کرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کاجہاں اور!

اتوار 25 مئی 2014

Nabi Baig Younas

نبی بیگ یونس

وہ اعلیٰ اوصاف کے مالک ہیں، اللہ پر یقین کامل اُن کا ایمان ، سچ کہنا ان کاشعار، حق اور صداقت کی آواز بلندکرنا ان کا مشعل راہ ہے ۔اُن کے بے داغ کردار، صاف و شفاف زندگی اور خداخوفی نے انکی شخصیت کو مزید پرکشش بنارکھا ہے۔ اخلاق بھی ایسا کہ دشمن کوبھی بُرا نہیں کہتے، جو ان کے خلاف نازیبا زبان استعمال کرے اُس کامعاملہ بھی اللہ پر چھوڑتے ہیں۔

ہاں، دراصل اُنکی روح پاکیزہ ہے، نیت صاف ہے، وہ دنیا کے عارضی سہاروں پر بھروسہ نہیں کرتے،اگر تکیہ کرتے ہیں تو اللہ کی بابرکت ذات پر ، اُس اللہ کی ذات پر جس کے قبضے میں ہماری جان ہے، جس کے ہاتھ میں عزت اور ذلت ہے، جو دونوں جہانوں کا مالک ہے، اسی لئے وہ اپنے جسم پر لگے گہرے زخموں کا مقابلہ کرنے کیلئے بھی اللہ پاک کا ذکر کرتے اور مختلف دعائیں مانگتے رہتے ہیں۔

(جاری ہے)

میں نے خود دیکھا کہ جب انکے زخموں میں دَرد کی ٹیسیں اٹھتی ہیں تو وہ اپنی آنکھیں بند کرتے، دونوں بازو کھول کر مٹھیاں بند کرکے قرآن پاک کی آیات کا ورد کرتے ہیں۔ میں نے جب انہیں سخت تکلیف میں دیکھا تو میں نے پوچھا "آپ نے کمرے میں ٹی وی کیوں نہیں رکھا ہے، ہوسکتا کہ ٹی وی دیکھنے سے درد میں کمی آجاتی"انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا، نادان ، ٹی وی دیکھنے سے نہیں اللہ کا ذکر کرنے سے درد کا مقابلہ کیا جاتا ہے۔


شرافت کے اعتبار سے لوگوں کے تین درجے ہیں: پہلے درجے کے لوگ وہ ہیں جو کسی کے ساتھ شرافت نہیں دکھاتے، ان کی مثال زہر کی مانند ہے چاہئے اس کو پانی کے ساتھ ملایا جائے یا دودھ کے ساتھ اُسکا اثر ہر صورت منفی ہی رہتا ہے۔ دوسرے درجے کے لوگ وہ ہیں جو اچھائی کا رد عمل اچھائی اور برائی کا جواب برائی سے ہی دیتے ہیں،ایسے لوگ شریفوں کے ساتھ شرافت سے پیش آتے ہیں لیکن انکے خلاف کوئی بات کرے تو وہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیتے ہیں،،میں خود کو بھی اسی درجے میں سمجھتا ہوں، میں بھی شریفوں کے ساتھ شریف اوربُرے لوگوں کے ساتھ بُرے طریقے سے ہی پیش آتا ہوں۔

تیسرے درجے کے لوگ اعلیٰ شرافت کے پیکر ہیں لیکن ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے، یہ وہ لوگ ہیں جو نہ صرف اچھائی کا بلکہ برائی کاجواب بھی اچھائی سے ہی دیتے ہیں۔ایسے لوگوں کی مثال چینی کی مانند ہے جو زہر میں بھی مٹھاس کا کام کرتے ہیں۔ حامد میر بھی اسی تیسرے اعلیٰ درجے کی صف میں سر فہرست ہیں۔ میں نے حامد میر کو چند روزقبل ایک اینکر پرسن کے بارے میں کہا" میں نے بڑے بڑے برے لوگوں کے بارے میں سُنا اور پڑھا ہے لیکن اُس جیسا کوئی نہیں" اعلیٰ اخلاق کے مالک حامد میر نے بڑے اطمینان سے کہا یہ اپنے اپنے ظرف کی بات ہے، کسی کے خلاف کچھ نہیں کہنا چاہئے، اللہ کی ذات بہت بڑی ہے!۔

میں حیرانی سے اس مرد قلندر کا منہ دیکھتا رہا، اس قدر اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرنے والا انسان یقیناخود بھی اعلیٰ ہوتا ہے۔میں سوچتا رہا کہ میرے خلاف کوئی بات کرے تو میرے اندر انتقام کی آگ بھڑک اٹھتی ہے، لیکن یہ کس قسم کا انسان ہے اپنے دشمنوں کے خلاف بھی لب کشائی نہیں کرتے، میں سوچتا رہا اور اسی نتیجے پر پہنچا کہ حامد میر ان انسانوں میں سے ایک ہیں جو صرف اور صرف اللہ سے ہی ڈرتے ہیں اور اسی لئے دوسرے لوگوں کی باتوں کو خاطر میں نہیں لاتے اور نہ ان سے کوئی ڈر اور خوف کھاتے ہیں۔


ہمارے معاشرے میں کچھ ایسے عناصر بھی ہیں ان کی باتیں سُن کر یوں لگتا ہے کہ وہ شیطان کے کارندے ہیں یااُن کے اندر شیطان نے اپنی روح پھونک دی ہو۔ انکی ہر بات، ہر نظر اور ہر اقدام شیطانیت سے بھر پور ہے۔ حامد میر کو چھ گولیاں لگی ہیں، جن میں سے دو ابھی تک جسم کے اندر ہیں، پیٹ میں لگنے والی گولیوں کی وجہ سے انہیں ایک بڑے آپریشن سے بھی دوگزرنا پڑا ہے اور انکے سارے زخم ابھی کچے ہیں، وہ انیس اور بیس مئی کو سپریم کورٹ میں خصوصی کمیشن کے سامنے پیش ہوئے تو انہوں نے ڈاکٹروں کی ہدایت پر ٹی شرٹ کے اوپر Abdominal Supportباندھ رکھاتھا ، جس کسی کو پیٹ میں زخم ہوں ،نقل و حرکت کے دوران یہ پہننا اُس کیلئے لازمی ہے تاکہ اگر اُسے ویل چیئر پر یا گاڑی سے اترتے یا بیٹھتے ہوئے دھکا یا ٹھوکر لگے تو اس صورت میں Abdominal Support زخموں کی حفاظت کرتا ہے اور زخموں یا ٹانکوں کو کھلنے نہیں دیتا۔

لیکن بعض شیطانی عناصر نے سوشل میڈیا پر حامد میر کے Abdominal Supportپر بھی باتیں کیں جس سے نہ صرف انکی جاہلیت بلکہ انتہائی بغض اور عناد بھی سامنے آیا۔ ان لوگوں کو مسلمان کہنا تو دور کی بات ہے میں انکو انسان بھی نہیں مانتا، کیونکہ انسان وہ ہوتا ہے جس میں انسانی صفات ہوں،مسلمان وہ ہوتا ہے جس میں مسلمان ہونے کے اوصاف پائے جاتے ہوں۔ حامد میر کے نظرئے یا بعض معاملات میں انکے نقطہ نظر سے اختلاف کرنا کسی بھی انسان کا حق ہے، لیکن حامد میر کے جسم کو جب چھ گولیاں لگیں، معجزاتی طور پر انہیں ایک نئی زندگی ملی ہو اور وہ شدید درد سے گزر رہے ہوں تو اُنکی ذات پر حملے کرنا شیطانی فعل ہے۔

حامدمیر کی ذات پر جو لوگ کیچڑ اچھالنے کی کوشش میں مصروف ہیں ان میں کچھ نام نہاد ٹی وی اینکر بھی ہیں،،، انکی نازیبا گفتگو اور طرزعمل سے کچھ یوں محسوس ہورہا ہے کہ وہ حامد میر کے بچ جانے سے خوش نہیں،،، ہاں ، انکو یاد رکھنا چاہئے کہ اگر خدانخواستہ حامد میر اِس دنیا میں نہ بھی رہتے تو بھی انکی جگہ کوئی نہیں لے سکتا تھاکیونکہ اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کو اِس دنیا میں ایک ایسی بادشاہی کا تختہ عطا کرتا ہے کہ انکے دنیا سے چلے جانے کے بعد وہ تختہ خالی رہتا ہے، کیونکہ اللہ نے وہ خصوصی طور پر اُنہی لوگوں کیلئے مختص کررکھا ہوتا ہے۔


حامد میر اور انکے دشمنوں پر نظر ڈالتے ہوئے علامہ اقبال کا یہ شعر بار بارمیرے ذہن میںآ تا ہے:
پرواز ہے دونوں کی اِسی ایک فضا میں
کرگس کا جہاں اور ہے،شاہیں کاجہاں اور!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :