پاکستان بھارت تعلقات ۔۔لیکن کیسے؟

منگل 27 مئی 2014

Raja Hassan Akhtar

راجہ حسن اختر

ہماری تاجر برادری کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتیں اور متعدد غیر سرکاری تنظیمیں بھارت کے ساتھ تجارت کیلئے بڑی سر گرم دکھائی دیتی ہیں یہ درست ہے کہ بھارت ہمارا ہمسایہ ملک ہے لیکن ایران،افغانستان،چین ،تاجکستان بھی ہمارے ہمسائے ہیں مگر ان تنظیموں کی آوازیں بھارت کے ساتھ تجارت پر لگائی جاتی ہیں اس کی بجائے اگرتمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات فروغ دئیے جائیں توپاکستان کی اقتصادی حالت کو بہتر بنانے میں مد د مل سکتی ہے بھارت سمیت تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ برابری کی بنیاد پر متوازی تجارت پاکستان کیلئے بہتر ہو گالیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ہاں چندلوگ اپنے ذاتی مفاد کے حصول کی خاطراپنے قومی مفاد کو پس پشت ڈال دیتے ہیں ۔


بھارت کی صنعت پاکستان کی نسبت بہت بڑی صنعت ہے اسی طرح بھارت زراعت میں بھی پاکستان کے مقابلے میں بہت آگے ہے ہمارے ہاں بجلی ،گیس ،ڈیزل ،پٹرول وغیرہ کا آئے روزبحران رہتا ہے اگر دستیاب بھی ہوں توقوت خریدسے باہر ہوتاہے اسی طرح پاکستان میں زراعی اور صنعتی پیداواری لاگت بھارت کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے ایسے میں ہمارے صنعت کاراور زمیندار بھارتی اشیاء کا مقابلہ نہیں کر سکتے ۔

(جاری ہے)


بھارت کے ساتھ تجارت ہونا ضروری ہے مگرتجارت دو طرفہ ہونی چاہیے اور اس میں پاکستان کے مفاد کو بھی سامنے رکھا جائے بھارتی حکومت اپنے صنعت کاروں اور زمینداروں کو بے شمار سہولیات دیتی ہے اس وقت بھارت کے تاجر پوری دنیا میں اپنی مصنوعات کو متعارف کروا رہے ہیں جبکہ بدقسمتی سے پاکستان میں صنعتیں بند ہو رہی ہیں،بجلی ،کھاد ،بیج ،زراعی ادویات اور پانی کے بحرانوں کی وجہ سے ہماری زراعت بھی زوال کا شکار ہو رہی ہے بھارت کے ساتھ ہمارے بہت سارے ایشوز ہیں جیسے کشمیر اور ڈیموں کی تعمیر جیسے مسائل حل طلب ہیں تجارت کے ساتھ ساتھ بھارت کے ساتھ ان ایشوز پر بھی بات کی جائے وزیر اعظم پاکستان نواز شریف کا بھارتی وزیر اعظم کی تقریب حلف برداری میں جانا خوش آئندہے مگر ہمیں کسی بھی صورت حل طلب ایشوز کو پس پشت نہیں ڈالنا چاہیے اوربھارت کے ساتھ تجارت کے ساتھ ساتھ ان ایشوز پر بھی کھل کربرابری کی سطح پربات کرنی چاہیے تاکہ دو طرفہ دوستی کی بس چلتی رہے۔


راقم الحروف کو کئی باربھارت جانے کا موقع ملا ہے دونوں اطراف ہر قسم کے لوگوں سے ملاقاتیں بھی ہوئی ایک کثیر تعداددونوں ممالک کے ساتھ دوستی کی خواہاں ہے مگر انتہا پسند ی کا عنصر بھارت میں بھی موجود ہے بھارتی پنجاب کی حد تک تو دوستی کیلئے گرم جوشی نظر آتی ہے مگر جیسے جیسے پنجاب سے باہر نکلتے ہیں وہاں پاکستان مخالف پروپگنڈہ کی وجہ سے سوچ ہی مختلف نظر آتی ہے ۔


انتہا پسند ی کی کوئی بھی شکل ہووہ ایک خطرناک عمل ہے مگر دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کا فقدان بھی واضح نظرآتاہے جب کوئی تجارتی وفد پاکستان سے بھارت جاتا ہے یا بھارت سے پاکستان آتا ہے تو ایسے وفود کا دونوں اطراف میں پیچھا کیا جاتا ہے وفود کی اتنی سخت نگرانی کی جا رہی ہوتی ہے کہ بعض اوقات وفود میں شامل کمزور دل حضرات گھبر ا جاتے ہیں عدم اعتماد کی ایسی مثال دنیا کے کسی اور ملک میں نہیں ملے گی دنیا میں صرف پاکستان اور بھارت ہی ایسے ممالک ہیں جو اپنے لوگوں کو مخصوص شہروں کا ویزہ دیتے ہیں جو لو گ غیر قانونی کام کرنے کے عادی ہوتے ہیں یا وہ لوگ جو دہشت گردی پھیلانا چاہتے ہیں ایسے لوگوں کو ویزہ لینے کی ضرورت نہیں پڑتی لیکن ویزہ لیکر ایک دوسرے ملک کاسفر کرنے والوں سے کسی بھی قسم کی غیر قانونی حرکت کی امیدرکھناسمجھ سے بالا تر ہے دونوں ممالک کو چاہیے کہ وہ شہروں کا ویزہ دینے کی بجائے پورے ملک کا ویزہ دیں تاکہ دونوں اطراف کے لوگ آپس میں بہتر طریقے سے رابطے اور تعلقات استوار کر سکیں

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :