نریندرا مودی کی کامیابی…غوروفکر کی بات

اتوار 25 مئی 2014

Nayyar Sadaf

نیئر صدف

2002ء میں مودی کے دورحکومت گجرات میں مسلمانوں کے ساتھ جو ظلم اور ذیادتی ہوئی اُسے تاریخ کسی طور معاف نہیں کرے گی ۔ یادرہے کہ 2002ء کے فرقہ ورانہ فساد میں تقریباً دوہزارمسلمان مارے گئے ان علاقوں میں مودی کے ملوث ہونے کی بناء پر 2005ء میں امریکہ نے انہیں ویزہ دینے سے انکارکردیاتھا آج وہی نریندرمودی بھارتیہ جنتا پارٹی کی تاریخی فتح کے بعد وزیراعظم کے عہدے کے لئے ناصرف دہلی پہنچنے میں کامیاب ہوگئے بلکہ عالمی رہنماوٴں کی جانب سے مبارکباد کے پیغامات بھی وصول کررہے ہیں۔

نریندرمودی کے سیاسی جماعت کے پس منظر کے پیش نظر بنگلہ دیش کی وزیراعظم حسینہ واجد کامراسلہ کاانداز معنی خیز ہے جس میں وہ باورکرارہی ہیں کہ 1971ء بنگلہ دیش کی جنگ آزادی میں بھارت نے اس کی تاریخی مدد کی چنانچہ بنگلہ دیش اور بھارت کی دوستی ناقابل تقسیم ہے لہذا مودی بنگلہ دیش کو اپنا دوسراگھر سمجھیں۔

(جاری ہے)

خودبھارتی کالمکار جوہمسایہ ملک سے امن کی آشا کے خواہشمند ہیں مودی کی فتح کوہٹلر کی کامیابی سے تشبیہ دیتے ہوئے بھارت کے سیکولرازم ریاست کے تصور کے خاتمہ ہونے کا نوحہ پڑھ رہے ہیں۔

اِن کے خیال میں نریندرمودی نے ہندوشاہ ازم کی آگ بھڑکاکرکامیابی حاصل کی ہے۔یہی سبب ہے کہ اقتدارمیں آنے سے پہلے ہی بھارت کی اقلیت مسلم اکثریت اور خود پاکستان کے لئے غوروفکر کی دعوت دیتی ہے ۔ بی جے پی کی فساد ات ذہنی آبیاری کے پیش نظر کشمیری رہنما علی گیلانی کا بیان نظرانداز نہیں کیاجاسکتا کہ مودی کے آنے سے بھارت کابرائے نام سیکولرازم کے بھرم کا خاتمہ ہونے والا ہے۔

یہاں کی اقلیتوں پر اپنی تہذیب مسلط کرنے کی کاوش کی جائے گی مگر سوال یہ ہے کہ آخرایسی کیاوجوہات ہیں جس کے سبب بھارتی عوام نے بھرپورالیکشن میں حصہ لیتے ہوئے بھارت میں پہلی بار ریکارڈ ٹرن آوٴٹ 66.38دیا کیا وہ ہمسایہ ممالک کے ساتھ امن کی آشا کے خواہشمند نہیں ۔ مودی جیسا لیڈر جوقصاب کے نام سے اپنے ملک میں پہچانا جاتاہو اُن کووفاق میں لانے کے کیامقاصدہوسکتے ہیں۔

اس کاجواب یہ ہے کہ کانگریس جو عام طور پر سیکولرگردانی جاتی ہے پچھلے پانچ برسوں میں ایک جانب نہ تو سیکولرازم کابھرم رکھ سکی اور نہ ہی اپنے دوراقتدارمیں کسی بھی شعبے میں کوئی کارکردگی دکھاسکی جس کی بنیاد پر کانگریس عوام کے دلوں سے دور ہوتی چلی گئی جبکہ بھارتی میڈیا نے گجرات میں اقتدار کے دوران مودی کے ہرشعبے میں ترقی اُس کی ملک سے وفاداری نیز اُن کی غیرمعمولی ذہانت کے بل بوتے پر اپنے صوبے کی ترقیاتی پالیسیاں کانافذ کرنا اور اُس کو ترقی کی طرف گامزن کرنے کے مراحل کو اُجاگر کیا جس کی بنیاد پر عوام کو یقین ہوگیا کہ یہی اُن کانجات دہندہ ہے۔

پاکستان کے چند دانشوروں کاخیال ہے کہ کئی پاکستانی دانشورنریندرمودی سے پاکستانی عوام کو ڈرارہے ہیں تو عرض ہے کہ طوفان کے آنے سے پہلے طوفان کی شدت اور قوت کااندازہ لگاکر اُس کے بُرے اثرات سے بچنے کے لئے مثبت حکمت عملی اختیارکرلینے سے دشمن کامقابلہ کرناآسان ہوجاتا ہے ایسی مثبت حکمت عملی سے ایک مودی کیا 100مودی بھی پاکستان کابال بانکانہیں کرسکتے لہذا اگرایک جانب پاکستان کے وزیراعظم میاں نوازشریف مودی کو اقتدار کی رسمی مبارک باد دینے کے علاوہ پاکستان آنے کی دعوت دیتے ہیں تو دوسری جانب مودی کے اندازِ اقتدار کو پیش نظررکھتے ہوئے آئندہ پاکستان کو کس انداز میں بھارت کے ساتھ کیسی خارجہ پالیسی اختیارکرنی ہے غوروفکر کرنا یقینا پاکستان کے لئے نیک شگون اور وقت کی اہم ضرورت ہے تو دوسری جانب اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کیاجاسکتا کہ الیکشن کے دور میں عوام کی توجہ اپنے منشور کی جانب کروانے کے بیانات اور دعوے کچھ اور ہوتے ہیں مگر اقتدارمیں آنے کے بعد زبان کی سختی کو عالمی دباوٴکے تحت نرم کرنا بھی حکمران کے لئے مجبوری بن جاتا ہے ورنہ دوسری صورت میں سیکولرہندوستان کی دھجیاں اُڑتے پور ی دنیا دیکھے گی جوکہ بھارت کے لئے نیک نامی کا باعث ہرگز نہیں ہوگی

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :