گول گجرال …مُسلمان بے حال!!!

منگل 27 مئی 2014

Sareer Khalid

صریر خالد

جموں و کشمیر کے ہندوستان میں واحد مسلم اکثریتی ریاست ہونے کا بہت شور سنا جا رہا ہے لیکن اسکا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ ہندوستان کی دیگر ریاستوں کی طرح یہاں کے مسلمانوں کو چُن چُن کر نشانہ نہ بنایا جا رہا ہو اور اُنہیں سرکاری انتظامیہ کی جانب سے امتیازی سلوک کا سامنا نہ ہو۔ریاست کے سرمائی دار الخلافہ جموں میں سینکڑوں کنال سرکاری اراضی کو دبائے بیٹھے لینڈ مافیا ،سیاستدانوں اور با رسوخ افرادکو چھوئے بغیر 26سال پُرانی ایک مسلم بستی کو تہہ و بالا کرکے یہاں کے مکینوں کو آگ برسا رہے کھلے آسمان تلے جلنے کے لئے چھوڑ دئے جانے کے واقعہ سے اسی طرح کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔

مسلم اکثریتی ریاست میں مسلمانوں پر پڑی اس اُفتاد نے بے چینی کی ایک لہر پھیلا دی ہے اور مسلمانوں کو چُن کر نشانہ بنائے جانے کی نہ صرف مذمت کی جا رہی ہے بلکہ اسے مسلمانوں کو جموں سے بھگا دئے جانے کی منصوبہ بندسازش کے بطوربھی دیکھا جا رہا ہے جو سچ ہو تو انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔

(جاری ہے)


یہ واقعہ ہفتہٴ رفتہ کا ہے کہ جب جموں ڈیولوپمنٹ اتھارٹی(جے ڈی اے) نے چشمِ زدن میں دو پکے مکانوں سمیت 26آشیانوں کو منہدم کر کے تنکوں سے بنے ان آشیانوں کے مکینوں کو عملاََ سڑک پر لا چھوڑا۔

اتنا ہی نہیں بلکہ کسی قسم کا نوٹس دئے بغیر جس طرح ان غریبوں کے گھونسلوں پر بلڈوزر چلایا اُس سے ان بد نصیبوں نے نہ صرف اپنے یہ گھونسلے کھو دئے بلکہ وہ ضروریاتِ زندگی بھی کہ جو اُنہوں نے بڑی مشکل سے جمع کیا تھا۔ جموں کے گول گجرال نامی علاقہ میں خسرہ نمبر 746کی خانہ بدوشوں کے زیر تصرف 333کنال زمین کو خالی کروانے کیلئے کی گئی کارروائی میں سینکڑوں لوگ متاثر کیا بلکہ تباہ ہو گئے ہیں ۔

جے ڈی اے نے اسی کارروائی پر اکتفا نہیں کیابلکہ مزاحمت کرنے پر مکینوں کے خلاف طاقت کا زبردست استعمال کر کے اُنہیں زیر کرنے کا ہر حربہ آزمایا۔ 80سال کے دین محمد کیمطابق گوجرقوم سے تعلق رکھنے والے یہ خانہ بدوش مسلمان خاموشی سے اپنے گھروں کو اُجڑتے ہوئے دیکھ رہے تھے اور اُنہوں نے کسی قسم کا ردِ عمل ظاہر نہیں کیا۔ تاہم سی آری پی ایف کے ایک اہلکار نے ایک خاتون کے لئے نازیبا الفاظ کہے تو اسکے پاس ہی کھڑے والد مشتعل ہوگئے،تاہم سی آر پی ایف نے طاقت کا استعمال کیا جس کے ردِ عمل میں گوجروں نے سنگبازی کی۔

اتنے میں چند مقامی نوجوان بھی گوجروں کے ساتھ مل گئے اور انہوں نے سی آر پی ایف نیز انہدامی کارروائی کے خلاف احتجاج شروع کر دیا۔ مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے آنسو گیس کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔ اس دوران 6پولیس اہلکاروں سمیت 13افراد زخمی ہوئے جن میں ایک جے ڈی اے کا ملازم بھی شامل ہے۔جے ڈی اے کے ایک افسر نے رازداری کی شرط پر بتایاہے کہ خسرہ نمبر746میں 2200کنال زمین ہے لیکن اس میں سے صرف 333کنال زمین کی ہی نشاندہی کی گئی ہے جو کہ گوجروں کے قبضہ میں ہے۔

کارروائی کے پہلے روز زمین کا ایک حصہ خالی کروایاگیاتھا۔ محمد فرید نامی ایک متاثرہ شخص نے بتایا کہ گول گجرال میں سینکڑوں کنال زمین مقامی لوگوں، لینڈ مافیا اور تاجروں کے ناجائز قبضہ میں ہے لیکن ان سے یہ زمین خالی کروانے کیلئے کوئی کارروائی نہیں کی جا رہی ہے اور محض غریب لوگوں کو نشانہ بنایاجارہاہے۔ جے ڈی اے نے دوسرے روز بھی اپنی کارروائی جاری رکھتے ہوئے مزید 8ڈھانچوں کو منہدم کیاتاہم دوسرے روز تشدد کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔

وائس چیئرمین جے ڈی اے سشما چوہان نے بتایاکہ انہوں نے 200کنال اراضی میں سے دو روز میں 100کنال اراضی حاصل کرلی ہے۔وہیں جے ڈی اے کے خلاف ورزی آفیسر نریندر سنگھ کاکہناہے کہ قبضہ ہٹانے تک کارروائی مزید جاری رہے گی۔ اگرچہ سرکاری زمین خالی کرانے کیلئے جے ڈی اے کو ریاستی ہائی کورٹ کی طرف سے ہدایت ملی تھی لیکن سرکاری ایجنسیوں نے گوجر آبادی کو تختہ مشق بنایا۔

اس زمین پر 1988سے گوجر(مسلمان) آبادہیں۔کارروائی کے نتیجہ میں متاثرین کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبو رہوگئے ہیں جن کا کوئی پرسان حال نہیں۔
جہاں تک اِس زمین کا تعلق ہے ابھی تک اس بات پر کوئی شک ظاہر نہیں کیا جا سکا ہے کہ یہ جائیداد سرکار کی ہے اور اس پر بودوباش کر رہے لوگوں نے اس پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ظاہر ہے کہ سرکاری زمین پر قبضہ کرنا خلافِ قانون ہے اور اس طرح کے خلافِ قانون کام کرنے والوں کے خلاف کارروائی نہ صرف سرکاری محکموں کی ذمہ داری ہے بلکہ یہ انکے وجود کی وجہ اور انکا فرضِ منصبی بھی ہے۔

تاہم جے ڈی اے نے جس طرح سینکڑوں بلکہ ہزاروں کنال سرکاری اراضی پر جاری قبضہ سے صرفِ نظر کرتے ہوئے ایک غریب مسلمان بستی کو چُن کر نشانہ بنایا ہے اُس نے اس پوری کارروائی کے مقصد کو مشکوک بنایا ہے اور اس سے متعلق کئی سوالات کھڑا کر دئے ہیں۔سوال یہ ہے کہ 26سال قبل جب گول گجرال میں آباد اس بستی کے آباء یہاں ڈھیرہ جمانے لگے تھے تو سرکار کہاں تھی۔

ان لوگوں کو یہاں آباد ہی کیوں ہونے دیا اور پھر جب دن کی روشنی میں یہاں پکے مکان بن رہے تھے تو جے ڈی یو اور دیگر سرکاری محکمے اپنی آنکھوں پر کونسی پٹی باندھ چکے تھے۔حالانکہ 26سال ایک طویل عرصہ ہے اور اس عرصہ کے دوران یہاں آباد ہوئے لوگ نہ صرف اپنے گھونسلے بنا چکے ہیں بلکہ وہ مختلف سرکاری محکموں سے باضابطہ فیس کے عوض بجلی سپلائی،پانی ،حفظانِ صحت،عبورومرور کے راستوں اور اس طرح کی دیگر بنیادی خدمات پاتے رہے ہیں۔

26سال کے دوران سرکار کو چاہیئے تھا کہ غیر قانونی طور سرکار زمین پر قابض ہونے والوں کو یہ بنیادی ضروریات فراہم ہی نہیں کرتی جس سے ان لوگوں کا یہاں رہنا ہی ممکن نہ رہا ہوتایا پھر اتنے طویل عرصہ کے دوران ہی انہیں یہاں سے بے دخل کرنے کے اقدامات کئے گئے ہونے چاہیئے تھے۔حالانکہ اس بات کا ہر گز کوئی جواز نہیں ہو سکتا ہے کہ کوئی قبیلہ کسی جگہ قبضہ کر بیٹھے اور اگر کچھ وقت تک یہ قبضہ چھڑانے میں تاخیر ہوئی تو اُسکا قبضہ جائز ہوتصور کیا جائے لیکن 26سال کا طویل عرصہ گذر جانے کے بعدکوئی پیشگی نوٹس دئے بغیر یونہی بلڈوزر چلانے کا بھی کوئی جواز نہیں ہو سکتا ہے۔


پھر یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہجموں شہرکے مضافات میں گزشتہ کچھ عرصہ سے غیر ریاستی باشندوں کی درجنوں بستیاں اُگ آئی ہیں لیکن ان کے خلاف اس طرح کی مہم چلانے کی بجائے انہیں مستقل بنانے کے لئے ہر طرح کی سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔یہی نہیں بلکہ بی جے پی اور جموں کے دیگر سیاستدان دفعہ370کی دھجیاں اُڑاتے ہوئے ان غیر ریاستی قابضین کو ریاست کی شہریت دلانے کے کہیں خفیہ طور اور کہیں کھلے عام جتن کر رہے ہیں یہاں تک کہ ان غیر ریاستی لوگوں نے اعلیٰ سیاستدانوں ،چند وزراء،فرقہ پرستانہ سوچ کے کچھ افسران وملازمین کی مدد سے ریاست کی باشندگی کی اسنادتک تیار کروا لی ہیں۔

علاوہ ازیں جموں خطہ میں کروڑوں نہیں بلکہ اربوں روپے کی وقف اِملاک پردہائیوں سے ناجائز قبضہ ہے جسے چھڑانے کے لئے سرکار کی طرفسے کسی طرح کی مستعدی کا اظہار کرنا تو دور بلکہ ہلکی سی حرکت تک کرنے کی کبھی ضرورت محسوس نہیں کی گئی ہے۔اس حقیقت سے انکار سرکار کے لئے ممکن نہیں ہو سکتا ہے کہ نہ صرف جموں شہر بلکہ یہاں کے مضافاتی علاقوں اور خطہ کے دیگر اضلاع میں عام لوگوں ، سرکاری محکموں اور فوج نے ہزاروں کنال وقف للمسلمین اراضی دبا رکھی ہے بلکہ کئی جگہوں پر قبرستانوں اور عید گاہوں تک کو بخشا نہیں گیا ہے جن پر بیت الخلا ،دوکانیں اور دیگر عمارتیں کھڑاکر دی گئی ہیں۔


غریب مسلمانوں کی جھونپڑیوں کو ملیا میٹ کر کے چند ایک کنال اراضی کو ہموار کر کے ریاست کا ”بھلا“کرنے پر بغلیں بجانے والے سرکاری محکمے ایسی ایک بھی مثال پیش کرنے کی حالت میں نہیں ہیں کہ مذکورہ بالا وقف اراضی اور دیگر جائیدادوں پر قبضہ ہٹانے میں سنجیدہ ہونے کا ثبوت دے سکیں۔امرِ واقعہ ہے کہ آج تک اس سمت میں کوئی ہلکی سی کوشش بھی نہیں ہوئی ہے اور اگر کبھی کسی نے اس جانب توجہ دلا بھی دی ہے تو معاملے کو امن و قانون کا مسئلہ پیدا ہونے کے ”خدشات و امکانات“کے بہانے ٹال دیا جاتا رہا۔

گول گجرال کی گوجر بستی پر بلڈوزر چلانے والی سرکار یا اسکے ماتحت ادارے لاکھ کوشش کریں لیکن یہ تاثر قائم نہیں کرواسکتے ہیں کہ چند ایک مسلم خاندانوں کو اس بستی سے کھدیڑنے سے وہ ریاست کو غیر قانونی قبضے میں چلی گئی سبھی دولت لوٹانا چاہتے ہیں۔ریاستی سرکار خود قانون ساز اسمبلی میں ایک سوال کے جواب میں تسلیم کر چکی ہے کہ ریاست میں 14لاکھ کنال سے زائد اراضی غیر قانونی قبضہ میں ہے اور اس خلاف ورزی میں عام لوگ ہی نہیں بلکہ فوج، بڑے بڑے سیاست دان ، ارکان ِ پارلیمان و اسمبلی ، بیوروکریٹ اور افسران بھی شامل ہیں۔


سرکاری زمین پر ہی آباد بڑے بڑے محلوں،سونا اُگلنے والے کارخانوں،رئیسانہ فارم ہاوسوں اور دیگر جائیدادوں کو چھوڑ کر گول گجرال میں جے ڈی اے نے غریب مسلمانوں کے تنکوں سے بنے آشیانوں کو تباہ کر کے سرکاری زمین کو چھڑانے کا ”فرضِ منصبی“انجام دیا ہے لیکن متاثرین کے لئے اس کارروائی کوجے ڈی اے کی محض فرضِ منصبی کی ادائیگی کے بطور لینے میں دقعتیں ہیں۔

جب اسی علاقہ اور اسکے علاوہ ریاست با الخصوص جموں شہر ہی کے مختلف علاقوں میں با رسوخ افراد ،سیاستدان اور اعلیٰ ایوانوں تک پہنچ رکھنے والے دولت مند دلال سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں کنال سرکاری اراضی پر قابض ہوں اور انہیں چھیڑنے کی کسی میں ہمت بھی نہیں ہو رہی ہو تو غریبوں کی جھونپڑیوں پر بلڈوزر چلانے کو سرکاری زمین کو واپس حاصل کرنے کامحض ایک” انتظامی اقدام“ مان لیناغیر جانبدار مبصرین کے لئے بھی کچھ مشکل ہو جاتا ہے ۔

بلکہ اس کارروائی کے پیچھے کچھ اور ہی مقاصد کار فرما نظر آتے ہیں جیسا کہ جماعت ِ اسلامی کے ساتھ ساتھ مین اسٹریم کی کچھ سیاسی پارٹیوں نے بھی الزام لگایا ہے۔ جماعت اسلامی کے ترجمان ایڈوکیٹ زاہد علی نے اس معاملے کو لیکر جاری کردہ ایک بیان میں کہا ہے”گول گجرال جموں میں جموں ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے ایک منصوبہ بند طریقہ پر غریب مسلمانوں کی ایک بستی کو نشانہ بناکراُنہیں بے گھر بناکررکھ دیاہے حالانکہ اس علاقے میں غیر مسلم بھی بڑی تعداد میں رہتے ہیں لیکن اْن کے ساتھ کسی قسم کی کوئی چھیڑ خوانی نہیں کی گئی ہے“۔

اُنہوں نے مزید کہا ہے”مذہب کی بنیاد پر اس امتیازی سلوک سے واضح ہوتا ہے کہ ایک سازش کے تحت صوبہ جموں خاص کر ضلع جموں سے مسلمانوں کو جبراً بے دخل کرنے کی ایک ناپاک کوشش پر عمل کیا جارہا ہے اور اس کے لیے سرکاری مشینری کا بے جا استعمال کیا جانے لگا ہے“۔ ریاست میں اپوزیشن پی ڈی پی کی صدر محبوبہ مفتی نے بھی اس واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے کہاہے کہ بازآبادکاری کے کسی منصوبے کے بغیر 100سے زائد خانہ بدوش کنبوں کو بے گھر کردیاگیاہے۔

اخبارات کے لئے جاری کردہ ایک بیان میں محبوبہ مفتی نے کہاکہ جموں کشمیر ایک پولیس ریاست بنادیاگیاہے جہاں حکومت خود عوام کے جان و مال کیلئے ایک خطرہ ہے۔گو کہ پی ڈی پی صدر نے سیاسی وجوہات کے لئے مختلف الفاظ استعمال کئے ہیں تاہم اُنکے بیان کے بین السطور اُنہیں بھی زیرِ بحث انہدامی کارروائی کے پیچھے وہی مقاصدو محرکات نظر آئے ہیں کہ جنکا اظہار جماعت اسلامی اور دیگر کئی علیٰحدگی پسند تنظیموں نے تشویش کے ساتھ کیا ہے۔

البتہ مین اسٹریم کے سیاستدانوں میں سے عوامی اتحاد پارٹی کے صدر اور شمالی کشمیر پارلیمانی حلقہٴ انتخاب سے اپنے نتیجے کے منتظر انجینئر رشید نے واشگاف الفاظ میں کہا ہے کہ مسلمانوں کو جموں سے کھدیڑ دئے جانے کی سازشیں ہو رہی ہیں۔اُنکے ایک بیان میں کہا گیا ہے” گول گجرال میں مسلم طبقہ کے مکانوں کا انہدام جموں شہر سے مسلمانوں کو بے دخل کرنے کا سوچا سمجھا منصوبہ لگتا ہے“۔

انہوں نے مزیدکہاہے” جہاں ایک طرف قوانین و ضوابط کی دھجیاں اڑاکر بھارت کی مختلف ریاستوں سے آنے والے لوگوں کو جموں شہر میں بسایاجارہا ہے وہیں دوسری جانب ایک بڑے فرقہ وارانہ ایجنڈا کی تکمیل کیلئے ایک مخصوص طبقہ کو غیر ضروری طور پر نشانہ بنایا جارہا ہے“۔انجینئر رشید نے اظہارِ افسوس کے ساتھ کہا ہے کہ جموں وکشمیرمیں بیروکریسی کو بھی فرقہ وارانہ بنایاگیا ہے۔


ریاستی سرکار یا اسکے ماتحت ادارے زیرِ تبصرہ معاملے کو معمول کی ایک انتظامی کارروائی بتانے کی لاکھ کوششیں کریں لیکن وہ اس حوالے سے اپنی نیت کو پاک ثابت نہیں کر سکتے ہیں۔تو کیا یہ معاملہ واقعی ایسی کسی سازش کا حصہ ہے کہ جس کا مقصد جموں شہر سے مسلمانوں کو بھگا کر یہاں غیر ریاستی باشندوں کو آباد کرنا ہے،اس بارے میں حتمی طور اور وضاحت کے ساتھ بات کرنا کچھ قبل از وقت ہوگا لیکن سرکار کی ”چُنندہ“ کارروائیاں شکوک و شبہات کے جو بیج بورہی ہیں اُنکی بہار بہت جلد کسی کو نظر نہ بھی آئے لیکن جموں و کشمیر کے جیسے ”زرخیز “خطہ میں یہ بیج اُگ ہی آئیں گے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :