت ہے ۔بحران پر قابو پانے والی قیادت بھی کہیں نظر نہ آئی اورپوری قوم حصوں میں بٹتی گئی ۔اور پھر نئے سے نئے نظریات سامنے آتے گئے ۔حسا س قومی معاملے کو عام افراد کی رائے سے پرکھا جانے لگا ۔

پاکستان عالمی استعماری سازشوں کے نرغے میں ہیں ۔اسلام آباد کا سکون کسی کو برداشت نہیں ۔میڈیا نے سنجیدگی کی بجائے جلتی پر مزید تیل چھڑکا ۔اور آگ مزید تیز کردی ۔مشہور کہاوت ہے ۔سانپ کا ڈسا مرنے سے پہلے پانی مانگتا ہے ۔اخبار میڈیا کے ڈسے کو پانی مانگنے کی مہلت نہیں ملتی ۔یہ کہاوت الٹ گئی اور میڈیا نے غلط فہمی میں میڈیا ہی کو ڈس لیا ۔

جن دنوں یہ معاملہ زوروں پر رہا خبروں کا قحط پڑ ا رہا۔ اب اداروں کی جنگ ختم ہوجانی چاہیے ۔کسی نے معاملے کی نزاکت کو نہیں سمجھا ۔میڈیا نے اس نازک معاملے کو خوب اچھالا ۔ دونوں جانب سے اپنے دفاع کے لیے زیادہ سے زیادہ عوامی حمایت کی کوشش کی گئی ۔یوں لگتا رہا کہ میڈیا کا ایک فریق دوسرے کو ملک سے نکال دے گا ۔عامل صحافیوں نے یہ کبھی نہیں سوچا کہ یہ مالکان کی جنگ ہے اور مالکان کی جنگ میں ایندھن ہمیشہ کارکن ہی بنتے ہیں ۔

مالکان اخباربند ہونے سے بے روزگار نہیں ہوتے، بے روزگاری کا سامنا عامل صحافیوں کو کرنا پڑتا ہے ۔دانستہ یا نادانستہ صحافیوں نے اس بے مقصد جنگ میں اپنے شعبے پر کاری ضربیں لگائی ہیں ۔
اس تنازعے سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ پاکستان میں سنجیدہ صحافت الیکڑانک میڈیا کے جوان ہوتے ہی اپنی موت آپ مرگئی ہے۔الیکڑانک میڈیا نے صحافت کے مقدس پیشے کو بازاری اور کاروباری بنا دیا ہے اب صحافیوں کے باہمی جھگڑے فلمی اداکاراؤں کی معاصرانہ رقابت سے بھی تجاوز کرگئے ہیں ۔

الیکڑانک میڈیا نے صحافت جیسی عوامی خدمت کو بھی شوبز بنا دیا ہے ۔صحافی بھی اب مکمل اداکاروں جیسے ہوگئے ہیں جس نے جنتی کامیاب ادا کاری کر لی اس کی واہ واہ ہو گئی ہے ۔یہ طرز عمل صحافت نہیں صحافتی روایات سے کھلی بغاوت ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :